پاکستان

جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ساتھ ہیں،خواجہ سعد رفیق

جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد شمولیت پر رضامندی کا اظہار کیا، لیگی ذرائع
|

اسلام آباد: ان دنوں سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی خبریں گردش کررہی ہیں جن کے بارے میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ جاوید ہاشمی اور حکمراں جماعت مل کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے لڑیں گے۔

خواجہ سعد رفیق نے یہ اعلان اسلام آباد میں قائم پنجاب ہاؤس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جاوید ہاشمی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا، اس ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کے دیگر سینیئر رہنما بھی موجود تھے۔

اس اجلاس میں شریک پارٹی ذرائع کے مطابق جاوید ہاشمی نے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔

تاہم خواجہ سعد رفیق نے اس پیش رفت کے حوالے سے بتایا کہ بات چیت کے اگلے مرحلے میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ن لیگ میں دوبارہ شمولیت کا آپشن موجود: جاوید ہاشمی

ملتان میں ایک مسلم لیگ (ن) کے رہنماء نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'خواجہ سعد رفیق نے جاوید ہاشمی کو واپس پارٹی میں لانے کے لیے قیادت کو منانے میں اہم کردار ادا کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کے بہت قریب ہیں اور جب جاوید ہاشمی نے نواز شریف کی جانب سے ان کی پرویز مشرف کے دور میں کی گئی سیاسی جدوجہد کو تسلیم نہ کرنے پر علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو خواجہ سعد رفیق، ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے باوجود ان سے رابطے میں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سعد رفیق نے قیادت کو جاوید ہاشمی کی اہمیت کا بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں سیاست کی موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو ان جیسے اصل جمہوری شخص کی ضرورت ہے۔

اجلاس کے بعد سینیٹر مشاہد اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اجلاس کے حوالے سے بتایا کہ اجلاس میں آئندہ انتخابات پربات ہوئی جس کے بعد عوامی رابطہ مہم کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں 22 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر رہنے والے ظفراللہ جمالی اور رضا حیات کے خلاف انضباطی کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ادارے کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جاویدہاشمی تحریک انصاف سے مستعفی،الیکشن میں مسلم لیگی حمایت حاصل

ان کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف کل یا چند دن میں لندن جاسکتےہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال 12 مارچ کو ڈان نیوز کے پروگرام 'اِن فوکس' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ ملسم لیگ (ن) کے ساتھ میرے اختلافات موجود ہیں، لیکن میں کل بھی مسلم لیگی تھا اور آج بھی ہوں اور میں دفن بھی لیگی پرچم میں ہوں گا، کیونکہ یہ جماعت میرے سب سے قریب ترین ہے'۔

جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ سے لاتعلقی

لگ بھگ دو دہائیوں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) میں رہنے والے جاوید ہاشمی کو پارٹی قیادت نے آہستہ آہستہ نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔

2007 میں جب انہیں جیل سے رہا کیا گیا تو بہت مختصر تعداد میں پارٹی کارکنوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔

مخدوم جاوید ہاشمی اور شریف برادران کے درمیان آہستہ آہستہ اختلافات بڑھتے چلے گئے، انہیں بدستور پارٹی اجلاسوں سے دوررکھا جانے لگا، اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ کئی مواقعوں پر انہوں نے پارٹی پالیسی پر کھل کر اختلافِ رائے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'فوج کے غیر مطمئن عناصر عمران خان کے ذریعے تباہی لانا چاہتے تھے'

انہوں نے سزا پر معافی مانگ کر جلاوطنی اختیار کرنے کے معاملے پر نواز شریف سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر قوم سے معافی مانگیں۔

بعد ازاں مخدوم جاوید ہاشمی نے نواز لیگ کو خیر باد کہتے ہوئے 2011 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

پی ٹی آئی سے قطع تعلق

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2013 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے خلاف دارالحکومت اسلام آباد میں 126 روز تک دھرنا دیا تھا، جسے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ختم کردیا گیا تھا، اس دھرنے کے وقت جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دوران دھرنا یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ جاوید ہاشمی فوج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے کے معاملے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر اسلام آباد سے ملتان روانہ ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’جنرل پاشا نے دھمکی دی تھی‘

واضح رہے کہ حال ہی میں جاوید ہاشمی نے 2014 کے دھرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ 'فوج کے غیر مطمئن عناصر ہر حال میں جنرل راحیل شریف کو بھی ناکام کرنا چاہتے تھے اور عمران خان کے ذریعے پارلیمانی نظام میں بھی تباہی لانا چاہتے تھے اور ایسا ملک میں ایک مرتبہ نہیں ہوا'۔

تاہم انہوں ڈھائی سال تک تحریک انصاب میں رہنے کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا۔