نقطہ نظر

پانچ روپے کے نوٹ پر موجود سرنگ کی تاریخ

کہتے ہیں کہ سرنگ کے چیف انجینیئر نے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی مگر کوئی نہیں جانتا کیوں۔

جب میں نے ملک کی سیر کا آغاز کیا تب میں نے سب سے پہلے وہ جگہیں دیکھنے کا پروگرام بنایا جن کی تصاویر ہمارے کرنسی نوٹوں پر چھپی ہیں۔

یہ تلاش مجھے ایسی جگہوں پر لے گئی جہاں جانے کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور جہاں عام طور پر میرا جانا بھی نہیں ہوتا۔ یہ سفر مجھے پاکستان کے جنوبی حصے میں پاک افغان سرحد کے قریب بھولی بسری سرنگوں سے لے کر ملک کے شمالی حصے میں موجود بلند و بالا پہاڑوں تک لے گیا۔

کھوجک ٹنل — تصویر دانیال شاہ

کھوجک ٹنل کی جانب گامزن ریلوے پٹریاں — تصویر دانیال شاہ

یہ سفر مجھے کوئٹہ کے مغرب میں 113 کلومیٹر دور واقع کھوجک پاس بھی لے گیا۔ ماضی کی ایک یادگار یہ سرنگ ہمارے پانچ روپے کے نوٹ (جو کہ اب بند ہو چکا ہے) کی زینت بنی تھی۔

اس سرنگ کے سامنے شیلا باغ نامی ایک قصبہ ہے۔

برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم کے دوران دونوں قوتیں اپنا اقتدار وسطی ایشیا میں پھیلانا اور اس خطے میں موجود قدرتی وسائل پر قابض ہونا چاہتی تھیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستان میں موجود برٹش راج، روس کے وسطی ایشیا میں پھیلتے اقتدار کو لے کر پریشان ہونا شروع ہو گیا تھا۔

اس بات کے ڈر سے کہ روسی افغانستان سے قندھار کے ذریعے اس خطے میں داخل ہو سکتے ہیں، برٹش نے قندھار تک ریلوے پٹریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنی فوجوں کو وہاں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے برٹش کو مشہور 2290 میٹر بلند درہء کھوجک کو بائی پاس کرنا تھا جو کہ صدیوں سے فوجوں، تاجروں اور فاتحوں کی گزر گاہ رہا ہے۔

3.9 کلومیٹر طویل یہ سرنگ 1888 سے 1891 کے درمیان درہء کھوجک کے نیچے تعمیر کی گئی تھی اور اس سرنگ کا نام بھی اسی درے کے نام پر کھوجک ٹنل رکھا گیا۔

سرنگ کے بعد شیلا باغ اسٹیشن تعمیر کیا گیا تھا — تصویر دانیال شاہ

شیلا باغ اسٹیشن میں موجود ماضی میں استعمال ہونے والی چابیاں اس جگہ کی تاریخ کی شاہد ہیں — تصویر دانیال شاہ

ریلوے پٹری کوئٹہ سے گزرتے ہوئے کھوجک سرنگ پار کرتی ہے اور پھر سیدھا پاک افغان کے سرحدی شہر چمن تک جاتی ہے۔ برٹش اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکے۔

سرنگ کے سامنے ایک چھوٹی تختی نصب ہے جس پر اس کا نام اور اس کی تعمیری مدت کندہ ہے۔ یہ جگہ شیلا باغ قصبے میں سطح سمندر سے 1939.8 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شیلا ایک پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک موسمی پہاڑی ندی اور باغ کا ظاہر ہے کہ باغ ہی مطلب ہے۔

شیلا باغ کو لے کر کئی مقامی قصے کہانیاں مشہور ہیں مگر ان میں کسی ایک کی بھی تصدیق نہیں کی جا سکتی، مگر مقامی لوگ ان کے پختہ دعوے کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلی تو یہ ہے کہ اس علاقے کا نام شیلا نامی ایک رقاصہ پر رکھا گیا ہے جو کھوجک ٹنل کے تعمیری کام پر انتھک محنت کرنے والے مزدوروں کا دل بہلاتی تھی۔

دوسرا ایک خوفناک قصہ یہ بھی ہے کہ اس سرنگ کے تعمیری منصوبے کے چیف انجینیئر نے اپنے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی۔

کوئی نہیں جانتا کیوں۔ شیلا باغ کے مقام پر ریلوے اسٹیشن کو بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ سال پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد کی گئی فلم، مور دیکھ رکھی ہے انہوں نے اس فلم کے کچھ مناظر میں اس اسٹیشن کو ضرور دیکھا ہوگا۔

کھوجک ٹنل کی تصویر 1976 سے 2005 تک پانچ روپے کے نوٹ پر چھپی ہوتی تھی،جس کے بعد یہ نوٹ بند کر دیا گیا — دانیال شاہ

شیلا باغ اسٹیشن کے ٹکٹ گھر پر آج بھی ماضی کے خوبصورت بورڈز لگے ہوئے ہیں — تصویر دانیال شاہ

سرنگ کی ایک پرانی تصویر میں سرنگ کے داخلی حصے پر دو ٹاورز دیکھے جاسکتے ہیں جو کہ 1935 میں آئے زلزلے میں زمین بوس ہو گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انجینیئرنگ کے اس کمال کو تسلیم کیا اور 1976 میں اس کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر چھاپ دی گئی جو کہ 2005 تک یہ نوٹ چلتا رہا۔

نوٹ میں سرنگ کے مشرقی علاقے کو دکھایا گیا ہے اور یہ ایک یاد دہانی ہے کہ کس طرح کھوجک ٹنل نے ایک دور میں برصغیر کی اقتداری سیاست میں ایک اہم مرکز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا تھا۔


دانیال شاہ ڈاکیومنٹری فوٹوگرافر ہیں جنہیں بشریات میں دلچسپی ہے۔ وہ ٹریکنگ، کوہ پیمائی، غوطہ خوری اور چائے کے دلدادہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Danialshah_


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

دانیال شاہ

دانیال شاہ ڈاکیومنٹری فوٹوگرافر ہیں جنہیں بشریات میں دلچسپی ہے۔ وہ ٹریکنگ، کوہ پیمائی، غوطہ خوری اور چائے کے دلدادہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Danialshah_@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔