پاکستان

فیصل آباد: یونیورسٹی طالبہ کی تشدد اور ریپ زدہ لاش برآمد

سی پی او نے جرموں کی گرفتار کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دیدی اور مجرمانہ لاپرواہی برتنے پر ایس ایچ او گلبرگ کو معطل کردیا۔

فیصل آباد: گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پاس سے لاپتہ ہونے والی طالبہ کی لاش نالے میں سے برآمد ہو گئی۔

ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا کہ طالبہ کو قتل کرنے سے پہلے تشدد اور ریپ کیا گیا۔

یہ پڑھیں: ’اغوا، ریپ اور قتل کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے‘

واضح رہے مقتولہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں انگلیش لٹریچر کی طالبہ تھی۔

مقتولہ کے والد علی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی بیٹی یونیورسٹی جانے کے لیے گھر سے نکلی لیکن گھرواپس نہیں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ ‘جب بیٹی گھر نہیں آئی تو رشتے داروں کے ہمراہ تلاش شروع کردی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا جس کے بعد گلبرگ پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں ایس ایچ او نے ناصرف کیس درج کرنے سے انکار کیا بلکہ قابل اعتراض جملے بھی ادا کیئے’۔

مقتولہ کے والد نے مزید بتایا کہ ‘وہ پھر سٹی پولیس افسر (سی پی او) اطہر اسماعیل کے پاس اپنی درخواست لے کر پہنچے تو انہوں نے بھی ایس ایچ او کے خلاف کوئی حکم صادر کیا اور نہ ہی کیس رجسٹرڈ کرنے میں سنجیدگی کا اظہار کیا’۔

یہ بھی پڑھیں: زینب بیٹا، معاف کرنا، کیونکہ انصاف تو تمہیں بھی نہیں ملے گا!

طالبہ کے والد نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ‘کچھ لوگوں نے یونیورسٹی کے پاس ان کی بیٹی کو زبردستی کار میں ڈالتے دیکھا’۔

انہوں نے شک ظاہر کیا کہ ‘ان کی بیٹی کے اغوا اور قتل میں یونیورسٹی کے بعص طالبعلم ملوث ہو سکتے ہیں’۔

سینئر پولیس افسرنے بتایا کہ لڑکی کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے تاہم مجرموں کو جلد ‘گرفتار’ کرلیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اس امر پر بھی تفتیش کررہی ہے کہ مقتولہ کے والد کی جانب سے درخواست پیش کرنے کے باوجود گلبرگ پولیس اسٹیشن نے مقدمہ درج کیوں نہیں کیا؟۔

ایس ایچ او کی معطلی

سی پی او نے مقدمہ درج کرنے میں تاخیری رویہ برتنے پر گلبرگ ایس ایچ او کو معطل کرکے محکمہ جاتی کارروائی کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: 2015 سے ہونے والے ریپ اور قتل کے 8 کیسز کے پیچھے 'سیریل کلر' ملوث

دوسری جانب وزیراعلیٰ شہباز شریف نے طالبہ کی لاکت سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

سی پی او نے مجرموں کی تلاش اور گرفتار کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔


یہ خبر 30 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی