پاکستان سپر لیگ: اونچ، نیچ اور امید کا سفر
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ابتدائی دو سالوں میں ہی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کرکٹ شائقین پورا پورا سال اس کے انتظار میں کیلنڈر کو تکتے نظر آتے ہیں۔ اب ہر سال کی شروعات یہ یاد دہانی کرواتی ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ اب قریب ہی ہے۔
ابھی اس کا تیسرا ایڈیشن آنا باقی ہے، مگر پی سی بی کی یہ پراڈکٹ، جو کہ اپنے حریفوں کے مقابلے میں اب بھی کافی کم عمر ہے، شکل و صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وفادار مداح پیدا ہو چکے ہیں، نئی فرنچائزیں شامل کی جا رہی ہیں، ٹیلنٹ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ پیسہ بنایا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہ بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان واپس لینے کی ایک ضمنی کاوش بھی کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ سال کے پی ایس ایل فائنل، اور پھر ورلڈ الیون اور سری لنکا کے دورہ پاکستان کی صورت میں دیکھا۔
یہ سب ثابت کرتا ہے کہ پی ایس ایل بحیثیت ایک برانڈ موزوں حد تک قدم جما چکی ہے اور کم از کم اس کا بنیادی مکینزم ضرور قائم ہے۔ یہ ابھی تک بالکل پرفیکٹ انداز میں نہ چل رہا ہو مگر یہ اسی راستے پر گامزن ہے۔
مگر پاکستان کی دوسری چیزوں کی طرح اس کی کرکٹ لیگ کا سفر بھی اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ اس کی کامیابی ناکامیوں سے خالی نہیں رہی، اور اس کا راستہ گڑھوں سے خالی نہیں رہا۔
قارئین کی یادداشتوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہم نے پہلے دو پی ایس ایل ٹورنامنٹس کا خلاصہ ترتیب دیا ہے۔
تصور سے آغاز تک
کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ بڑے کرکٹ بورڈز میں سے پی سی بی وہ آخری بورڈ تھا جو ٹی 20 لیگ کے منصوبے پر عمل پیرا ہوا۔ مگر اس حقیقت کو نہایت آسانی سے فراموش کر دیا جاتا ہے کہ پی ایس ایل پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے 2004 میں شروع کیے گئے قومی ٹی 20 کپ کا صرف ایک زیادہ چمکدار، ترقی یافتہ اور گلیمر سے بھرپور ورژن ہے۔ اس لیے عمومی خیال کے برعکس پاکستان کے پاس انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے آنے اور دنیائے کرکٹ کا منظرنامہ تبدیل کر دینے سے بھی کہیں پہلے سے ایک ٹی 20 لیگ تھی۔
قومی ٹی 20 کپ، جو کہ حقیقت میں پی ایس ایل کا پیشرو تھا، ایک دہائی تک چلتا رہا یہاں تک کہ پی سی بی نے اس منصوبے کو ختم کر دیے۔ مگر تکنیکی باریکیاں نکالنے والے افراد کہہ سکتے ہیں کہ قومی ٹی 20 کپ اور پی ایس ایل، دو بالکل مختلف ٹورنامنٹس ہیں اور ایک کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دیکھیں تو پی ایس ایل کے تصور نے پہلی بات پی سی بی کے سابق سربراہان ڈاکٹر نسیم اشرف اور ذکاء اشرف کے ادوار کے درمیان لیا۔