نقطہ نظر

ہاتھی لاکھ کا، مرے تو سوا لاکھ کا

ببو برال کہتے تھے ہم وہ قوم ہیں جو بیوی سے مار کھا کر باہر والوں کو کہتے ہیں کہ جو بھی کرواتا ہے امریکا کرواتا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہو نہ ہو، اس پر ہونے والا شور شرابا تاریخی ضرور ہے۔ جو جیتا اس کا بھی، اور جو ہارا اس کا بھی۔ مٹھائی بانٹنے والوں کا بھی اور مٹھائی کھانے والوں کا بھی۔

جے آئی ٹی کی آندھی میں بہت سارے لوگوں کو بہت کچھ نظر آیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر اور ان کے ساتھی وکلاء، نواز شریف اور ان کے متوالے‪,‬ جمہوریت کے نئے اور پرانے پرستار سب اس فکر میں مبتلا تھے کہ کہیں یہ سارا میلہ کمبل لوٹنے کی سازش تو نہیں؟

اللہ جنت نصیب کرے ببو برال کہا کرتے تھے ہم وہ قوم ہیں جو بیوی سے مار کھا کر باہر تانگے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جو بھی کرواتا ہے امریکا کرواتا ہے۔ سو اسٹیبلشمنٹ بھی ایک ایسا بھوت بن گیا ہے جس کی کہانیاں سنا کر سیاسی مائیں اپنے بچوں کو سلاتی ہیں۔

پڑھیے: کیا شریفوں کی خاندانی سیاست کا تسلسل انجام کو پہنچا؟

ہم ویسے بھی دودھ کے جلے ہوئے ہیں سو چھاچھ سے تھوڑا سا خوف فطری ہے۔ ایک تو جمہور کو باری کم ملی اور جب بھی ملی تو کرپشن کے الزامات کے تحت چھین بھی لی گئی۔ ڈھیر سارے الزامات، کچھ سچے اور بہت سارے جھوٹے۔ خواہ وہ الزامات ثابت ہوں یا نہ ہوں، خواہ ان کو این آر او کا صیغہ پڑھا کر پابندِ شریعت کر دیا جائے، خواہ ان کی جوانی کوتوال سیاں کی عدم پیروی سے ادھیڑ عمری میں نہ تبدیل ہو گئی ہو۔ جب برادر اسلامی ممالک میں سیسی کی صورت میں نظریہ ضرورت کا نیا ماڈل اور بنگلہ دیش کی شکل میں ٹیکنو کریٹ احتساب کی کھچڑی نظر آئے تو نابینا حافظ جی کو کھیر تھوڑی سی ٹیڑھی تو نظر آئے گی ہی نا۔

کچھ اہلِ نظر یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ صرف میاں صاحب کا ہی احتساب کیوں؟ پاناما لیکس کے اس جھکڑ میں میاں صاحب کی چادر ہی کیوں اڑی ہے اور باقی سب پردہ داروں کے پردے سلامت کیوں رہے؟ ارے صاحب کیا سادگی ہے آپ کی بھی۔ لگتا ہے آپ عائشہ صدیقہ صاحبہ کی کتابیں زیادہ پڑھتے ہیں جبھی ایسی گستاخانہ باتیں کرتے ہیں۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی؟ اس ملک میں کرپٹ صرف سیاستدان ہے اور وہ بھی وہ والا جس کا کرپٹ قرار دیا جانا ملک کے مجموعی مفاد میں ہو۔ وہ لوگ جو ان باریوں کا فیصلہ کرتے ہیں اگر ان کی اپنی باری آنے لگے تو پھر باریوں کو تعین کون کرے گا؟

کچھ لوگوں کو ڈر تھا کہ ہمارے ملک میں کبھی کسی طاقتور کا احتساب نہ ہو سکا۔ وہ لوگ جن کو ہر موقع کی مناسبت سے حدیثیں سنانے کا فن آتا ہے وہ آپ کو وہ والی حدیث سنائیں گے کہ پرانی قوموں پر عذاب اس لیے نازل ہوا تھا کہ جب کوئی بڑا جرم کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب چھوٹا جرم کرتا تھا تو پکڑ لیتے تھے۔

پڑھیے: اس 'تاریخی فیصلے' پر کیوں نظرِثانی کی جانی چاہیے؟

دلائل میں اقبال کے اشعار اور فیض کی شاعری کے ذریعے دنیا کی بے ثباتی اور محبوب کی بے راہ روی کے اسباب پر روشنی ڈالی جائے گی۔ وہ لوگ جنہیں زنا بالجبر کے کیسز میں ڈی این اے یا دوسرے قسم کے جدید ثبوتوں کے ماننے پر تامل ہے وہ بھی فونٹ کب بنا اور عدالت میں کیسے ثابت کیا جائے، کی بحث میں شامل نظر آئے۔ آج کے غالب نے بھی ٹھیک کہا کہ 'وائے دس کیلیبری کیلیبری ڈی؟'

کچھ لوگ اس بحث میں وہ بھی ہیں جنہیں موضوعِ گفتگو سے زیادہ اس کی جزئیات سے دلچسپی ہے۔ کس نے کس وقت کس کے حق میں بیان دیا، کس کی حمایت کی اور کیوں کی؟ کون خود کرپٹ ہے اور کون کرپٹ کا ہمسایہ ہونے کے ناطے اس کی بریانی کی پلیٹ میں شریک ہے۔

کس کے والد گرامی نے اپنا پہلا شلوار قمیض سوٹ ادھار کی رقم سے خریدا اور کس کی بیگم نے اس کو طلاق کے بعد انار کلی سے ربڑی کھلائی۔ ذاتی حملوں، موضوع سے ہٹ کر بحثوں اور رنگ برنگی تاویلوں میں اصل موضوع بیچ میں کہیں دب جاتا ہے اور طرح طرح کی درفنطنیاں چوک میں بھنگڑا ڈالنے لگتیں۔ بات ان کی بھی سچ ہے کہ اس ملک میں پیسہ وہ ڈنڈی ہے جو کسی بھی ترازو میں فٹ کی جاسکتی ہے۔

عدالت کے فیصلے میں مگر کافی کچھ امید افزا باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات، چاہے میں اور آپ جتنی مرضی قسمیں کھا لیں کہ درست ہیں، احتساب عدالت کو بھیجے گئے۔ احتساب کا عمل ایک ایسی ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے تفتیش کار بھاگتا جبکہ ملزم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر 'پشاور سے میری خاطر دنداسہ لانا' والا گیت سن رہا ہوتا ہے۔

مگر دنیا کے ماہرین قانون متفق ہیں کہ جس پر الزام ہو اس کو دفاع کا مکمل حق دیا جائے۔ ایک بے گناہ کے سزا پانے سے بہتر ہے کہ دس گناہ گار چھٹ جائیں۔ سو اگر میاں صاحب کی فیملی قانون کے ترازو میں کچھ اور لٹکی رہے گی تو یا تو کندن بن جائے گی یا مٹی کا ڈھیر۔

پڑھیے: نواز شریف کی نااہلی: کہیں جشن، کہیں غم کا سماں

دوسرا پہلو یہ ہے کہ نواز شریف کو ایک ایسی تکنیکی بات پر نااہل قرار دیا گیا جو کہ عدالت کی نظر میں ثابت ہو چکی تھی۔ وزیرِ اعظم ہو کر کسی کمپنی کی ملازمت اور اس سے پیسے وصولنے کا جرم جتنا مضحکہ خیز ہے اتنا ہی مکافات عمل کا ثبوت بھی۔

اچھے زمانوں میں حکومتیں سیاسی مخالفین پر بھینس کی چوری اور کلاشنکوف کے مقدمات ڈلوایا کرتی تھیں اب حکومت کے سربراہ خود نااہل قرار پائے۔ نواز شریف کی نا اہلی سے چھوٹے صوبوں کا وہ گلہ بھی ختم ہو جائے گا کہ پنچاب کے وزیراعظم کو کبھی سزا نہ دی گئی۔

ایک لطیفہ پرویز مشرف کا بیان بھی ہے جنہیں عدالتوں کے طاقور ہونے کی خوشی ہے۔ کاش جس نے میاں صاحب کے اقامے کی کاپی ڈھونڈھی وہ کہیں سے مشرف کے کمر درد کا اصلی والا سرٹیفیکیٹ بھی ڈھونڈ لے۔

جو بھی ہے، عدالت کے فیصلے میں ہر کسی کے لیے کافی کچھ ہے۔ پاناما کے تبصروں کے ذریعے سونا دیتی مرغی کو ذبح تو کر دیا گیا ہے مگر اس کے انڈوں سے کئی اور چوزے نکلے ہیں جن سے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ رہے گا۔

جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے تو سیانے کہتے ہیں کہ زندہ ہاتھی لاکھ کا تو مرا ہو سوا لاکھ کا۔ انتظار شرط ہے۔

ویسے کرپشن کے تگڑے الزامات کو چھوڑ کر جس نمانی سی وجہ پر نواز شریف نا اہل ہوئے ہیں، ڈر ہے کہ کہیں اگلی باری کینٹین کا بل دیر سے دینے والے ارکانِ اسمبلی کی نہ ہو۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔