نقطہ نظر

"آپ کا موجودہ بیلنس ناکافی ہے"

موبائل فون کمپنیاں فراڈ پیغامات کے تدارک میں اب تک ناکام کیوں ہیں؟

گرمیوں کی ایک دوپہر میں کھانا کھانے کے بعد میں اپنے کمرے میں استراحت کے لیے لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئی۔ دفعتاً موبائل کی گھنٹی نے خواب خرگوش کے سلسلے کو بریک لگائے۔ نیم وا آ نکھوں سے نمبر دیکھ کر فون کان سے لگایا۔

ہیلو ۔۔۔

دوسری جانب سے دوست کی ہانپتی ہوئے آواز آئی، "جلدی باہر نکلو میں آرہا ہوں۔"

میں: کیوں خیریت؟

دوست: ہاں ہاں خیریت ہے، بس باہر نکلو فوراً۔

چلچلاتی دھوپ، سورج گویا آگ اگل رہا تھا۔ وہ لنگوٹیا اپنا لنگوٹ سنبھالتے ہوئے تقریبا دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ مجھے فون تھماتے ہوئے بولا۔

ابھی ابھی کال آئی، کہتا ہے کہ تمہارا پچاس لاکھ روپے انعام نکلا ہے، یہ لو اس سے بات کرو۔

کال ملتے ہی دوسری جانب سے بڑے شائستہ اور پیشہ ورانہ انداز میں سلام کیا گیا۔

میں: وعلیکم اسلام، جی سر؟

کالر: سر ہماری موبائل فون سروس کی جانب سے ایک قرعہ اندازی میں آپ کا پچاس لاکھ روپے انعام نکلا ہے، آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔

میں: خیر مبارک، لیکن یہ کیسی قرعہ اندازی ہے اور کس سلسلے میں کی گئی ہے؟

کالر: سر ہماری موبائل فون کمپنی اپنے مشہوری کے لیے کر رہی ہے، اس سلسلے میں مجھے آپ سے کچھ ضروری معلومات درکار ہیں، براہِ کرم میرے ساتھ لائن پر رہیں اور میرے سوالات کے جوابات دیں، اور برائے مہربانی مخاطب کرنے کے لیے مجھے اپنا نام بتا دیں پلیز۔

میں: مدثر، (اس پر دوست نے آنکھیں نکالیں کہ اپنا نام کیوں بتایا میرا نام بتاتے)۔

کالر: جی سر بہتر۔ سب پہلے یہ بتائیں کہ آپ کس جگہ پر ہیں، اور کیا وہاں نیشنل بینک موجود ہے؟

میں: جی ہاں نیشنل بینک ہے۔

کالر: اوکے سر، اب آپ ایک ٹوکن نمبر نوٹ کریں۔

اور اس نے کوئی بارہ ہندسوں پر مشتمل نمبر لکھوایا جو میں نے وہیں زمین پر ہی لکھا۔

نمبر لکھواتے ہی وہ اصل مدعا کی طرف آیا۔

کالر: اوکے سر، آپ کا ٹوکن نمبر کنفرم ہو چکا ہے، لیکن یہ ایکٹیو نہیں ہے۔ اسے ایکٹیو کرنے کے لیے آپ سو سو روپے والے دس موبائل اسکریچ کارڈ لے کر ہمیں کال کریں، پھر ہم بتائیں گے کہ اگلا طریقہ کار کیا ہوگا۔

میں: سر مجھے کچھ الجھن ہے۔ یہاں نیشل بینک میں میرے ابو برانچ مینیجر ہیں اور موبائل فون نیٹ ورک کے حوالے سے ایسی کوئی آفر میرے علم میں نہیں، نہ انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ (میں نے اندیھرے میں تیر چھوڑا، دوست نے میری پسلیوں پر زوردار کہنی رسید کی۔ اس کا مجھ سے مسلسل یہ مطالبہ تھا کہ میں اس سے کوئی غلط بیانی نہ کروں، انسان بن کر سیدھی طرح ساری معلومات کا اس سے تبادلہ کروں)۔

کالر: دیکھیں سر ہم اس سلسلے میں بینک کو اپنی کسی اسکیم کے متعلق آگاہ کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

میں: لیکن سر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی، آپ ایک اسکیم کا اجراء کرتے ہیں جو صرف نیشنل بینک سے مخصوص ہے، لیکن بینک اس اسکیم سے بھی لاعلم ہے۔ اور میں نے آپ کو اپنا نام بھی غلط بتایا ہے، یہ نمبر تو میرے نام پر رجسٹر ہی نہیں ہے، اور تقریباً ہنستے ہوئے کہا، اچھا طریقہ نکالا ہے لوگوں کو لوٹنے کا۔ چل نکل شاباش اور دوبارہ اس نمبر پر کال نہ آئے۔ اسے مزید چند ناقابلِ بیان القابات سے نواز کر فون بند کر دیا۔

اس دوران دوست جو مسلسل اپنی کہنی سے میری پسلیوں پر وار پر وار کیے جا رہا تھا، باقاعدہ گلے پڑ گیا کہ تمہاری تو خوامخواہ بات کروائی۔

میں نے اپنا آرام غارت ہونے کا غصہ اس پر نکالا، کماحقہ بے عزت کیا، کال لاگ ڈیلیٹ کیا اور فون اسے تھما دیا۔ بعد میں ایک عرصہ تک اس کی ناراضگی دور کرنے اور یہ سمجھانے میں لگا رہاکہ یہ سب نوسر بازیاں ہیں، سب فراڈ ہے۔

یہ وہ دور تھا جب موبائل فون نیٹ ورکس بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں کسی وباء کی طرح پھیلتے جا رہے تھے۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ لوگوں کو لوٹنے کا یہ انداز بھی نیا تھا۔ ان پڑھ لوگوں کے ساتھ پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی ان کا شکار ہو تے رہے۔

اس نوسر بازی کو 2008 میں شروع ہونے والے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بدولت ایک نیا زاویہ ملا۔

فراڈ کرنے والے ہر دوسرے موبائل نمبر پر میسج کے ذریعے بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت کیے گئے گھر گھر سروے میں انعام نکلنے کی نوید سناتے اور میسج میں موجود نمبرز پر رابطے کا کہا جاتا۔ رابطہ کرنے پر موبائل ری چارج کارڈ کا مطالبہ کیا جاتا، یا یہ کہا جاتا کہ کسی موبائل پیسہ شاپ پر جا کر ہم سے رابطہ کریں، ساتھ ہی اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ شاپ پر کسی کو حتٰی کہ دکاندار کو بھی انکم سپورٹ میں پیسے نکلنے کا نہیں بتانا اور اس طرح ان سے پیسہ شاپ کے ذریعے دھوکے سے پیسے منگوا لیے جاتے۔

یہ سلسلہ سالہا سال سے اب تک مسلسل جاری ہے۔ سادہ لوح لوگوں کے لٹنے کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہے اور اخبارات کی زینت بنتے رہے، لیکن ایک عرصے تک موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے ان اسپیم پیغامات کو فلٹر کرنے یا ان کا تدراک کرنے کی سرے سے کوئی کوشش نہ کی گئی۔

تلاوت، نظموں، نعتوں اور قوالیوں سے لے کر گانوں کو کالرٹیون بنانے، کالز، ایس ایم ایس، اور انٹرنیٹ پیکجز کی تشہیر کے لیے روانہ بیسیوں میسجز ہر نمبر پر بھیجنے والی یہ سیلولر موبائل فون کمپنیاں بے نظیر انکم سپورٹ اور ہسپتال میں داخل صباء اور اغوا ہونے والی عاصمہ کے نام سے بھیجے جانے والے میسج پر ایک عرصہ سے خاموش کیوں ہیں؟

کیوں انہوں نے میسجز اور اخبار ٹی وی یا سوشل میڈیا کے ذریعے ان نوسر بازوں اور فراڈیوں سے اپنے صارفین کا تحفظ نہ کیا؟ اخبارات اور ٹی وی میں مہنگے ترین اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والی موبائل فون کمپنیاں صارفین کی آگاہی کے نام پر اشتہارات کے نیچے ان میسیجز سے اپنی لاتعلقی کا اظہار اتنی باریک پٹی میں کرتی ہیں کہ جسے پڑھنے کے لیے مائیکرواسکوپ کی ضرورت پڑے۔

المیہ یہ ہے کہ بحیثیتِ صارف ہم اپنے حقوق سے ہی آگاہی نہیں رکھتے۔

اب یہ صارف کیا بلا ہے؟ صارف جسے عرف عام میں گاہک کہا جاتا ہے کی مختصر اور عام فہم تفسیر یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ایک پیسہ سے لے کر کسی بھی قیمت کے عوض کوئی چیز خریدتا ہے یا خدمات حاصل کرتا ہے، وہ صارف ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ بس میں بھی سوار ہو رہے ہیں، کار خرید رہے ہیں، سبزی خرید رہے ہیں یا جائیداد، تو آپ صارف ہیں۔

الغرض اگر آپ معمولی سی رقم کے عوض کوئی کال پیکج میسیج پیکج یا انٹرنیٹ بنڈل بھی خریدتے ہیں یا کوئی سروس ایکٹیویٹ کرواتے ہیں تو آپ صارف ہیں اور ایک صارف ہونے کی حیثیت سے آپ کے کچھ حقوق بھی ہیں۔

وطنِ عزیز، جہاں ایک روپے کی ٹافی سے لے کھربوں روپے کے کاروبار تک صارفین کو ان کے حقوق اور اشیاء کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا جاتا ہے، وہاں موبائل نیٹ ورک صارفین کا اس حوالے بیڑہ مزید غرق ہے۔ مجھ سمیت شاید ہی کوئی موبائل نیٹ ورک صارف ہو جو بصورتِ بیلنس اپنا سرمایہ لٹنے کی شکایت نہ رکھتا ہو۔

حد تو یہ ہے کہ موبائل کمپنی کی طرف سے کال آنے پر محض کسی بٹن کے اتفاقیہ دب جانے یا اسٹار ہیش کے درمیان کوئی نمبر دب جائے تو کوئی نہ کوئی سروس ایکٹیو ہو جاتی ہے اور دنوں ہفتوں یا مہینے کی بنیاد پر آپ کا موبائل بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً کریڈٹ ڈلوانے کے بعد محض چند ایک کالز کرنے پر ہی "آپ کا موجودہ بیلنس اس کال کے لیے ناکافی ہے" کا دل جلا دینے والا پیغام موصول ہونے لگتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 140 ملین سے تجاوز کر چکی ہے، جن کی جیبوں سے صبا، عاصمہ اور بے نظیر انکم سپورٹ والے نوسر بازوں کے علاوہ خود یہ سیلولر کمپنیاں پیکجز اور آفرز کے نام پر سرمایہ نچوڑنے میں ملوث ہیں۔

کمیشن برائے تحفظِ حقوقِ صارف کے تحت صارفین کی شکایات کے ازالے کے لیے کنزیومر کورٹس کا قیام ہوا تھا لیکن جب ملکی عدالتوں میں قتل سے لے کر کھربوں کی کرپشن تک کے مقدمات التواء میں پڑے ہوں وہاں ان سو روپے بیلنس کی شنوائی کون کرے گا؟ چنانچہ ان کورٹس کا قیام کسی عام موبائل صارف کے لیے چنداں فائدہ مند نہیں۔

جہاں ان کمپنیوں کا فرض ہے کہ موبائل فون کے ذریعے کی جانے والی ان نوسر بازیوں کا مستقل حل تلاش کریں، وہاں صارفین کو اس حوالے سے آسان فہم انداز میں اپنی مصنوعات کے قواعد و ضوابط سے مکمل آگاہی فراہم کریں۔

نیز صارفین کو بھی چاہیے کہ محض چند روپوں کا زیاں سمجھ کر ضائع ہونے والی رقم سے صرفِ نظر نہ کریں، بلکہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کی گئی سروسز آفر، پیکجز اور بنڈلز کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں، کوئی بھی پیکج لیتے وقت اس کی تاریخ تنسیخ اس میں دیئے گئے میسجز اور منٹ کی تعداد نیز انٹرنیٹ ڈیٹا کا حجم (volume) اور اس پیکج کی قیمت میں Inclusive اور Exclusive ٹیکس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں۔

کروڑوں صارفین کی جیبوں سے پیسہ پیسہ نچوڑا گیا یہ سرمایہ ان کمپنیوں کے کھاتوں میں لاکھوں روپے روزانہ کی بنیاد پر مستقل منتقل ہو رہاہے اس لیے موبائل استعمال کریں لیکن، ذرا بچ کے۔

مدثر ظفر

مدثر ظفر پیشے سے ہومیو فزیشن ہیں اور مطالعے و تحریر کا شوق رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔