نقطہ نظر

کھیل کھیل میں

دہشت گردی اور شدت پسندی پر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی دوغلی پالیسی نے پاکستان کے دامن کو انگاروں سے بھر دیا ہے

آپ نے کبھی پتنگ بازی کی ہے؟؟ اگر تو آپ کا تعلق پنجاب سے ہے تو آپ یقیناً اس کھیل سے بخوبی واقف ہوں گے. اس کھیل میں استعمال ہونے والی ڈور اگر الجھ جائے تو اسے سلجھانے میں نہ صرف انگلیاں کٹی جاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات ڈور اتنی الجھ جاتی ہے کہ وہ قابل استعمال نہیں رہتی.

پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیز بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہی ہیں. یہ ڈور اتنی الجھ چکی ہے، اس میں اتنے گنجل پڑ گئے ہیں اور اس نے اتنی انگلیوں کو زخمی کیا ہے کہ خیال تھا کہ اس میں جوہری تبدیلیاں لا کر ایک نئی پالیسی سامنے لائے جائے گی نہ کہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کر کہ عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا.

آخر کب تک ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ شدت پسند، جہادی تنظیموں کی پشت پناہی کر کے ان سے اپنا کام کرواتی رہے گی؟ یہ جانے بغیر کہ انکی اس پالیسی سے اگر ایک گروہ کو مٹایا جا رہا ہے تو دوسرے کو تقویت دی جا رہی ہے اور کون نہیں جانتا کہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی نرسری کے ڈانڈے افغان جہاد سے جا کر ملتے ہیں جبکہ جہاد کشمیر نے دوسری قسم کے شدت پسندوں کی ذہنی تربیت کا انتظام کیا تھا.

ایک کا نتیجہ تحریک طالبان کی صورت میں سامنے آیا جبکہ دوسرے کا تازہ ترین نتیجہ ممبئی حملوں کی صورت میں آیا تھا. شدت پسندی اور دہشت گردوں کو جب بھی ریاستی سرپرستی مہیا کی جائے گی تو غالب امکان یہی رہے گا کہ انھیں جو ہاتھ لقمے کھلا رہا ہے ایک دن اسی ہاتھ کو کھا لیا جائے گا.

اس سری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اب دوبارہ اس ہی ڈگر پر کام کیا جا رہا ہے. خبر شائد آپکی نظر سے بھی گزری ہو کہ مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان اور مخالف گروہوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے تحریک طالبان کے مہمند ایجنسی سے ترجمان عمر مکرم خراسانی کے مطابق تحریک طالبان پر حملہ کرنے والوں کا تعلق لشکر طیبہ، انصار السلام اور مقامی ملیشیا سے ہے.

کچھ عرصہ پہلے بھی یہ صورتحال دیکھنے میں آئی تھی اور ایسی خبریں سامنے آ رہی تھیں کہ تحریک طالبان کو دوسرے شدت پسند گرہوں کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے اور پاک افغان بارڈر کے پاس یہ سرگرمیاں جاری ہیں یہ بارڈر افغانستان کے ان علاقوں سے ملتا ہے جہاں پر TTP کا ساتھی سوات والا ملا فضل الله اور اس کے حواری پناہ گزیں ہیں اور وہاں سے پاکستان پر حملے کر رہا ہے.

ویسے تو لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ اختیارات کی جنگ ہے جس میں مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی تھی اور مخالف گروہ اس خواہش کو پورا نہیں ہونے دے رہے. مزے کی بات یہ ہے کہ مخالف گروہ جنکا نام تحریک طالبان کی جانب سے سامنے آیا ہے ان میں سے بیشتر پاکستان کی سیکورٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک سمجھی جاتی ہیں. اگرچہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور یہ جہادی گروہ اس تعلق سے انکاری ہیں لیکن وہ عشق ہی کیا جو چھپ جائے.

ماضی اور حال کو سامنے رکھا جائے اور ہمارے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت پر تکیہ کیا جائے تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس نئے کھیل میں ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ بطور 'کوچ' حصّہ لے رہی ہے.

اس قیاس کو کرنے میں بہت مدد آپ کو اس وقت مل سکتی ہے جب آپ حقانی گروپ کے حوالے سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیز پر نظر ڈالیں گے اور صرف حقانی گروپ ہی کیا ہمارا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ ریاستی خرچ پر شدت پسند غنڈے پالے رکھو اور حسب ذائقہ اور ضرورت انکو استعمال میں لاؤ.

لیکن ایک عفریت جو اس پالیسی سے جنم لیتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ان گروپس کو ریاستی پشت پناہی ملتی ہے تو پھر یہ اپنے دیگر مذموم مقاصد بھی حاصل کر لیتی ہیں اور ریاست کو انکی طرف سے آنکھیں موندنا پڑتی ہیں کیونکہ یہ آپکے 'اثاثہ جات' ہیں کیا ہوا اگر دل بہلانے کے لئے فرقہ واریت اور کبھی کبھی ملک کے علاقوں میں ٹھاہ ٹھو کر لیتے ہیں.

تحریک طالبان کی لڑائی ملک کے ساتھ ہے اور ان درندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہئے اور اسکے لئے ریاست کو اپنے تمام وسائل بروکار لانے چاہیں.

پاکستان کی دہشت گردی اور شدت پسندی کے ضمن میں اس دوغلی پالیسی نے ملک کے دامن کو انگاروں سے بھر دیا ہے. تحریک انصاف بھلے اس دہشت گردی کا سہرا ڈرون حملوں کے سر باندھے لیکن سچ یہی ہے کہ اس کی جڑیں ہماری دہشت گردی اور شدت پسندی میں 'اچھے اور برے' کی تقسیم سے جا کر ملتی ہیں.

سوال یہ ہے کہ آج آپ تحریک طالبان کا قلع قمع ان گروہوں کے ہاتھ کروا رہے ہیں لیکن کل کو ان گروپس سے کون نمٹے گا؟

کیا ہماری ریاست اور فوج اتنی کمزور ہے کہ وہ تحریک طالبان سے لڑنے سے قاصر ہے؟ پھر بجٹ میں جو دفاع کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں اس سے کیا کیا جاتا ہے؟

ہماری اس دوغلی پالیسی نے پاکستان کو اس غریب کی چھت بنا کر رکھ دیا ہے جو برسات کے موسم میں ایک سوراخ کو بند کرتا ہے تو دوسرے سوراخ سے پانی ٹپکنا شروع ہو جاتا ہے.

آرمی چیف نے تو بڑے کھلے انداز میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ کہا تھا کیا اس میں کوئی تفریق کی گئی تھی کہ فلاں تنظیم اس میں شامل ہے اور فلاں نہیں؟

شدت پسندی کو دہشت گردی میں بدلنے کے لئے بس ایک آنچ ہی چاہئے ہوتی ہے اور اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوۓ ملک کی نئی سیکورٹی پالیسی کو تشکیل دیا جانا چاہئے.

یہی شدت پسند تنظیمیں کسی نہ کسی سطح پر کبھی فرقہ وارانہ تنظیموں کو مدد فراہم کر رہی ہوتی ہیں اور کہیں دہشت گرد تنظیموں کو. وقت آ گیا ہے کہ ملک کو اس دیمک سے چھٹکارہ دلوایا جائے اور فاٹا کو بھی صوبے کا درجہ دے کر وہاں پاکستانی ریاست کی بھرپور انداز میں عملداری قائم کی جائے.

دہشت گردی کا پھل شدت پسندی کے پودے پر ہی لگتا ہے اس لئے بجائے کہ اس پھل کو توڑا جائے بہتر ہے کہ پورے پودے کو ہی اکھاڑ دیا جائے ورنہ آج آپ تین تنظیموں کے زریعے ایک کا وجود ختم کر رہے ہیں کل کو جب یہ اپنا خراج مانگیں گی تو آپ کس کی طرف دیکھیں گے؟

یہ ڈور اتنی الجھ چکی ہے کہ کھیل ہی کھل میں ہمارے ہاتھ لہولہان ہو چکے ہیں. 'اثاثہ جات' کی پالیسی اور 'اچھے اور برے' کی تخصیص نے ملک کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے، وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کی نقشہ گری، ہندوستان کے کان اینٹھنے اور امریکہ کو سبق سکھانے کے بجائے پاکستان پر توجہ دیجئے!!


علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔