پاکستان

صدرنیشنل بینک ماضی میں لندن میں نرسنگ ہوم چلاتے تھے: اسحٰق ڈار

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نےجے آئی ٹی میں پیشی کے وقت‏ سعید احمد کے کسی بھی اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کے الزامات کو مسترد کردیاتھا۔

کراچی: وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے مالی معاملات اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو بتایا تھا کہ نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل لندن میں ایک نرسنگ ہوم چلا رہے تھے جہاں ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے جنہیں ان کی اولاد لاوارث چھوڑ دے یا جن کا کوئی نہ ہو۔

سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق 3 جولائی کو پیشی کے وقت جب وزیر خزانہ سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سعید احمد کو اسٹیٹ بینک کے نائب گورنر کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل جانتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ 'وہ جانتے تھے کہ سعید احمد لندن میں کئی برس سے ایک نرسنگ ہوم چلا رہے ہیں، جہاں خاص طور پر بوڑھے افراد کو رکھا جاتا ہے'۔

دوسری جانب اسحٰق ڈار نے جے آئی ٹی کو ڈائریکٹر آف ہجویری مضاربہ ‏سعید احمد کے کسی بھی اکاؤنٹ کی دیکھ بھال یا چلانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

مزید پڑھیں: نیشنل بینک کے صدر بھی پاناما جے آئی ٹی ارکان کے رویے سے نالاں

یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 3 جولائی کو جے آئی ٹی میں بیان دینے سے قبل کہا تھا کہ وہ سعید احمد کو زمانہ طالب علمی سے جانتے ہیں اور انہوں نے اسٹیٹ بینک کے نائب گورنر اور پھر نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر کے لیے سعید احمد کا نام دیا تھا۔

اسحٰق ڈار نے جے آئی ٹی کو عرب کمپنی براق ہولڈنگ کے بارے میں بھی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا اور بتایا کہ وہ صرف 2002 سے 2008 تک ابوظہبی کے شیخ النہیان کے مشیر کے طور پرکام کرتے رہے اور اس کمپنی کے معاملات دیکھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کمپنی یا گروپ کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرسکتے تاہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کا کسی پاکستانی کمپنی سے ٹرانزیکشن کا کوئی تعلق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:شریف خاندان کا مکمل ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ منی لانڈرنگ کا معاملہ ستمبر 1991 سے شروع ہوا جس میں 22 لاکھ 30 ہزار ڈالر کے کچھ مشتبہ فنڈز 2 اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے، جن کا تعلق سعید احمد اور مختار حسین سے ہے، تاہم فنڈز کے ذرائع کو چھپانے کے لیے تمام رقم موسیٰ گیلانی اور طلعت قاضی کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کردی گئی۔

جےآئی ٹی نے 1999 میں ہجویری مضاربہ اکاؤنٹ سے 102 ملین روپے سعید احمد کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے اور پھر وہاں سے نکالے جانے کے معاملے پر سوال کیا، جس کے جواب میں اسحٰق ڈار کہا کہ اس بارے میں انہیں کچھ یاد نہیں۔

جب جے آئی ٹی نے اسحٰق ڈار سے سعید غنی کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سعید غنی میرا بھتیجا ہے اور آج کل امریکا میں مقیم ہے جبکہ اس کے پاس برطانیہ کی شہریت بھی ہے، لیکن میری کافی عرصے سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اُن چند افراد میں شامل ہیں، جنھوں نے سپریم کورٹ میں شکایت درج کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے ان کی بے عزتی کی گئی اور ان کا نام بھی خراب کیا جارہا ہے، سعید احمد کا نام جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ میں بھی متعدد مقامات پر شامل کیا گیا ہے۔

یہ خبر 13 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی