پاکستان

’تبدیلی آگئی ہے‘ حامد میر اور جیو کا ساتھ ختم؟

معروف صحافی نے 80ء کی دہائی میں صحافت کا آغاز کیا، 3 دہائیوں پر مشتمل کیریئر میں 20 سال تک ایک ہی ادارے سے منسلک رہے۔

پاکستان میں صحافیوں کا ادارے تبدیل کرنا عمومی بات ہے، لیکن زیادہ تر افراد اس وقت حیران رہ جاتے ہیں جب کئی سال تک کسی ادارے سے وابستہ صحافی ادارہ تبدیل کرتے ہیں۔

پاکستان کے معروف صحافی حامد میر جنہوں نے 52 سالہ زندگی میں 3 دہائیاں صحافت میں گزاریں جبکہ اس میں سے بھی بیشتر حصہ ایک ہی میڈیا گروپ جنگ اور جیو کے ساتھ گزارا۔

اب اطلاعات ہیں کہ انہوں نے ایک نئے ادارے میں بطور صدر شمولیت اختیار کرلی ہے۔

حامد میر کی جانب سے جنگ اور جیو کو خدا حافظ کہہ کر نئے میڈیا گروپ جی این این (جی نیوز نیٹ ورک) میں شمولیت کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلی ہے جبکہ اکثر افراد نے حیرانگی کا اظہار بھی کیا۔

تاحال حامد میر یا جی این این کی جانب سے باضابطہ طور پر اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی، تاہم سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں حامد میر کو نئے ادارے کے دفتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

جیو کے سابق نیوز اینکر سلمان احمد نے اپنی ٹوئیٹس میں جی این این کے دفتر میں ریکارڈ کی گئی مختصر ویڈیوز شیئر کیں، جن میں حامد میر کو دیگر صحافیوں سمیت نئے ادارے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے سلمان احمد نے لکھا کہ زبیر چٹھہ صاحب حامد میر کو اسٹاف سے بطور صدر ملواتے ہوئے۔

ویڈیو میں زبیر چٹھہ کی آواز سنی جاسکتی ہے جو یہ اعلان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ حامد میر بطور صدر ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں : حامد میر پر حملہ : تحریک طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی

اسی ویڈیو میں جیو نیوز کے پروگرام ‘آپس کی بات’ کے اینکر منیب فاروق بھی دیکھا جاسکتا ہے، تاہم زبیر چٹھہ نے ان سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا۔

سلمان احمد نے ایک اور ویڈیو بھی ٹوئیٹ کی جس میں حامد میر کو خوشگوار موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے ایک اور ٹوئیٹ میں حامد میر کو جی این این میں بطور صدر شمولیت اختیار کرنے پر مبارک باد بھی دی۔

سلمان احمد نے حامد میر کے ساتھ جیو نیوز کے سابق نیوز اینکرز سمیت دیگر افراد کے ساتھ کھینچی گئی تصویر بھی شیئر کی۔

علاوہ ازیں دیگر کئی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے بھی حامد میر کی جانب سے سابقہ ادارہ چھوڑنے اور جی این این میں شمولیت کی خبر شیئر کی گئی جبکہ صحافتی حلقوں میں اس خبر پر گفتگو ہوتی رہی۔

مزید پڑھیں : حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی

حامد میر کے حوالے سے جی این این سے وابستہ ناجیہ اشعر نے ٹوئٹر پر تبصرہ کیا کہ تبدیلی آگئی ہے!۔

پاکستان کے متعدد نشریاتی اداروں اور ویب سائٹس نے بھی حامد میر کی جانب جنگ اور جیو کو چھوڑنے کی خبریں شائع کیں، تاہم اس حوالے سے خود جنگ اور جیو گروپ نے تاحال کوئی خبر جاری نہیں کی۔

یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ سہیل وڑائچ اور منیب فاروق نے بھی جیو نیوز چھوڑ کر جی این این کو جوائن کرلیا، تاہم اس حوالے سے تمام صحافیوں نے خود کوئی اعلان نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں : خالد خواجہ کے اغوا کا مقدمہ حامد میر کے خلاف درج

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جنگ اور جیو جیسے بڑے ادارے کو صحافیوں نے خدا حافظ کہا ہو، اس سے قبل بھی اسی ادارے کے متعدد صحافی ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاوس کا دعویٰ کرنے والے ادارے سمیت دیگر اداروں میں جا چکے ہیں۔

سہیل وڑائچ بھی کچھ عرصہ قبل جیو نیوز چھوڑ کر دنیا میڈیا گروپ میں چلے گئے تھے، لیکن ایک بار پھر وہ اپنے پرانے ادارے سے وابستہ ہوئے، لیکن اب اطلاعات ہیں کہ انہوں نے بھی جی این این سے وابستگی اختیار کر لی ہے۔

مزید پڑھیں : کامران خان نے بھی جیونیوز چھوڑ دیا

اسی طرح جنگ اور جیو کے سابق صحافی اور اینکر کامران خان بھی چند سال قبل طویل عرصے بعد ادارے کو خیرباد کہہ کر دوسرے ادارے سے وابستہ ہوئے تھے جبکہ آج کل وہ ایک اور میڈیا گروپ کی سربراہی کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر زیادہ تر صارفین حامد میر کی جانب سے جنگ اور جیو کو چھوڑنے پر حیران ہیں، انہوں نے اس ادارے میں کم سے کم 2 دہائیوں تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

حامد میر نے جہاں صحافت کا آغاز ہی روزنامہ جنگ سے کیا تھا وہیں انہوں نے اپنے پروفیشنل کا عروج بھی دیکھا اور انہوں نے اسی ادارے سے وابستہ رہ کر متعدد عالمی و ملکی شخصیات کے خصوصی انٹرویوز کیے۔

حامد میر نے نہ صرف اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا بلکہ انہوں نے افغان جنگ سمیت اسرائیل و لبنان جنگ پر بھی تحقیقاتی رپورٹس بنائیں۔

حامد میر کی تحقیقاتی خبریں اور کالم ملک کے اہم ایوانوں سمیت عوام میں زیر بحث رہے ہیں۔

سلمان حسن نے بھی جی این این کو جوائن کرلیا—فوٹو: ٹرینڈنگ پی کے

حامد میر نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت سابق صدور آصف علی زرداری، پرویز مشرف سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی و ریاستی عہدیداروں کے انٹرویوز بھی کیے۔

حامد میر نے غیر ملکی سیاستدانوں کے انٹرویوز بھی کیے جب کہ انہوں نے 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب اور سندھ سے لے کر بلوچستان تک دورہ کیا۔

حامد میر کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کے حوالے سے بھی نڈر صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

حامد میر نے 2001 میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو بھی کیا تھا—فوٹو: پبلک ریڈیو انٹرنیشنل