پاکستان

طیبہ تشدد کیس: معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کوواپس بھجوادیا گیا

میں ملزم کےخلاف انکوائری کاحصہ رہ چکاہوں جس میں انہیں قصوروار قراردیا ہے، اس لیےمیں کیس کومزید نہیں سن سکتا: جسٹس محسن

اسلام آباد: طیبہ تشدد کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کو سننے سے معذرت کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو واپس بھجوا دیا۔

طیبہ تشدد کیس کے ملزم ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے وکیل نے عدالتی کارروائی کے دوران جسٹس محسن سے کہا کہ آپ نے میرے موکل کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ہے لہٰذا آپ اس کیس کو نہ سن سکتے۔

جس پر محسن اختر کیانی نے تسلیم کیا کہ وہ ملزم راجہ خرم علی خان کے خلاف انکوائری کرچکا ہوں اور انھوں نے اپنی انکوائری میں انہیں قصور وار قرار دیا ہے لیکن اب ملزم کے اعتراض کے بعد اس کیس کو نہیں سن سکتے۔

اس پر راجہ خرم کے وکیل نے کہا کہ آپ پر کوئی اعتراض نہیں مگر قانون کے مطابق آپ اس کیس کو نہیں سن سکتے۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگا

سماعت کے دوران کیس کے حوالے سے اپنے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بلائے گئے ڈاکٹرز عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر عدالت نے دونوں ڈاکٹروں کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

راجہ خرم علی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا، حالیہ سماعت میں انہوں نے جواب بھی جمع کرا دیا۔

عدالت نے اس کیس کی سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔

طیبہ کیس، کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

ویڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

10 سالہ بچی کے مبینہ والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔

بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے بچی اور اس کے والدین کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا اور اگلی سماعت میں بچی اور اس کے حقیقی والدین کو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔