پاکستان

’اپنی گڑیا کے ساتھ کوئی یہ سلوک کرتا ہے؟‘

اگر میرا وجود پسند نہیں تھا، تو اپنے ہاتھوں سے میرا گلا دبا دیتے، مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی کتوں کے دبوچنے سے ہوئی۔

میں شاید ایک دن کی تھی جب میرے امی ابو نے مجھے باہر جھاڑیوں میں پھینک دیا، رات کا وقت تھا ، مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا اور سردی بھی، میں نے صبح سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔

میں کچھ بول بھی نہیں سکتی تھی، مجھے بہت رونا آ رہا تھا، پھر اچانک مجھے ایک آہٹ سنائی دی، وہ جو کوئی بھی تھا میرے امی ابو جیسا نہیں تھا، شاید کوئی جانور تھا بلکہ وہ تو ایک آوارہ کتا تھا، مجھے اس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔

اس کتے نے مجھے دبوچ لیا، اور مجھے نوچنا شروع کر دیا ، مجھے بہت درد ہوا اور میں نے رونا شروع کردیا۔

آوازیں سن کے وہاں اور بھی کتے آگئے تو میں نے ڈر کے مارے زیادہ زور سے چلانا شروع کردیا کہ شاید اب تو میرے امی ابو آجائیں لیکن کوئی نہیں آیا۔

پھر اچانک دو انکل آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا اور گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے۔

ہسپتال میں سفید کپڑوں والے ایک اور انکل نے مجھے بیڈ پر لٹایا، کتوں کے نوچنے اور پنجوں سے میرے جسم پر آنے والے زخم صاف کیے اور مجھے بہت سی مشینیں لگا دیں۔

مجھے لگا کہ شاید اب میں کچھ صاف ستھری اور اچھی لگنے لگوں گی تو میرے امی ابو مجھے آکر لے جائیں گے، لیکن یہ کیا، اگلے دن جب میں اٹھی تو ایک سفید نور کا ہالہ میرے سرہانے تھا، جس سے مجھے آواز آئی کہ پیاری پری یہ جگہ آپ کے رہنے کے قابل نہیں، میں آپ کو لے جانے آیا ہوں، پھر یوں لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے کسی اور ہی جگہ لے آئے، یقین کریں میں یہاں بہت خوش ہوں، یہاں کوئی مجھے تکلیف پہنچانے نہیں آتا۔

یہاں میرے جیسے اور بھی بہت سے بچے ہیں،ہم سب مل کر کھیلتے ہیں، کوئی بھی اپنے امی ابو کو یاد نہیں کرتا، میں بھی نہیں! لیکن مجھے اپنی امی سے، اپنے ابو سے بس ایک سوال کرنا ہے، ’اپنی گڑیا کے ساتھ کوئی یہ سلوک کرتا ہے؟‘

اگر میرا وجود پسند نہیں تھا، میں بوجھ معلوم ہو رہی تھی، تو اپنے ہاتھوں سے میرا گلا دبا کے مار ڈالتے، اس طرح مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی کتوں کے دبوچنے سے ہوئی، یا پھر مجھے زمین میں زندہ دفن کردیتے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی تو یہی ہوتا تھا۔

میں بھی یہی سمجھ لیتی کہ میں 21ویں صدی میں نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئی، جہاں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا تھا ۔

میرا اپنے امی ابو سے سوال ہے کہ میرا قصور کیا تھا، یہی کہ میں ایک لڑکی تھی یا پھر میرا وجود کوئی گناہ تھا؟، دونوں صورتوں میں میری کوئی غلطی نہیں ، مجھے اس دنیا میں کیوں لایا گیا، اگر آہی گئی تھی تو یوں کتوں کے آگے کیوں پھینکا گیا؟، میری ذات کی بلکہ انسانیت کی بے توقیری کیوں کی گئی؟

مجھے معلوم ہے کہ میری تصاویر انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی ہیں، لوگ انھیں دیکھ کر افسوس کر رہے ہیں، کچھ لوگ یہ حرکت کرنے والے میرے ماں باپ کو بھی برا بھلا کہہ رہے ، لیکن اب یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ ہوگا؟ مجھے خوشی اس وقت ہوگی جب میری جیسی کوئی اور گڑیا یوں کتوں کی خوراک بننے کے لیے سڑک پر نہ پھینکی جائے ۔ ۔ ۔

ارے ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گئی، یہاں مجھے ایلان کردی بھی ملا، وہی 3 سال کا شامی مہاجر بچہ جس کے ساحل پراوندھے منہ پڑے بے جان لاشے نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، جس کی تصویر نے دنیا میں امن اور انسانیت کے علمبرداروں کو کچھ وقت کے لیے ہی سہی ، اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔

ایلان نے ہی مجھے بتایا کہ میں پاکستان کی ایلان کردی ہوں، نہ جانے اس نے ایسا کیوں کہا ، شاہد کراچی کے گلستان جوہر کی جھاڑیوں کے قریب اوندھے منہ پڑے میرے ادھ موئے، زخموں سے چور جسم نے بھی معاشرے کو جھنجھوڑ دیا ہو،

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید اس کے بعد کوئی والدین اپنی بیٹیوں کو یوں جانوروں کے منہ کا نوالہ بننے کے لیے سڑک پر نہ پھینکیں۔

شاید ۔ ۔ ۔ لیکن نہیں، ایسا نہیں ہے، کیونکہ ابھی ابھی ایک اور گڑیا بھی لائی جا رہی ہے، اسے بھی میری طرح بہت سی چوٹیں لگی ہوئی ہیں۔

اب یہ نامعلوم گڑیا آپ سے اور باتیں نہیں کر سکتی، ہوسکے تو ذرا سوچ لیجیے گا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں واپس جا رہے ہیں؟ اور اب میں جہاں ہوں وہاں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے، امی ابو آپ کی بھی نہیں۔