ہمیں شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کی دعوت کیوں کرنی چاہیے؟
پاکستان قدیم وادئ سندھ کی تہذیبی اقدار کا وارث جدید ملک ہے جس کی تشکیل کو بمشکل پون صدی ہی ہوئی ہے۔ 4 صوبائی اکائیوں اور دیگر انتظامی بندوبست کے ساتھ یہ ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا پہیہ اور ثقافت کی جڑیں زراعت میں پیوست ہیں۔
یہاں کی خوشی غمی کے رواج بھی زرعی تہذیب سے پھوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی شادیاں اپنے زمانی حساب میں بھی زراعت کی حدود قیود کو ملحوظ رکھ کر طے کی جاتی ہیں۔
یہاں پر دیگر رسوم و رواج بالعموم اور شادی بیاہ بالخصوص سیکڑوں مہمانوں، آرائشی لباسوں اور دعوتوں کا ملغوبہ ہوتے ہیں جس کے دوران منگنی اور نکاح سے لے کر ولیمے تک بیاہنے والے خاندانوں کی جیبیں ہلکی ہورہی ہوتی ہیں۔
پڑھیے: شناخت اور ثقافت کی عکاس 'اجرک' کے کاریگر
ولیمے کی رسم کے بعد نئے نویلے جوڑے کو دعوتیں کھلانے کا رواج پورے پاکستان میں ہے۔ خاندان، عزیز و اقارب اور دوست احباب ماہ عسل سے پہلے بھی اور بعد تک بھی نئے نویلے جوڑے کی دعوتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ دعوتیں نہ صرف پیار محبت اور احترام کا اظہار ہوتی ہیں بلکہ ان کے ذریعے بسا اوقات برس ہا برس کی کدورتیں بھی ختم کی جاتی ہیں۔
بعض خاندان اپنی کھوئی ہوئی عظمت یا بڑائی ایسی دعوتیں کھلا کر بحال کروا لیتے ہیں۔ یہ صورت بھی ملاحظہ کی گئی ہے کہ جہاں سے دعوت متوقع ہو اور بلاوا نہ آئے تو ناراضگیاں جنم لے لیتی ہیں اور اگر کہیں سے غیر متوقع دعوت مل جائے تو نوبیاہتا جوڑے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ کسی پرانی دعوت کا حساب چکتا نہیں ہورہا ہوتا بلکہ ایک نئی تعلق داری کی بنیاد رکھی جارہی ہوتی ہے۔
انسانی تعلقات کا یہ دائرہ وسیع کردیں تو ہم ریاستی تعلقات کی سطح پر جا پہنچتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں سماجی ارتقاء کے مرحلے کے دوران انسان غار سے قبیلے اور قبیلے سے معاشرے تک پہنچتے ہوئے کبھی مشترکہ دفاع اور کبھی مشترکہ معیشت کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے گروہی، قبائلی اور سماجی سطح پر اتحاد بناتا آیا ہے۔
جدید دور میں ریاستوں کے اتحاد اور تنظیمیں اسی تاریخی تسلسل کی موجودہ شکل ہیں۔ انہی تنظیموں میں سے ایک دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) تنظیم بھی ہے جو 53 رکن ممالک کے ساتھ ایک بڑی مؤثر عالمی تنظیم کہلاتی ہے۔ یہ سابقہ برطانوی کالونیوں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کا بنیادی مقصد جمہوریت، سرمایہ کاری اور پُرامن بقائے باہمی کا حصول ہے۔