پاکستان

جھوٹی خبروں کا تدارک

دو قدم پیچھے ہونے کی وجہ سے صحافی ان کے ہاتھوں شکست کھا رہے ہیں جو اپنے مقاصد کے لیے سچ کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔

صحافیوں کے سامنے آج ایک بہت بڑا چیلنج موجود ہے۔ پہلے جھوٹ کے انبار میں سے سچ کھود نکالنا ہماری ذمہ داری تھی، آج معلومات کے بے انتہا پھیلاؤ کی وجہ سے یہ خبریں پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دسترس میں موجود ہزاروں ذرائع سے اُس خبر کی تلاش کرے جو اُس کے نزدیک سچی ہے، اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ڈان ڈاٹ کام پر اِس سال کیے گئے ایک سروے کے مطابق 1705 جواب دہندگان میں سے 57.5 فیصد کے نزدیک جھوٹی خبریں یا 'فیک نیوز' پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

علاوہ ازیں، 44.8 فیصد نے کہا کہ چالاکی سے اُنہیں جھوٹی خبر کو سچ ماننے پر مجبور کیا گیا، جبکہ 34.3 فیصد کے مطابق اُن کا ماننا تھا کہ شاید اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

29.9 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جھوٹی خبریں سچ سمجھ کر آگے شیئر کی تھیں۔

تو اِس سب کی ذمہ داری کس پر ہے؟ جب پوچھا گیا کہ کس ذریعہءِ ابلاغ میں 'سب سے زیادہ جھوٹی خبریں' پائی جاتی ہیں، تو 87.2 فیصد افراد کا جواب سوشل میڈیا کے حق میں تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو چھوڑ کر دیگر ویب سائٹس کو 50.3 فیصد، ٹی وی کو 26.2 فیصد، اور پرنٹ کو 14 فیصد افراد نے جھوٹی خبریں پھیلانے والے ذرائع قرار دیا۔

غیر سائنسی ہونے کے باوجود یہ نتائج تشویشناک اور ایک عالمی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔

جھوٹی خبریں ایک حقیقت ہیں

جھوٹی خبریں دو طرح کی صورتوں میں موجود ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسی خبریں تیار کرنا جن کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو، تاکہ دھوکہ دیا جاسکے۔ اس لفظ کا دوسرا استعمال ایک لیبل کے طور پر ہے جسے مرکزی دھارے کے میڈیا اور سیاسی حریفوں کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ ہمارے سامنے ٹرمپ ٹیم اور امریکی صدارتی انتخابات کی مثالیں موجود ہیں۔

مغرب میں جس طرح مخالفین پر حملے کرنے کے لیے 'فیک نیوز' کے لیبل لگائے جاتے ہیں، پاکستان میں یہ کام ابھی اس سطح پر ہونا باقی ہے۔ مگر اس سے بھی بنیادی سطح کا ایک عمل پاکستان میں روز مرّہ کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان میں جھوٹی خبریں معمولی باتوں سے لے کر قومی اور علاقائی سطح تک کے معاملات پر پھیلائی جاتی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ مثالیں:

وہ الرٹ جو کبھی جاری ہی نہیں کیا گیا۔

1: آئی ایس پی آر سے منسوب ایک خبر واٹس ایپ پر پھیل جاتی ہے کہ خودکش حملہ آور کراچی اور حیدرآباد میں بڑے عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ الرٹ ہزاروں لوگ آگے پھیلاتے ہیں جس سے افراتفری پھیل جاتی ہے۔ مگر آئی ایس پی آر نے ایسا کوئی الرٹ جاری نہیں کیا تھا۔ یہ جھوٹا تھا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ: ’سوشل میڈیا پر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) سے منسوب کچھ پیغامات گردش کر رہے ہیں جن میں جھوٹی وارننگز یا ایمرجنسی رابطہ نمبرز پھیلائے جارہے ہیں۔ وضاحت کی جاتی ہے کہ آئی ایس پی آر صرف اپنے آفیشل اکاؤنٹس اور ویب سائٹ کے ذریعے معلومات جاری کرتا ہے، جبکہ واٹس ایپ کے ذریعے کچھ بھی شیئر نہیں کیا جاتا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ آئی ایس پی آر کی آفیشل ویب سائٹ یا اکاؤنٹس سے تصدیق کیے بغیر ایسے پیغامات آگے نہ پھیلائیں۔‘

2: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے لگے ہیں، یا کم از کم مانا تو یہی جا رہا ہے۔ ایک دستاویز بھی انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے۔ میڈیا اِس خبر کو اُچک لیتا ہے اور جلد ہی یہ دستاویز دن کی سب سے بڑی خبر بن جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دستاویز میں ایک اہم صفحہ موجود نہیں اور اُس پر کوئی بھی دستخط نہیں ہیں، جبکہ قومی اسمبلی ایسے کسی بھی ریفرنس کے فائل کیے جانے کی تردید کرتی ہے۔ یہ تمام معلومات اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور جو چیز وائرل ہوئی وہ شکایت تھی، بعد میں ہونے والی تحقیقات یا تردید نہیں۔

3: دبئی کا ایک اخبار خبر شائع کرتا ہے کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کو ایک سعودی ایئرپورٹ پر روک لیا گیا ہے۔ اس خبر کو پاکستان میں بے تحاشہ پڑھا اور شیئر کیا گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو ایک جھوٹی خبر تھی۔

امارت الیوم کے بھیس میں موجود اس ویب سائٹ کا عکس جس نے سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بارے میں جھوٹی خبر شائع کی تھی۔

لنک کا اسکرین شاٹ، جس میں اصلی لنک سے صرف ایک حرف مختلف ہے اور صارفین کو جھوٹی خبر تک لے جاتا ہے۔

کسی شخص نے اس خبر کا ایک ایسا لنک بنایا تھا جو اس اخبار کے اصلی لنکس جیسا ہی تھا مگر اس میں صرف ایک حرف تبدیل تھا، جس سے کلک کرنے والے ایک بالکل مختلف ویب سائٹ پر پہنچ جاتے جس پر وہ جھوٹی خبر سچی خبر کے روپ میں پیش کی گئی تھیں۔

اوپر موجود جھوٹی خبروں کی مثالیں آسان (واٹس ایپ پر پیغام بھیجنے) سے لے کر مشکل (ایک سرکاری دستاویز کی نقل تیار کرنے) سے پیچیدہ (ایک جھوٹی خبر پھیلانے کے لیے ایک جھوٹی مگر ہوبہو ویب سائٹ تیار کرنا) تک ہوسکتے ہیں۔ اوپر دیے گئے تمام اور پاکستان میں جھوٹی خبروں کے زیادہ تر معاملات انٹرنیٹ پر ہی پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ڈان ڈاٹ کام کے سروے میں حصہ لینے والوں نے سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کو سب سے کم قابلِ اعتبار قرار دیا۔

صرف ایک صورت میں یہ ایک اچھی خبر ہے: معلومات کے گیٹ کیپر کے طور پر روایتی میڈیا کی اہمیت اب بھی واضح ہے۔ مگر دوسری تمام صورتوں میں یہ صورتحال بہت خراب ہے اور اس صورتحال کا کچھ الزام صحافی برادری کے سر پر بھی جاتا ہے۔ ہم مسلسل اس بات کو تسلیم کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ حقیقت کی صورت گری میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ پاکستان میں بھی، جہاں انٹرنیٹ آبادی کے صرف 15 سے 20 فیصد کو دستیاب ہے۔

ہم آن لائن 'مواد' کے قواعد کو سیکھنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ لفظ 'مواد' کو بھی بہت بُرا سمجھا جاتا ہے، چنانچہ ہم اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں کہ معلومات کے اس دور میں 'خبر'، 'فیچر'، 'تجزیہ'، 'رائے' جیسے الفاظ اپنے معانی کھوچکے ہیں، اور جب پڑھنے والے سمجھ نہیں پاتے یا متوقع ردِ عمل نہیں دیتے تو ہم پڑھنے والوں کی ذہانت اور/ یا اچھے ذوق کی کمی پر الزام دھر دیتے ہیں۔

اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھنا ہمارے لیے ضرر رساں حرکات میں سے ایک ہے، مگر پھر بھی ہم یہ کام کرتے ہیں جبکہ اسنیپ چیٹ، لڈو اسٹار اور نیٹ فلکس ہم سے بازی لے جاتے ہیں، کیوں کہ جیسا کہ سب جانتے ہیں، ہمارا 'مواد' محدود توجہ حاصل کر پاتا ہے، اور یہ بات ڈان کے لیے بھی اتنی ہی درست ہے جتنی کہ نیویارک ٹائمز یا بی بی سی کے لیے۔

صحافیوں کے دو قدم پیچھے ہونے کی وجہ سے ہم ان قوتوں کے ہاتھوں شکست کھا رہے ہیں جو اپنے مقاصد کے لیے سچ کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ سچ سے آگے کی دنیا بناتا ہے۔ کوئی بھی صارف کم خرچ میں جھوٹی خبر بنا کر اسے اس رفتار اور اس سطح پر پھیلا سکتا ہے جو کہ روایتی میڈیا کی پیدا کردہ خبروں کے برابر یا پھر اُس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے، اور آن لائن دنیا کی وسعت اور حجم دیکھتے ہوئے جھوٹی خبروں پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔

پاکستان میں بجائے اِس کے کہ ہم انٹرنیٹ کو 'مزید جمہوری' ہوتے دیکھتے، ہم نے ریاست کی طاقت میں سینسرشپ، نگرانی، خبروں پر کنٹرول اور جھوٹ کے پھیلاؤ کی صورت میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے، تاکہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھا جا سکے۔

ڈان نے اس کا تجربہ گزشتہ سال میں براہِ راست کیا جب سیرل المیڈا نے سویلین حکومت اور فوج کے درمیان گہرے اختلافات سے پردہ اٹھایا۔ مرکزی دھارے کے میڈیا کے تمام حلقوں سے حملوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر نہایت منظم انداز میں مہمات چلائی گئیں۔ ان میں سے پہلی مہم نے سیرل کی رپورٹ کو 'جھوٹی خبر' قرار دیا۔

مگر جب خبر لیک کرنے والوں کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تو یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگیا کہ خبر جھوٹی تھی۔ چنانچہ یہ بیانیہ تبدیل ہونا ہی تھا۔ نتیجتاً ڈان کو 'پاکستان مخالف' اور 'محبِ ہندوستان' ادارہ بنا کر پیش کیا گیا۔

سب سے بُری چیز یہ ہے کہ ہمارے پاس 'گلوبل ویلیج' کے بجائے 'انٹرنیٹ ببلز' ہیں جو ہم خیال لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور جو اپنے نکتہءِ نظر سے متصادم کسی بھی شخص اور کسی بھی چیز سے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ سچ وہی ہوتا ہے جو سب سے بلند آواز میں کہا جائے یا جو اکثریت کہے کہ یہ سچ ہے۔ کوئی بھی پریشان کن چیز فوراً مسترد کردی جاتی ہے۔

پاکستان جیسے گروہ بندی کے شکار معاشرے میں یہ بلبلے پی ٹی آئی حامیوں کے بھی ہوسکتے ہیں جو اپنی پارٹی کی مخالفت کرنے والے ٹوئٹر صارفین کو ہراساں کریں یا کالعدم تنظیموں کے رہنما بھی ہوسکتے ہیں جو فیس بک پر فرقہ وارانہ تعصب پھیلائیں۔ تمام وقتوں میں ان بلبلوں کے ارکان سمجھتے ہیں کہ ان کی حقیقت ہی 'سچ' ہے اور چنانچہ ہمارے پاس 'متبادل حقائق' اور 'جھوٹی خبروں' میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

جھوٹی خبروں کے خلاف جنگ

شکر ہے کہ ہم اس نقطے پر آ پہنچے ہیں جہاں یہ مسئلہ اب عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ بے تحاشہ جھوٹی خبروں کی موجودگی اور دھوکے دہی کے نتائج میں اضافہ ہونے کی وجہ سے عوام اُنہی ذرائع کی طرف واپس لوٹیں گے جن پر وہ اعتماد کرسکیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ڈان جیسا ادارہ اہم ہے۔ توازن تب قائم ہوگا جب لامحدود مواد تک رسائی کے مقابل ایک قابلِ اعتماد آواز بھی ہو جو معلومات کو سیاق و سباق میں پیش کرتے ہوئے صرف اہم اور سچی چیزیں پیش کرے۔

ڈان ڈاٹ کام کا کردار اِس صورتحال میں عالمی طور پر ایسی آواز بننا ہے۔ جو لوگ اس ادارے پر 'پاکستان کو بدنام کرنے' کا الزام لگاتے ہیں، ان کی بچکانہ دلیلوں میں صرف ایک بات صحیح ہے: ڈان ڈاٹ کام پاکستان کا چہرہ ہے اور کئی لوگوں کے لیے اس ملک میں ہونے والے واقعات کو صورت فراہم کرتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ اس ویب سائٹ پر خبروں کے حصول کے لیے اعتماد کرتے ہیں، اور اکثریت (کبھی کبھی تو 70 فیصد سے بھی زیادہ) وزیٹرز غیر ملکی ہوتے ہیں۔

اس سے کئی چیلنجز میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر اسٹاف ممبر کے کاندھوں پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے تاکہ غلطیاں یا جھوٹی خبریں ویب سائٹ پر اپنی جگہ نہ بنا سکیں اور نتیجتاً 'جھوٹی خبر' کا لیبل ڈان پر نہ لگایا جا سکے۔

ایک اہم مسئلہ مواد کی لافانیت کا ہے۔ ٹی وی کا مواد بہت مختصر عمر رکھتا ہے۔ پرنٹ کا مواد ایک یا دو دن تک دستیاب رہتا ہے، جس کے بعد اُسے آرکائیوز میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے اُسے کھود نکالنا بہت مشکل کام ہے۔ جو چیز انٹرنیٹ پر آجائے وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے اور صرف ایک سرچ میں دستیاب ہوسکتی ہے۔ ہر غلطی بھی باقی رہتی ہے؛ بھلے ہی تصحیح کردی جائے، مگر لوگوں نے اُس غلطی کا ریکارڈ رکھ لیا ہوتا ہے۔ ایک اسکرین شاٹ لینے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ اور یہ آن لائن صحافیوں کی جانب سے پیدا کیے گئے مواد کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس پرنٹ اور ٹی وی مواد کے لیے بھی ہے جو انٹرنیٹ پر جاری کیا جاتا ہے۔

اس طرح دیکھیں تو تمام صحافی ویب سائٹ کے لیے ہی کام کر رہے ہیں، اور یہ کام وہ ان عوامل سے بے خبر ہوکر کر رہے ہیں جو تب جنم لیتے ہیں جب ان کی خبریں انٹرنیٹ پر جاری ہوتی ہیں۔ صرف ایک مثال ہے کہ کئی لوگ اپنی رپورٹس کی تیاری میں ڈان ڈاٹ کام کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ کچھ تو صرف کاپی پیسٹ سے ہی کام چلاتے ہیں۔ جب غلطی کی جاتی ہے تو وہ غلطی ان ویب سائٹس پر بھی دکھائی دیتی ہے جس سے اس غلطی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے درست کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

یہی وہ حقیقت ہے جس میں ہم رہتے ہیں: سچ سنانے والوں کے لیے پریشان کن۔ مگر جھوٹی خبروں کا مقابلہ کرنے کی جنگ جاری رہے گی۔ سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ میڈیا گروپس اور صحافی انٹرنیٹ کو پوری طرح اپنائیں؛ آن لائن اسپیس میں اپنے کام پر حقِ ملکیت جتائیں اور اسے غیر اہم قرار دینے سے گریز کریں۔

اس کے آگے ہمیں صرف وہی کرتے رہنا چاہیے جو ہم کرتے رہے ہیں۔ سچائی کو سامنے لانا، چاہے وہ کتنی بھی غیر مقبول یا پریشان کن کیوں نہ ہو۔ جھوٹی خبروں کے اس دور کو گزر جانے دیں۔ امید ہے کہ یہ مرحلہ زیادہ طویل نہیں ہوگا۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام (Dawn.com) کے ایڈیٹر ہیں


انگلش میں پڑھیں۔