پاکستان

موسمیاتی تبدیلیوں کا عالمی اجلاس، پاکستان کا دو ٹوک جواب

موسمیاتی تبدیلیوں کے معاہدے پر عمل پیرا ہیں اور کئی اہداف مقرر کردیئے ہیں، پاکستان کا بون کانفرنس میں دو ٹوک مؤقف

دنیا کے مختلف براعظموں میں تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کا ثبوت ہولناک طوفان اور جنگلات میں لگنے والی آگ ہے، تیزی سے پیش آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جرمنی میں 11 روزہ بون کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جو موسمیاتی تبدیلیوں کا 23واں سالانہ اجلاس تھا۔

اس کانفرنس کو ’کانفرنس آف پارٹیز‘ (سی او پی 23 ) کو کہا جاتا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے روک تھام کے طریقوں سے آگاہ کیا گیا۔

جرمنی حکومت کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستانی وفد نے بھی شرکت کی، اس وفد میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ ماحولیات، سول سوسائٹی اور میڈیا نمائندگان کے علاوہ وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان بھی شامل تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جسے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے، پاکستان کو پیرس منصوبے پر مکمل عملدرآمد کے لیے 2020 تک وقت درکار ہے۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں؟

کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام ممالک نے حکومتوں کی جانب سے گیس کے اخراج کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔

پائیدار ترقی پالیسی بیان کرتے ہوئے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے عابد سولیری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ان مذاکرات میں اپنا معاہدہ نہیں توڑے گا اور ہم ہر صورت کم سے کم اخراج دیں گے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت چین کے ساتھ جی 77 پلس چائنا کے معاہدے پر عمل پیرا ہے جس کے تحت ہم کم سے کم اخراجات میں کاربن پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، پاکستان اس وقت ایسی پوزیشن میں ہے کہ اپنے جیسے اور دیگر ترقیاتی یافتہ ممالک کی مدد کرسکتاہے‘۔

عالمی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق قائم سینیٹر کے ڈائریکٹر ایگزیکٹو اور حکومتی نمائندگی کرنے والے طارق بونیر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات کر کے اپنی اہداف حاصل کررہا ہے، ہم نے گیس کے کم سے کم اخراج کے لیے گرین گیس ہاؤس کا نظام متعارف کروایا‘۔

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: 'سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان'

اُن کا کہنا تھا کہ خاص طور پر ایسے پرگرام متعارف کروائے جن کے ذریعے کم توانائی، کاربن کی زیادہ سے زیادہ پیداوار، ایل این جی کے ساتھ مائع ایندھن کے استعمال کو یقینی بنایا، یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اہداف تک کامیابی سے پہنچ رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ سی او پی 23 پیرس منصوبے کے بعد امریکی صدر کی ہدایت پر قائم کی گئی تھی جس کا مقصد دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی سے بچانا تھا۔


یہ خبر15 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی