پاکستان

مردان یونیورسٹی واقعہ، عدالتی تحقیقات کی منظوری

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوانے سمری پر دستخط کردئیے، سمری پشاورہائی کورٹ میں پیش کردی گئی۔
| |

وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں طالب علم کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دے دی۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے طالب علم کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے دستخط کی گئی سمری پشاور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی جہاں چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ یحییٰ آفریدی کمیٹی کی سربراہی کے لیے ایک نام دیں گے۔

کمیٹی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے بعد اپنی رپورٹ حکومت اور ہائی کورٹ میں جمع کرادے گی۔

صوبائی وزارت داخلہ کی جانب سے دو روز قبل عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے وزیراعلیٰ کو سمری ارسال کی گئی تھی جس کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ پرویز خٹک نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے توہین رسالت کے الزام پر ہلاک ہونے والے طالب علم مشعال کی جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اس طرح کا افسوس ناک واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے تھا جبکہ حکومت اس حوالے سے فکرمند ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'میں واقعے کے بعد سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سے رابطے میں ہوں اور اب تک طالب علم کی جانب سے توہین رسالت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا'۔

خیال رہے کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں دو روز قبل شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک طالب علم مشعال خان کو توہین رسالت کے الزام میں تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ ایک طالب علم زخمی ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

بعد ازاں یونیورسٹی نے شعبہ ابلاغ عامہ کے تین طالب علموں عبداللہ، محمد زبیر اور مشعال کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا جبکہ نوٹی فیکشن پر 13 اپریل کی تاریخ درج تھی جس دن مشعال کو قتل کردیا گیا تھا۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے فوکل پرسن فیاض علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مقتول طالب علم کو کیوں معطل کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ 'غلطی سے مشعال کا نام نوٹی فکیشن میں شامل ہوا'۔

دوسری جانب لاہور سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ایک ادارے نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے مبینہ گستاخی کے الزام پر مردان یونیورسٹی میں طلبہ کے تشدد سے طالب علم کی موت کے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مردان واقعہ : سپریم کورٹ سے از خود نوٹس کی درخواست

سول سوسائٹی نیٹ ورک کے صدر عبداللہ ملک کا درخواست میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کا نوٹس لیں تاکہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوسکے۔

ملزمان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش

مردان پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد 8 ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا۔

پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے اور متعدد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

مزید پڑھیں: مردان میں طالبعلم کا قتل،20 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد نے کہا تھا کہ تھانہ شیخ ملتون میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا اور مقدمے میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت 7 دفعات شامل کی گئیں۔

ڈاکٹر میاں سعید احمد کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے ملزمان کی شناخت ویڈیوز کے ذریعے ممکن ہوئی جبکہ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی 3 ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور مردان سمیت قریبی اضلاع میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔

مشعال کی موت گولی لگنے سے ہوئی

مشعال خان کے قتل کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کی موت گولی لگنے ہوئی جبکہ ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنا گیا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مشال خان کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور سر پر بھی کافی چوٹیں آئی تھیں۔

آئی جی کے پی کا اظہار برہمی

آئی جی کے پی صلاح الدین محسود نے پولیس کی جانب سے ہجوم کو روکنے میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا اور ایف آئی آرمیں نامزد تمام ملزمان کو پیر تک گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

مردان یونیورسٹی کے واقعے کی تحقیقات کےلیے دو ڈی پی اوزاوردیگر افسران پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔

آئی جی صلاح الدین محسود نے مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات دوروز میں مکمل کرنے کی سختی سے ہدایت کی۔

دوسری جانب عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے فرنٹیئرکانسٹیبلری (ایف سی) کو بھی تعینات کردیا گیا ہے جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں موجود ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے یونیورسٹی کو کھول دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے مشعال خان کے قتل پر سخت ردعمل دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے اور حکومت پاکستان کو قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے پر زور دیا۔