پاکستان

کیا تھر آئندہ 10 برس میں دبئی بننے والا ہے؟

آنے والا وقت یہ جوابات دے گا کہ تھر کے باسیوں کی قسمت بدلنے کے جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ وفا ہوئے یا نہیں۔

میں تھر جارہی ہوں۔۔!

تھر؟ وہاں کیا کرو گی؟

مٹی، بنجر زمین، اوپر سے اتنی گرمی۔۔۔۔!

اور کوئی جگہ نہیں ملی جانے کے لیے؟

یہ اور اس جیسے بہت سے جملے سنتے اور انہیں نظرانداز کرتے ہوئے میں صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ کراچی سے تھر کے لیے روانہ ہوئی۔

تھر— وہ سرزمین جہاں کے باسی صدیوں سے پیاسے ہیں، جہاں قحط سالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جہاں موت رقصاں ہے، جس کی زد میں آکر کوئی نہیں بچتا، نہ تو ماؤں کی گود میں بلکتے معصوم بچے اور نہ ہی تھر کی مٹی پر رقص کرتے رنگین مور۔۔!

محرومی کا شکار سندھ کا ضلع تھر ہمیشہ سے نظرانداز ہوتا آیا ہے اور ہم بھی ذہن میں یہی تصور لیے گھر سے نکلے تھے کہ تھر کی جو تصویر ہمیں ہمیشہ سے دکھائی جارہی ہے، وہی سب کچھ ہمیں اپنے ٹرپ کے دوران دیکھنے کو ملے گا۔

خیر کراچی سے صبح 9 بجے نکلنے کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ گھارو میں تھا، جہاں ناشتے کے بعد دوبارہ سے روانگی ہوئی۔ گھارو، ٹھٹھہ، بدین اور مٹھی کے راستے میں کئی مقامات پر سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ملیں اور اس بات پر تھوڑا غصہ بھی آیا کہ آخر ایک نازک سی سڑک پر دو رویہ ٹریفک چلانے کی کیا منطق؟ اسے چوڑا بھی تو کیا جاسکتا تھا۔۔۔ خیر، آڑھے ترچھے موڑوں پر سامنے سے آنے والی گاڑیوں کو دیکھ کر بے اختیار دھڑکتے دل کے ساتھ ہم صرف کڑھ ہی سکتے تھے، لیکن ہاں ڈرائیور کی مہارت پر داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

اور آخرکار ایک طویل سفر کے بعد ہم اپی منزل تھر کے علاقے اسلام کوٹ پہنچے، جہاں گاڑی سے اترتے ہی تھر لاجز نے ہمارا استقبال کیا۔

انتہائی سادہ، خوبصورت اور مہارت سے تیار کیا گیا 'کنٹینر سٹی' دیکھ کر واقعی دل خوش ہوا اور سفر کی ساری تھکان کچھ حد تک کافور ہوگئی۔ خیرسب نے اپنے اپنے کنٹینرز میں سامان رکھا، منہ ہاتھ دھویا اور ڈائننگ ایریا کا رخ کیا، جہاں دوپہر کا کھانا ہمارا منتظر تھا، جسے کھا کر ہم دوبارہ سے گاڑیوں میں سوار ہوئے اور روانہ ہوئے اپنی منزل مقصود یعنی سندھ اینگرو کول مائن کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کی سائٹ کی جانب جوکہ پاکستان کا سب سے بڑا پبلک پرائیویٹ پراجیکٹ ہے۔

لیکن اس سائٹ تک پہنچنے کے لیے بھی کافی مراحل درکار تھے کیونکہ کمپنی کے اپنے گارڈز کے علاوہ یہاں سیکیورٹی اداروں کی چوکیاں بھی قائم تھی، جہاں سے کلیئرنس لیے بغیر وہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔

یہاں بتاتی چلوں کہ اس نجی کمپنی نے تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے بجلے بنانے کا ایک پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے، جس میں پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز 95 فیصد جبکہ 4 سے 5 فیصد شیئرز چینی کمپنیوں کے ہیں، جو کام مکمل ہونے کے بعد چلی جائیں گی، چینیوں کی موجودگی کے نتیجے میں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں شمولیت کے باعث اس پراجیکٹ کی سیکیورٹی بھی انتہائی سخت ہے۔

اتنی سخت سیکیورٹی اور کئی چیک پوسٹس پر روکے جانے پر ہمارے کچھ ساتھی کافی جُزبُز بھی ہوئے، لیکن کیا کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

سائٹ پر ہمارا استقبال کمپنی کے مینیجر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن محسن بابر نے کیا اور بتایا کہ کس طرح پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ملک میں توانائی کی طلب 2030 تک 6 گنا مزید بڑھ جائے گی۔

پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوار کے لیے سب سے زیادہ انحصار تھرمل انرجی پر کیا جاتا ہے، جس کا تناسب 67 فیصد ہے، اسی طرح ہائیڈل ذرائع سے 34 فیصد، نیوکلیئر سے 5 فیصد اور ونڈ سے 1 فیصد توانائی حاصل کی جاتی ہے۔

کول مائننگ سائٹ

اگر تھرمل انرجی کو دیکھا جائے تو اس میں 61 فیصد تیل اور 39 فیصد بجلی گیس سے پیدا کی جاتی ہے، یعنی ہمارے ملک میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار صفر فیصد ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر انحصار تیل اور پیٹرولیم مصنوعات پر کرنا پڑتا ہے، جو سعودی عرب، ایران اور قطر سے درآمد کرنے کی وجہ سے کافی مہنگی پڑتی ہیں، جس کے باعث گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

لیکن اگر کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع کی جائے تو یہ نہ صرف سستی ہوگی بلکہ پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کے لیے دیگر ممالک پر انحصار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

اس حوالے سے کام کا آغاز ہو چکا ہے اور اس وقت تھر کے بلاک-ٹو میں کول مائننگ شروع ہو چکی ہے، جہاں سے کھدائی کرکے کوئلہ نکالا جائے گا اور اس سے بجلی بنائی جائے گی۔

ہم میں سے شاید بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ صحرائے تھر میں دنیا کا ساتواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے، یعنی اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پورے ملک میں کل 186 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور ان میں سے بھی 175 ارب ٹن کوئلہ صرف تھر میں پایا جاتا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ ضلع تھر میں کوئلے کے ذخائر 9000 اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہیں، اس رقبے کو سروے کے بعد 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا، جس میں سے صرف ایک حصہ یعنی بلاک-2، ایس ای سی ایم سی کو الاٹ ہوا، جہاں تھر کے کل کوئلے کے ذخیرے کا ایک فیصد موجود ہے،جس سے آئندہ 50 سال تک 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، واضح رہے کہ اس وقت ملک کی بجلی کی یومیہ طلب 15 ہزار سے 20 ہزار میگاواٹ ہے۔

کوئلے کی کھدائی کا یہ پراجیکٹ جون 2019 تک مکمل ہوجائے گا، دوسری جانب اس کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ اینگرو پاور جنریشن تھر لمیٹڈ (ای پی ٹی ایل) کے ذمہ ہے، جس میں بڑا شیئر اینگرو کا ہے، 660 میگا واٹ پاور پلانٹ اور 180 میٹر طویل چمنی پر مشتمل یہ پراجیکٹ بھی کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔

—فوٹو بشکریہ : توصیف رضی ملک

تھر کے کوئلے سے بنائی جانے والی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی، جسے حکومت کی جانب سے فیصل آباد اور ساہیوال کے لیے مختص کیا گیا ہے اور یہی نکتہ اختلاف تھا کہ تھر کا وہ باسی جو صدیوں سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے، اپنی سرزمین سے نکلنے والے کوئلے سے بننے والی بجلی کا بھی حقدار نہیں، لیکن یہاں بات آگئی قوانین اور اصول و ضوابط کی، جس کے تحت بجلی چاہے کہیں بھی، کسی بھی علاقے میں بنائی جائے، جائے گی وہ سرکار کے ہی کھاتے ہیں، جو پھر اسے تقسیم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

ایک بات جسے سراہنا ناانصافی ہوگی، وہ یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی اس پراجیکٹ کی تکمیل کے سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے، جس کا ثبوت ہمیں اسلام کوٹ آنے والی بہترین سڑک اور انفراسٹرکچر کو دیکھ کر ہوا، جبکہ یہاں اسلام کوٹ ایئرپورٹ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

سندھ حکومت کول مائننگ کے اس پراجیکٹ میں 52 فیصد کی پارٹنر ہے جبکہ تھر سے نکلنے والے کوئلے کا ٹیرف مقرر کرنے کے لیے ایک آزاد ریگولیٹر کا قیام بھی سندھ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔

بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے کچھ عرصہ قبل گورانو ڈیم کے لیے زمین مختص کی تھی، وہ بھی اینگرو کے سپرد کردی گئی، جو اس ڈیم کی تعمیر میں مصروف ہے۔

دوسری جانب تھر کے کوئلے کی کھدائی سے نکلنے والے زیر زمین پانی کو بھی ٹریٹ کرکے اس سے مختلف فصلوں کی کاشت کا تجربہ کیا جارہا ہے، جس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

محسن بابر کا کہنا تھا، 'تھر آئندہ 10 برس میں دبئی بننے والا ہے' اور ہم سب کے دل سے اختیار نکلا، آمین!

یہ ساری باتیں تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہنا بھی چاہیے لیکن یہ سوال ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ آخر تھر کے ان باسیوں کا کیا ہوا، جو منصوبے کی زد میں آنے کی وجہ سے اپنی زمینوں سے محروم ہوئے۔

تھر کے لوگوں کے لیے تیار کیے گئے ماڈل گھر

یہاں ہمیں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی اور بتایا گیا کہ اس پراجیکٹ کی زد میں آنے والے کل 617 خاندانوں کو 2019 میں یہاں سے منتقل کیا جائے گا اور ان کی زمینوں کے بدلے کئی گنا بڑے گھر تعمیر کرکے دیے جائیں گے، واقعی اگر ایسا ہوا، جو کہ واقعی ہونا چاہیے تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے۔

یہی تمام سوالات اور منصوبے کی تکمیل کے بعد اس کے ثمرات تھر کے لوگوں تک پہنچنے کی امید ذہنوں میں لیے ہم بریفنگ سائٹ سے نکلے اور ہمارا اگلا پڑاؤ ہوا ڈائننگ ایریا میں، جہاں رات کے کھانے کے ساتھ ساتھ ایک شاندار میوزیکل کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جس سے واقعی سفر کی ساری تھکان اور بریفنگ کے دوران ہونے والے سوال و جوابات اور تکرار کا اثر کچھ زائل ہوا۔

اور جب ہم وہاں سے واپس کنٹینر سٹی واپس آئے تو رات کے تقریباً ساڑھے 12 بج رہے تھے، پھر بس ہم تھے اور نیند کی گہری وادیاں۔۔۔

راستے کا ایک منظر

اگلے دن ہمیں صبح ساڑھے 6 بجے جگا دیا گیا اور 7 بجے ناشتہ کرکے ہم ای پی ٹی ایل سائٹ پر پہنچے جہاں 660 میگا واٹ پاور پلانٹ اور 180 میٹر چمنی کی تعمیر تیزی سے جاری ہے، اس سائٹ پر ہمیں جنرل مینیجر ایڈمنسٹریشن فرحان انصاری اور مینیجر کنسٹرکشن فضل رحمٰن تھیبو نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ابتداء میں یہاں 160 میٹر طویل چمنی تعمیر کی جانی تھی، لیکن بعدازاں اسے 180 میٹر کردیا گیا، جس پر اضافی 5 ارب روپے لاگت آئے گی، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ دنیا کی سب سے طویل اور بڑی چمنی ہوگی۔

ای پی ٹی ایل سائٹ اور چمنی کا ایک منظر

اس سائٹ پر ہمیں بڑی تعداد میں چینی انجینئرز اور مزدور نظر آئے، انتہائی شدید گرمی میں بھی اتنی تندہی سے بڑی تعداد میں چینیوں کو کام کرتا دیکھ کر یہ سوال اٹھایا کہ مقامی لیبر کو یہاں کیوں تعینات نہیں کیا گیا، جس کا جواب کچھ یوں ملا کہ چینیوں کے پاس اس کام کی مہارت ہے، یہی وجہ ہے کہ چینی کارکنوں کے ساتھ مقامی افراد کو بھی تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ یہ کام سیکھ جائیں اور اس ہنر میں خودکفیل ہوجائیں۔

اس سائٹ سے نکلنے کے بعد کچے پکے راستوں سے ہوتے ہوئے گورانو ڈیم کے وزٹ کو نکلے، جو اگرچہ مشہور تو ڈیم کے نام سے ہے، لیکن ہمارے آرگنائزرز نے تصحیح کی کہ اگر اسے ریزروائر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

گورانو ڈیم

یہاں حسب معمول فوٹوگرافی سیشن اور بریفنگ کے بعد ہماری واپسی ہوئی اور کنٹینر سٹی پہنچ کر وہاں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم 3 بجے وہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔

ہم بہت نہیں تو کچھ حد تک خوش اور مطمئن تھے کہ چلو کسی کو تو تھر کا خیال آیا، جو ہوسکتا ہے کہ آئندہ 10 برس میں دبئی نہیں تو دبئی جیسا ہی بن جائے۔

—فوٹو بشکریہ : توصیف رضی ملک

اس ٹرپ کے دوران جہاں بہت سارے سوالات کے جوابات مل گئے، وہیں کچھ کے جوابات ایسے ہیں، جو شاید ابھی کوئی نہیں دے سکتا، آنے والا وقت یہ جوابات دے گا کہ تھر کے باسیوں کی قسمت بدلنے کے جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ وفا ہوئے یا نہیں۔

کم از کم میں تو پرامیدی کی قائل ہوں کہ اگر کسی نے ایک اچھے کام کا بیڑا اٹھایا ہے تو اسے وہ کام مکمل کرنے دیا جائے، دوسری صورت میں قلم کی طاقت بہرحال ہمارے پاس موجود ہے، جس طرح آج ہم کسی کے اچھے کام پر اسے سراہ رہے ہیں، کسی غلط کام یا وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر بھی قلم ہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔