پاکستان

مشعال کے اہلخانہ کا ساتھ نہ دینے پر پڑوسیوں کی معافی

گاؤں کے مکین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے ابتداء میں مشعال کے خاندان کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی۔

صوابی: مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں قتل ہونے والے مشعال خان کے آبائی علاقے زیدہ میں ان کے پڑوسی طالب علم کی قبر پر جمع ہوئے اور 'ساتھ نہ دینے پر مقتول اور ان کے اہلخانہ سے معافی مانگی'۔

مشعال کی قبر پر موجود ایک علاقہ مکین نے کہا، 'اقبال لالہ (مشعال کے والد) براہ مہربانی ہمیں معاف کردیں، ہم نے اُس وقت آپ کو دکھ پہنچایا جب آپ شدید کرب کی کیفیت سے گزر رہے تھے، ہم مرحوم سے بھی معافی کے طلب گار ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گاؤں کے مکین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے ابتداء میں مشعال کے خاندان کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی'۔

بعدازاں علاقہ مکینوں نے طالب علم مشعال خان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔

مزید پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

انھوں نے قاتلوں اور ان کے ساتھیوں کو سخت سزا کے ذریعے طالب علم کے اہلخانہ کو انصاف کی فراہمی کے مطالبے کے لیے ایک مظاہرہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

واقعے کے بعد یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کردیا گیا تھا جبکہ ہاسٹلز بھی خالی کروا لیے گئے تھے۔

مشعال کے قتل کے بعد متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال کے قاتل کا نام نہ بتانے کا حلف لینے کی ویڈیو منظرعام پر

اس سے قبل پختونخوا اُلاسی تحریک نے طالب علم کے قتل کے خلاف زیدہ میں ایک ریلی بھی نکالی۔

مظاہرین علاقے کی مرکزی مارکیٹ میں جمع ہوئے اور بعدازاں مشعال کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔

مظاہرے میں مقامی حکومت، سیاسی کارکن، سول سوسائٹی کے ارکان، تاجر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک تھے۔

مظاہرین نے شکایت کی کہ صوبائی پولیس چیف کی جانب سے مشعال کے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کے دعوے کے باجود بھی کچھ ملزمان ابھی تک مفرور ہیں۔

واضح رہے کہ مشعال کے والد کے قریبی دوست شیرین یار نے طالب علم کے جنازے کے انتظامات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'امام نے مشعال کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا'

شیرین کے ایک دوست لیاقت یوسفزئی نے ڈان کو بتایا، 'جب وہ اور ان کے دوست زیدہ سٹی کی مرکزی عیدگاہ میں جنازے کے انتظامات کے لیے پہنچے تو وہاں کی صورتحال کچھ کشیدہ تھی'۔

انھوں نے بتایا کہ 'شیرین نے زیدہ سٹی سے اپنے دوستوں کو بلوایا، جو فوراً ہی پہنچ گئے، جو ہمارے لیے بہت حوصلے کی بات تھی اور پھر مزید لوگ بھی آنا شروع ہوگئے'۔

مشعال کے خاندان کے ایک رکن نے بتایا کہ زیدہ سٹی کے رہائشی نثار خان نے بھی جنازے کے انتظامات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ خبر 21 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی