'صوفی ازم' وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں!
'صوفی ازم' وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں!
موجودہ زمانے میں گوناگوں اسلامی سیاسی تناظرات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے ایک زیادہ پُرامن پہلو کی جانب لوٹنے کے لیے 'صوفی' تصورات کا سہارا لیا جاتا ہے، بہ نسبت اس مذہبی پہلو کے جس کے نتیجے میں سیاسی عوامل پیدا ہوتے ہیں جنہیں اکثر منفی اور پُرتشدد سمجھا جاتا ہے۔
100 سال قبل یہ بات غیر معمولی نہ ہوتی اگر کوئی مغربی یا مغرب سے متاثر مقامی شخص اسلامی تصوف (جسے اکثر انگریزی میں پریشان کن طور پر صوفی ازم کہا جاتا ہے) کو مسلم معاشروں کی سرد مزاجی اور جمود کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے مذمت کرتا۔
مگر نئے سیاسی معروضی حقائق، خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد نے اسی مظہر کو 'اسلام کا ایک مثبت چہرہ' بنا کر پیش کیا ہے، جبکہ برطانوی لکھاری ولیم ڈیلرائمپل جیسے مبصرین 'صوفی' کہلانے والے ایک مبہم سے گروہ کو طالبان جیسی قوتوں کے خلاف 'ہمارا' بہترین دوست قرار دے چکے ہیں۔
لگتا ہے کہ ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں صحافیانہ اور پالیسی بحثیں اسلامی تصوف کی تصوراتی علامتوں، مثلاً اس کی سحر انگیز موسیقی، متاثر کن شاعری اور عظیم صوفیاء کے 'پیغام' میں پنہاں تبدیلی اور آزادی کی قوت پر فخر کرتی ہیں۔ ان صوفیاء کو واضح طور پر اسلام کے زیادہ 'تنگ نظر' یا 'قدامت پسند' نمائندوں سے الگ کیا جاتا ہے جن میں مُلّا، فقہاء اور علماء کی دیگر اقسام شامل ہیں۔
دوسری جانب جب ہم ان عظیم صوفیاء (ولیوں/شیخوں) اور روحانی رہنماؤں (پیروں) کے ورثے کو ٹریس کرتے ہوئے ان کے موجودہ دور کے روحانی وارثین تک پہنچتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اکثر یہ سب سماجی اور سیاسی ’اسٹیٹس کو‘ میں گہرائی تک پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے سماجی و سیاسی اثر و رسوخ کو تو اب انتخابی حوالے سے بھی ناپا جا سکتا ہے جب سے کالونیل دور میں پارلیمانی ادارے یہاں متعارف ہوئے۔
مزید پڑھیے: ریاست میں ’صوفی ازم‘ کی ملاوٹ کس نے اور کب شروع کی؟
پاکستان میں پیر طاقتور پارٹی رہنماؤں کی صورت میں (پیر پگارا)، وزراء کی صورت میں (شاہ محمود قریشی)، یہاں تک کہ وزرائے اعظم کی صورت میں (یوسف رضا گیلانی) بھی نظر آتے ہیں۔
زیادہ روایتی مذہبی شخصیات مثلاً پیر حمید الدین سیالوی (جنہوں نے حال ہی میں کئی اقسام کے مذہبی گروہوں کو متحد کرنے والے مذہبی مسئلے پر حکمراں جماعت کی حمایت چھوڑنے کی دھمکی پر میڈیا کی توجہ حاصل کی) نہ صرف ووٹ پر غیر معمولی بالواسطہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں بلکہ قانون سازی کے مختلف فورمز پر منتخب بھی ہوچکے ہیں۔
چنانچہ یہ واضح نہیں ہے کہ جب پالیسی ساز یہ کہتے ہیں کہ 'صوفی اسلام' کے تصورات اور روایات پر سرمایہ کاری کی جائے، تو ان کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
کیا یہ سرکاری تعلیمی نظام کے ذریعے ایک مخصوص مذہبی طرزِ عمل کو فروغ دینے کا مطالبہ ہے؟ یا پھر یہ غیر معروف فقیروں اور درویشوں کی عوام میں شہرت بڑھانے اور سجادہ نشینوں (صوفیاء اور پیروں کے مزاروں کے رکھوالوں اور موروثی نمائندوں) کی موجودہ حیثیتوں کو مضبوط کرنے کا نام ہے جن میں سے کئی پہلے ہی سیاسی اور سماجی طور پر انتہائی نمایاں ہیں؟
یا پھر یہ کہ ہمارے پالیسی ساز اسلامی تصوف کے کسی ایسے تصور کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو اب بھی کافی حد تک شاعرانہ اور فلسفیانہ حد تک محدود رہا ہے، یعنی کہ تصور کی سطح تک، اس حقیقت کے برعکس جس میں مسلمان صدیوں سے جی رہے ہیں؟
آج کے مختلف پالیسی حلقوں میں اسلامی تصوف کے تصوراتی خیالات کی فراوانی ان تاریخی روابط پر تحقیق کو دلچسپ بناتی ہے جو اسلامی معاشروں کے اندر روحانیت پسند گروہوں کے حکمراں طبقے اور مذہبی قوانین کے پاسداروں سے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وسطی ایشیاء، اناطولیہ، ایران اور مغل ہندوستان میں بادشاہوں، علماء اور صوفیاء کے درمیان عمومی تعلقات کیسے تھے۔ یہ تمام وہ علاقے ہیں جو کہ ایک مشترکہ فارسی ثقافتی اور علمی میراث رکھتے ہیں۔
کیا تصوف (اسلامی روحانیت پسندی) تاریخی طور پر معاشرے کی ایک غیر متحرک اور غیر سیاسی قوت رہی ہے یا پھر یہ کہ مشہور صوفیاء ایسے انداز میں سیاست اور سماج سے منسلک رہے جنہیں وسیع تر انداز میں مذہبی نمائندوں کے انداز سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟
بہتر رہے گا کہ پہلے ہم ایک ایسے اسلامی عارف کی زندگی کا جائزہ لیں جنہیں کسی بھی دوسرے سے زیادہ جانا پہچانا اور پسند کیا جاتا ہے: یعنی مولانا جلال الدین رومی (وفات 1273 عیسوی)۔ وہ قونیہ (موجودہ ترکی کے ایک علاقے) میں رہتے تھے۔ ان کی عارفانہ شاعری کی شہرت نے زبردست فاصلے طے کیے ہیں، مگر جو چیز کم ہی معلوم ہے وہ یہ کہ انہوں نے فقہ (یعنی اسلامی قانون) میں جامع تربیت حاصل کی تھی۔
تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حلب اور دمشق کے مشہور ترین مدارس میں قرآن اور فقہ کا علم کافی بلند سطح تک حاصل کیا تھا۔ بعد میں وہ کئی مدارس میں فقہ کے استاد رہے۔ اس روایت میں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی پیروی کی جو اناطولیہ کے ایک شاہی دربار میں مذہبی عالم تھے اور ایک ایسے ادارے میں پڑھاتے تھے جو مدرسے اور خانقاہ کے طور طریقوں کا ایک امتزاج تھا، جس سے انہوں نے دکھایا کہ ایک اسلامی معاشرے میں کس طرح ایک اسلامی لاء کالج اور عارفین کے ایک ٹھکانے کا تعلق کس طرح ملائم تھا۔ یہاں تک کہ مدرسے، جنہیں خاص طور پر علماء کی تربیت کے لیے بنایا جاتا تھا، انہیں صدیوں سے اکثر خانقاہوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔