پاکستان

'ٹرمپ بھی نواز شریف کو پاناما اسکینڈل سے نہیں بچا سکتے'

اچھی خبریہ ہےکہ دونوں رہنماؤں کی گفتگو ہوئی، لیکن بری خبر یہ ہےکہ ٹرمپ کاکوئی خط بھی وزیراعظم کو بچانہیں سکتا،عمران خان

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ بھی نواز شریف کو پاناما اسکینڈل سے نہیں بچا سکتے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان کا کہنا تھا، 'اچھی خبر یہ ہے کہ ٹرمپ اور نواز شریف کی بات چیت ہوئی، لیکن وزیراعظم نواز شریف کے لیے بری خبر یہ ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی انھیں پاناما اسکینڈل سے نہیں بچا سکتے، چاہے ٹرمپ کا کوئی خط بھی کیوں نہ آجائے'۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے انھیں امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی تھی جبکہ منتخب امریکی صدر نے نواز شریف کو سراہتے ہوئے ان سے جلد ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کردی

وزیراعظم نوازشریف نے امریکی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو دورہ ضرور کرنا چاہیں گے۔

حکومت کے پریس اینڈ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی جانب سے جاری کیا گیا وزیراعظم نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو کا متن درج ذیل ہے:

وزیراعظم نواز شریف نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کیا اور انھیں کامیابی پر مبارکباد دی، صدر ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ آپ کی ساکھ بہت اچھی ہے، آپ ایک لاجواب انسان ہیں اور آپ جو حیرت انگیز کام کر رہے ہیں، وہ ہر طرح سے نظر آرہا ہے، میں آپ سے جلد ملنے کا خواہشمند ہوں، آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں، جسے میں طویل عرصے سے جانتا ہوں، آپ کا ملک شاندار ہے اور یہاں بے پناہ مواقع موجود ہیں، پاکستانی دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، میں کسی بھی قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کی مدد کرنے اور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں، یہ میرے لیے ایک اعزاز ہوگا اور میں ذاتی طور پر یہ کام کروں گا، آپ جب چاہیں مجھے کال کرسکتے ہیں، 20 جنوری سے قبل بھی، جب میں اپنے دفتر کی ذمہ داریاں سنبھال لوں گا۔

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایک شاندار ملک اور شاندار لوگوں کی شاندار جگہ آکر خوشی محسوس کریں گے، برائے مہربانی پاکستانی عوام کو میرا پیغام دے دیجیئے گا کہ آپ لوگ زبردست ہیں اور جن پاکستانیوں کو میں جانتا ہوں، وہ غیر معمولی لوگ ہیں۔


دوسری جانب اپنی ٹوئیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے 'خط' کا ذکر کرکے عمران خان نے قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادہ حماد بن جاسم بن جبر الثانی کے اس تحریری بیان پر بھی تنقید کرڈالی، جسے سپریم کورٹ میں پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے 15 نومبر کو پیش کیا تھا۔

اس کے بعد سے ہر ایک کی زبان پر قطر سے آنے والے اس خط کے ہی چرچے ہیں، جس میں شہزادہ حماد بن جاسم کا کہنا تھا کہ ان کے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے اور ان کے بڑے بھائی شریف فیملی اور ان کے کاروبار کے منتظم تھے۔

قطری شہزادے کا کہنا تھا کہ 1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی اور تقریباً 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ان کے کاروبار میں لگائے، جو میاں شریف نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا مزید کہنا تھا کہ 'لندن کے 4 فلیٹس (16، 16 اے ، 17 اور 17 اے ایون فیلڈ ہاؤس، پارک لین ، لندن) دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میاں نواز شریف کے والد نے اپنی زندگی میں ہی کاروبار حسین نواز کو دینے کی خواہش کی تھی، جس کے بعد 2006 میں الثانی فیملی اور حسین نواز کے درمیان لندن پراپرٹی کے معاملات طے پائے'۔

جس پر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف ہے اور اس دستاویز نے وزیر اعظم کے عوام کے سامنے دیئے گئے موقف کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں اور عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ ان درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔