پاکستان

پاناما کیس کے فیصلے کو عالمی میڈیا نے کیسے رپورٹ کیا؟

پاناما لیکس کے فیصلے کو قومی کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے بھی نمایاں طور پر رپورٹ کیا۔

پاناما پیپرز کے عوام کے سامنے انکشاف کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد پاکستان کی عدالتی عظمیٰ نے جمعرات کو کیس کا فیصلہ سنادیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا، جو یہ تحقیقات کرے گی کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کی رقم قطر کیسے منتقل ہوئی۔

عدالت کا حکم میں کہنا تھا کہ اس وقت وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے شواہد ناکافی ہیں، تاہم عدالت نے ہدایت کی کہ شریف خاندان کی رقم قطر کیسے منتقل ہوئی اس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔

فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے سکھ کا سانس لیا اور لیگی کارکنوں نے خوب جشن منایا۔

پاناما لیکس کے فیصلے کو بین الاقوامی میڈیا نے کیسے رپورٹ کیا اس کی جھلک یہاں پیش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

دی ہندو

— اسکرین شاٹ

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنی خبر کو 131 الفاظ تک محدود رکھا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کو اپنی سرخی کا حصہ بنایا۔

دی ہندو نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف، گزشتہ سال پاناما پیپرز کے انکشاف کے بعد کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔‘

تاہم سابق کرکٹر عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی درخواست کو 2:3 کے تناسب کے فیصلے سے مسترد کردیا گیا۔

چائنا ڈیلی

— اسکرین شاٹ

چینی اخبار ’چائنا ڈیلی‘ پاناما لیکس کے فیصلے کی خبر کو محض 85 الفاظ تک محدود رکھا۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات کی مزید تحقیقات کا حکم دے دیا، کیونکہ انہیں نااہل قرار دیئے جانے کے لیے ثبوت ناکافی تھے۔‘

بی بی سی

— اسکرین شاٹ

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی مانیٹرنگ ٹیم نے معاملے پر تفصیلی رپورٹ مرتب کی، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کے کہ ان کے قارئیں کو کیس کے پس منظر سے بھی باخبر رکھا جاسکے۔

رپورٹ میں آج کے فیصلے کو دو پیراگراف میں پیش کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے ان کے خلاف کرپشن کے ثبوت ناکافی ہیں، جبکہ عدالت نے رقوم کی منتقلی کی مزید تحقیقات کا بھی حکم دیا۔‘

انڈیا ٹوڈے

— اسکرین شاٹ

بھارتی اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کی پاناما کیس کے فیصلے سے متعلق خبر کی سرخی یوں بنائی گئی کہ ’نواز شریف اپریل کے بھاری مہینے سے بامشکل بچنے میں کامیاب رہے، جس نے کئی پاکستانی سیاستدانوں کو ڈبو دیا ہے۔‘

اپریل کا مہینہ بھاری کیوں ہے؟

انڈیا ٹوڈے نے اپنے قارئیں کو اپریل کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اپریل 1993 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے برطرف کردیا تھا۔‘

’پاکستان کی تاریخ میں اپریل کا بدترین مہینہ 1979 کا تھا جب 4 اپریل کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معروف سیاستدان کی قتل کی مجرمانہ سازش پر راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی تھی۔‘

کئی سال بعد 26 اپریل 2012 کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو، سوئس حکومت کو آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق خط لکھنے کا عدالتی حکم نہ ماننے پر مجرم قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد یوسف رضا گیلانی نے اسی روز وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ

— اسکرین شاٹ

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ امریکا کے ان چند بڑے اخبارات میں سے ایک تھا جس نے پاناما کیس کا فیصلہ شائع کیا۔

اپنی رپورٹ میں اخبار نے اپنے قارئین کو فیصلے سے آگاہ کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی آئندہ عام انتخابات میں فتح کے امکانات پر قیاس آرائی بھی کی۔