نقطہ نظر

پختون رسم ’اشر‘ سے ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے

یہ رسم باہمی اتفاق و اتحاد، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

پختون رسم اشر ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

امیر محمد خان

اکثر پختون دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں جس طرح سماجی بھلائی کے کاموں کو انجام دینے کے لیے غیر سرکاری تنظیمیں یا این جی اوز قائم کی جاتی ہیں، دراصل وہ پختون معاشرے کی ہزاروں برس پرانی رسم ’اشر‘ کی جدید شکل ہے۔ آج بھی رسم اشر کی جھلکیاں پختون معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

اشر کیا ہے؟

اشر ایک ایسی رسم ہے جس میں ایک گاؤں کے ہر گھر سے ایک ایک فرد حصہ لیتا ہے۔ اشر کا اہتمام گاؤں کے اجتماعی کاموں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ایسے ذاتی کاموں کے لیے بھی کیا جاتا ہے، جنہیں انفرادی طور پر کرنا آسان نہیں ہوتا، اِس رواج کی ایک سب سے خاص بات یہ بھی ہے کہ اِن کاموں کو بغیر کسی معاوضے کے رضاکارانہ طور پر انجام دیا جاتا ہے۔

اکثر اشر کا اہتمام گھاس کی کٹائی، پرانے گھر کے انہدام سے نئے گھر کی تعمیر، زیرِ تعمیر گھر کی چھت کی بھرائی یا پھر گاؤں میں کسی کے گھر شادی کی تقریب ہو تو ولیمے کا کھانا بنانے کے لیے لکڑیاں کاٹ کر جمع کرنے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔

اشر میں حصہ لینے والے افراد کی کوئی خاص تعداد متعین نہیں ہوتی بلکہ تعداد کا انحصار کام کی نوعیت پر ہوتا ہے، بعض اوقات پڑوس کے صرف ایک ہی شخص کو اشر کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ پورا دن کام میں لگا رہتا ہے لیکن جب گھاس کی کٹائی کے لیے اشر کا اہتمام کیا جائے تو یہ تعداد 20 افراد سے 100 یا پھر اُس سے بھی زائد افراد پر مشتمل ہوسکتی ہے۔

گھاس کی کٹائی کے لیے اشر کا اہتمام کیا گیا ہے—تصویر نصیب یار

اشر کا اہتمام کس طرح ہوتا ہے؟

جس دن کسی کام کو انجام دینے کے لیے اشر کا اہتمام کرنا مقصود ہو تو اِس سے ایک یا دو دن قبل گاؤں کے ہر گھر کے دروازے پر آواز لگائی جاتی ہے کہ کل ہم فلاں کام کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے کل ہمارا اشر ہے، آپ اپنے گھر میں سے کسی ایک فرد کو بھیج دیں۔ اِسی طرح پورے گاؤں میں ہر ایک کے دروازے پر جا کر دستک دی جاتی ہے۔

اشر کے بلاوے پر آنے والے لوگ مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے ہیں، حتیٰ کہ کام انجام دینے کے لیے درکار اوزاروں کو بھی لوگ خود اپنے ساتھ لاتے ہیں، پھر بلا تاخیر کام کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اشر کے لیے آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگوں کو بلایا جاتا ہے۔

آج کل خیبر پختونخوا کے بالائی علاقے، یعنی ضلع بونیر، ضلع شانگلہ، کالہ ڈاکہ اور مانسہرہ میں اشر کا موسم ہے کیونکہ ہر سال ستمبر اور اکتوبر میں لوگ یخبستہ سردیوں کی آمد سے قبل مویشیوں کے لیے گھاس زخیرہ کرنے کے لیے پہاڑوں سے گھاس کاٹی جاتی ہے۔ اِس گھاس کٹائی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موسمِ سرما میں جب پہاڑ برف کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تب ذخیرہ کی گئی گھاس ہی جانوروں کا چارہ بنتی ہے۔

اشر کے دوران ڈھول اور باجے بجانے والے اشر میں حصہ لینے والوں کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں—تصویر نصیب یار

غوبل کی رسم

اشر کے ساتھ جُڑی ایک دوسری رسم غوبل بھی ہے، تھریشر کے آنے سے قبل گندم کے خوشوں سے دانے نکالنے کے لیے پہلے گندم کو کاٹا جاتا، پھر ایک دو دن دھوپ میں خشک کیا جاتا، جس کے بعد غوبل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

غوبل کا جہاں اہتمام ہوتا ہے اُسے درمن کہا جاتا ہے۔ غوبل میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ درمن کے بیچ میں ایک مضبوط لکڑی زمین میں نصب کی جاتی ہے، اِسی لکڑی کے اردگرد گندم کے خوشوں کو رکھ دیا جاتا ہے، پھر ایک مضبوط رسی کی مدد سے کئی بیلوں کو لکڑی سے باندھ دیا جاتا ہے، جس کے بعد بیلوں کو خوشوں کے اوپر چلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے گندم کے دانے خوشوں سے الگ ہوجاتے ہیں۔ اِس غوبل کے لیے بھی اشر کا اہتمام ہوتا ہے اور یوں بیلوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے گاؤں میں جن لوگوں کے پاس بیل ہوتے ہیں اُن سے ایک دن کے لیے بیل منگوائے جاتے ہیں۔

اشر کی وجہ سے جہاں کئی دنوں کا کام صرف ایک دن میں ہی ہوجاتا ہے وہاں یہ رسم باہمی اتفاق و اتحاد، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے۔

ویسے تو اشر، مشترکہ طور پر مل کر دوسرے انسان کے لیے بلامعاوضہ کام کرنے کی رسم کو کہتے ہیں، لیکن اب یہ لفظ زیادہ تر گھاس کی کٹائی سے منسوب کردیا گیا ہے۔

غوبل کی رسم ادا کی جارہی ہے—تصویر نصیب یار

بیلوں کو غوبل کی رسم کے لیے استعمال کیا جارہا ہے—تصویر نصیب یار

پہاڑوں پر گاؤں کے تقریباً تمام لوگوں کا حصہ ہوتا ہے اور پہاڑ کا وہ حصہ جہاں لوگ گھاس کاٹتے ہیں اُسے برخہ یا پاڑہ پکارا جاتا اور اشر میں حصہ لینے والے افراد کو ’اشر گندے‘ کہا جاتا ہے۔ گاؤں کے ہر فرد کو پہاڑی پر اپنا رقبہ معلوم ہوتا ہے۔ برخہ یا پاڑہ عموماً گاؤں سے دور ہوتا ہے اور بعض مرتبہ اتنا دور بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایک سے دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ہی گھاس کاٹنے کی مقررہ جگہ پر پہنچتے ہیں، جہاں یہ ’اشر گندے‘ دوپہر کے کھانے اور چائے پینے کے علاوہ صبح سے لے کر شام تک بنا رُکے مسلسل گھاس کی کٹائی میں مصروف رہتے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ عام طور پر جس جگہ گھاس کی کٹائی کی جاتی ہے وہاں سے پانی کے چشمے کافی فاصلے پر ہوتے ہیں لہٰذا اشر کرنے والے صبح پانی کے چشمے پر 10 سے 15 مٹکے لے جاتے ہیں اور اُن میں پانی بھر کر رکھ دیتے ہیں، پھر اشر میں حصہ لینے والے ’اشر گندے‘ پانی سے بھرے مٹکے کندھے پر اُٹھاکر پیدل چلتے ہوئے مقررہ جگہ پر لے آتے ہیں اور سایہ دار جگہ پر رکھ دیتے ہیں اور پورا دن اُسی پانی سے اپنی پیاس بجھائی جاتی ہے۔

اشر میں اگر لوگوں کی تعداد زیادہ ہو تو دو یا چار افراد کو پانی لانے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے، یوں گھر سے دوپہر کا کھانا لانے کے لیے بھی ایک الگ ٹیم کو ذمہ داری دی جاتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد مَٹکوں میں چائے لائی جاتی ہے کیونکہ اشر میں موجود لوگوں کے علاوہ تماشائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، تماشائیوں کے کھانے اور چائے کے اہتمام کی ذمہ داری بھی اشر کرنے والے گھر پر ہی ہوتی ہے۔

اشر میں حصہ لینے والے لوگوں کے علاوہ تماشائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔

اشر میں لوگوں کو تفریح فراہم کرنے اور اُن میں پھرتی سے کام کرنے کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ڈھول، شہنائی یا ہارمونیم بجانے والوں کو بھی خصوصی طور پر بلوایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس اشر میں ڈھول باجا نہ ہو اُس اشر میں کام سست روی کا شکار ہوتا ہے اور بعض اوقات گھاس کی مطلوبہ کٹائی بھی نہیں ہو پاتی، چنانچہ ڈھول باجے ضروری ہوجاتا ہے تاکہ ’اشر گندے‘ گھاس کی کٹائی جلدی مکمل کرلیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ گھاس کٹائی میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ڈھول یا باجا بجانے والے اُس ایک فرد یا گروپ کے جیسے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں، یوں وہ مجبوراً تیزی سے گھاس کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ اشر میں گھاس کٹائی کے دوران 5 سے 10 افراد پر مشتمل گروپس بن جاتے ہیں اور پھر گھاس کٹائی کا ایک مقابلہ سا شروع ہوجاتا ہے۔

گھاس کٹائی کے اشر کے دوران لوگوں کے گروپ بن جاتے ہیں اور گھاس کٹائی کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے—تصویر نصیب یار

جب جب وہ ایک دوسرے سے آگے نکلتے ہیں تو زوز زور سے نعرے لگاتے ہیں یا پھر پشتو گیت جسے ٹاپہ کہا جاتا ہے، گانے لگتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہو رہا ہوتا ہے اور اِسی طرح پورا دن کڑاکے دار دھوپ میں گزر جاتا ہے۔

شام ہوتے ہی لوگ اشر کرنے والے کے گھر پر پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں، کھانا کھانے کے بعد رات کے وقت عموماً 10 بجے کے بعد تکھاوٹ دور کرنے کی غرض سے اکثر محفلِ موسیقی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، دو چار گھنٹے کے بعد محفل ختم ہوجاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر اشر کے بعد موسیقی کی محفل سجائی جائے۔

اشر میں گھاس کی کٹائی مکمل ہوجانے کے بعد گھاس کو ذخیرہ کرنے کے لیے پہاڑوں پر ایک جگہ اکٹھا کرکے محفوظ کیا جاتا ہے۔ گھاس کو دلئی بنا کر روایتی انداز میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ گاؤں میں دلئی بنانے کے فن میں چند افراد کو ہی مہارت حاصل ہوتی ہے، دلئی کا فن بزرگوں سے نوجوان نسل تک منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔

گھاس اگر پانی میں گیلا ہوجائے اور دھوپ نہ لگے تو سیاہ پڑ جاتا ہے جو جانوروں کے کھانے لائق نہیں رہتا، لہٰذا دلئی کے لیے ایک خاص مہارت درکار ہوتی ہے کیونکہ دلئی کھلے آسمان کے نیچے بنائی جاتی ہے لیکن اِس قدر احتیاط سے بنائی جاتی ہے کہ اگر دلئی کے اوپر برف بھی پڑے تو پانی اطراف سے نکل جاتا ہے لیکن دلئی کے اندر نہیں جاتا۔

موسمِ سرما میں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں، اور اِس بارش کی وجہ سے اگرچہ دلئی کے بیرونی حصے تو پانی سے نم ہوجاتے ہیں لیکن اندرونی حصہ پانی سے محفوظ رہتا ہے، یہی وجہ ہے دلئی بنانے کے فن میں مہارت درکار ہوتی ہے۔

جب گھاس کٹائی کے اشر میں لوگوں کی ایک بڑی حصہ لیتی ہے—تصویر نصیب یار

اشر رسم اور ایک فلاحی ریاست تصور

بظاہر تو اشر اور غوبل محض ایک رسم و رواج کا حصہ ہیں، جن میں لوگ ایک دوسرے کے کاموں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن اِس پرانی رسم میں جدید جمہوری ریاست کے اصولوں پر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔ مثلاً آج قانون سازی کی جارہی ہے کہ شادی بیاہ میں ون ڈش ہونی چاہیے جبکہ پشتون معاشرے میں ہزاروں برسوں سے چلتی آرہی اشر رسم میں ون ڈش ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ پختنوں کی مہمان نوازی کا تو کوئی جواب نہیں لیکن اشر کے موقعے پر ہمیشہ ون ڈش کا ہی اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں چکن شوربے پر دیسی گھی ڈال کر تناول کیا جاتا ہے یا پھر روٹی کا چورا ملا کر کھایا جاتا ہے۔

اشر یا غوبل جیسی رسومات میں امیر یا غریب کی کوئی تفریق بھی نہیں ہوتی بلکہ جس کی طرف سے بھی اشر کا بلاوا آجائے، لوگ بغیر کوئی فرق رکھے شرکت کرتے ہیں۔

یہاں قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے اگر گاؤں میں کوئی بیوہ ہو، یتیم ہو یا کسی کے گھر پر کوئی مصیبت، تکلیف یا مشکلات سے گِھرا ہو تو اُن کے لیے علاقہ مکین مل کر اشر کا اہتمام کرتے ہیں، لوگ خود مقررہ وقت پر پہنچ جاتے ہیں اور پوری محنت اور لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

دلئی چونکہ گاؤں سے دور پہاڑی پر بنی ہوتی ہے، چنانچہ اگر وہاں سے کوئی اپنے مویشوں کے لیے گھاس چوری چھپے لے جانا چاہے تو کسی کو خبر تک نہیں ہوگی، لیکن کمال بات دیکھیے کہ سنسان جگہ پر واقع اُس دلئی کی گھاس کو کوئی بھی شخص بغیر اجازت کے ہاتھ نہیں لگاتا۔

مذکورہ تمام خصوصیات ہمیں ایک فلاحی ریاست کے تصور میں ہی نظر آتی ہیں۔

اشر کی رسم پختون معاشرے کا اثاثہ ہے—تصویر نصیب یار

افسوس کہ ترقی اور ٹیکنالوجی کے اِس جدید دور نے انفرادیت کو پیدا کردیا ہے اور یوں معاشرتی سطح پر ہونے والے تعمیری اجتماعی رسم و رواج بھی دم توڑتے جارہے ہیں۔ اشر بھی اِن میں سے ایک رسم بنتی جا رہی ہے کیونکہ آج سے 20 یا 25 برس پہلے جتنی کثرت اور آسانی کے ساتھ اشر کا اہتمام ہوتا تھا آج اتنا آسان نہیں رہا، اِس کی جو بھی وجہ ہو لیکن ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں قائم اچھی رسم و رواج کو برقرار رکھیں۔ ہاں وقت اور حالات کے مناسبت سے اِن کے طریقہ کار تو ضرور بدلے جا سکتے ہیں لیکن اِس کا بنیادی مقصد ہرگز نہیں بدلنا چاہیے، کہ بے غرض ہوکر دوسرے انسان کی مدد کرنا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ رسم پختون معاشرے کا اثاثہ ہے اور یہ بزرگوں کی ایک امانت بھی ہے، لہٰذا اِس کا تسلسل قائم رہنا چاہیے۔


امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امیر محمد خان

امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔