نقطہ نظر

'صوفی ازم' وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں!

ہمارے خطے میں اسلامی تصوف کی مختلف لڑیوں کو وسیع تر اسلامی دنیا سے ان کے مستقل روابط کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

'صوفی ازم' وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں!

زہرا صابری

موجودہ زمانے میں گوناگوں اسلامی سیاسی تناظرات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے ایک زیادہ پُرامن پہلو کی جانب لوٹنے کے لیے 'صوفی' تصورات کا سہارا لیا جاتا ہے، بہ نسبت اس مذہبی پہلو کے جس کے نتیجے میں سیاسی عوامل پیدا ہوتے ہیں جنہیں اکثر منفی اور پُرتشدد سمجھا جاتا ہے۔

100 سال قبل یہ بات غیر معمولی نہ ہوتی اگر کوئی مغربی یا مغرب سے متاثر مقامی شخص اسلامی تصوف (جسے اکثر انگریزی میں پریشان کن طور پر صوفی ازم کہا جاتا ہے) کو مسلم معاشروں کی سرد مزاجی اور جمود کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے مذمت کرتا۔

مگر نئے سیاسی معروضی حقائق، خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد نے اسی مظہر کو 'اسلام کا ایک مثبت چہرہ' بنا کر پیش کیا ہے، جبکہ برطانوی لکھاری ولیم ڈیلرائمپل جیسے مبصرین 'صوفی' کہلانے والے ایک مبہم سے گروہ کو طالبان جیسی قوتوں کے خلاف 'ہمارا' بہترین دوست قرار دے چکے ہیں۔

لگتا ہے کہ ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں صحافیانہ اور پالیسی بحثیں اسلامی تصوف کی تصوراتی علامتوں، مثلاً اس کی سحر انگیز موسیقی، متاثر کن شاعری اور عظیم صوفیاء کے 'پیغام' میں پنہاں تبدیلی اور آزادی کی قوت پر فخر کرتی ہیں۔ ان صوفیاء کو واضح طور پر اسلام کے زیادہ 'تنگ نظر' یا 'قدامت پسند' نمائندوں سے الگ کیا جاتا ہے جن میں مُلّا، فقہاء اور علماء کی دیگر اقسام شامل ہیں۔

دوسری جانب جب ہم ان عظیم صوفیاء (ولیوں/شیخوں) اور روحانی رہنماؤں (پیروں) کے ورثے کو ٹریس کرتے ہوئے ان کے موجودہ دور کے روحانی وارثین تک پہنچتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اکثر یہ سب سماجی اور سیاسی ’اسٹیٹس کو‘ میں گہرائی تک پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے سماجی و سیاسی اثر و رسوخ کو تو اب انتخابی حوالے سے بھی ناپا جا سکتا ہے جب سے کالونیل دور میں پارلیمانی ادارے یہاں متعارف ہوئے۔

مزید پڑھیے: ریاست میں ’صوفی ازم‘ کی ملاوٹ کس نے اور کب شروع کی؟

پاکستان میں پیر طاقتور پارٹی رہنماؤں کی صورت میں (پیر پگارا)، وزراء کی صورت میں (شاہ محمود قریشی)، یہاں تک کہ وزرائے اعظم کی صورت میں (یوسف رضا گیلانی) بھی نظر آتے ہیں۔

زیادہ روایتی مذہبی شخصیات مثلاً پیر حمید الدین سیالوی (جنہوں نے حال ہی میں کئی اقسام کے مذہبی گروہوں کو متحد کرنے والے مذہبی مسئلے پر حکمراں جماعت کی حمایت چھوڑنے کی دھمکی پر میڈیا کی توجہ حاصل کی) نہ صرف ووٹ پر غیر معمولی بالواسطہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں بلکہ قانون سازی کے مختلف فورمز پر منتخب بھی ہوچکے ہیں۔

چنانچہ یہ واضح نہیں ہے کہ جب پالیسی ساز یہ کہتے ہیں کہ 'صوفی اسلام' کے تصورات اور روایات پر سرمایہ کاری کی جائے، تو ان کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

کیا یہ سرکاری تعلیمی نظام کے ذریعے ایک مخصوص مذہبی طرزِ عمل کو فروغ دینے کا مطالبہ ہے؟ یا پھر یہ غیر معروف فقیروں اور درویشوں کی عوام میں شہرت بڑھانے اور سجادہ نشینوں (صوفیاء اور پیروں کے مزاروں کے رکھوالوں اور موروثی نمائندوں) کی موجودہ حیثیتوں کو مضبوط کرنے کا نام ہے جن میں سے کئی پہلے ہی سیاسی اور سماجی طور پر انتہائی نمایاں ہیں؟

یا پھر یہ کہ ہمارے پالیسی ساز اسلامی تصوف کے کسی ایسے تصور کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو اب بھی کافی حد تک شاعرانہ اور فلسفیانہ حد تک محدود رہا ہے، یعنی کہ تصور کی سطح تک، اس حقیقت کے برعکس جس میں مسلمان صدیوں سے جی رہے ہیں؟

آج کے مختلف پالیسی حلقوں میں اسلامی تصوف کے تصوراتی خیالات کی فراوانی ان تاریخی روابط پر تحقیق کو دلچسپ بناتی ہے جو اسلامی معاشروں کے اندر روحانیت پسند گروہوں کے حکمراں طبقے اور مذہبی قوانین کے پاسداروں سے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وسطی ایشیاء، اناطولیہ، ایران اور مغل ہندوستان میں بادشاہوں، علماء اور صوفیاء کے درمیان عمومی تعلقات کیسے تھے۔ یہ تمام وہ علاقے ہیں جو کہ ایک مشترکہ فارسی ثقافتی اور علمی میراث رکھتے ہیں۔

کیا تصوف (اسلامی روحانیت پسندی) تاریخی طور پر معاشرے کی ایک غیر متحرک اور غیر سیاسی قوت رہی ہے یا پھر یہ کہ مشہور صوفیاء ایسے انداز میں سیاست اور سماج سے منسلک رہے جنہیں وسیع تر انداز میں مذہبی نمائندوں کے انداز سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟

بہتر رہے گا کہ پہلے ہم ایک ایسے اسلامی عارف کی زندگی کا جائزہ لیں جنہیں کسی بھی دوسرے سے زیادہ جانا پہچانا اور پسند کیا جاتا ہے: یعنی مولانا جلال الدین رومی (وفات 1273 عیسوی)۔ وہ قونیہ (موجودہ ترکی کے ایک علاقے) میں رہتے تھے۔ ان کی عارفانہ شاعری کی شہرت نے زبردست فاصلے طے کیے ہیں، مگر جو چیز کم ہی معلوم ہے وہ یہ کہ انہوں نے فقہ (یعنی اسلامی قانون) میں جامع تربیت حاصل کی تھی۔

تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حلب اور دمشق کے مشہور ترین مدارس میں قرآن اور فقہ کا علم کافی بلند سطح تک حاصل کیا تھا۔ بعد میں وہ کئی مدارس میں فقہ کے استاد رہے۔ اس روایت میں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی پیروی کی جو اناطولیہ کے ایک شاہی دربار میں مذہبی عالم تھے اور ایک ایسے ادارے میں پڑھاتے تھے جو مدرسے اور خانقاہ کے طور طریقوں کا ایک امتزاج تھا، جس سے انہوں نے دکھایا کہ ایک اسلامی معاشرے میں کس طرح ایک اسلامی لاء کالج اور عارفین کے ایک ٹھکانے کا تعلق کس طرح ملائم تھا۔ یہاں تک کہ مدرسے، جنہیں خاص طور پر علماء کی تربیت کے لیے بنایا جاتا تھا، انہیں صدیوں سے اکثر خانقاہوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

جہانگیر بادشاہوں پر شیوخ کو ترجیح دیتے ہوئے — Courtesy purchase, Charles Lang Freer Endowment

سوانح نگاروں نے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے کہ کس طرح مولانا رومی سے اکثر و بیشتر مختلف موضوعات پر قانونی آراء طلب کی جاتی تھیں۔ ایک روحانی رہنما اور مبلغ کے طور پر وہ باقاعدگی سے جمعے کا خطبہ دیا کرتے، چنانچہ انہوں نے ایک بہترین مقرر کے طور پر شہرت حاصل کرلی اور معاشرے کے تمام حلقوں سے مریدین حاصل کیے۔ قونیہ میں ان کے لیکچروں میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہوا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنی مشہور شاعری بھی لکھ رہے تھے اور انہیں سماع اور رقص کے اپنے منفرد طرز کی وجہ سے جانا جانے لگا تھا، جس پر اکثر و بیشتر علماء جہاں تنقید کرتے، وہیں کئی ان کی تکریم بھی کرتے رہے۔

مزید پڑھیے: رومی کی تلاش

رومی کے خطوط سے یہ واضح ہے کہ ان کے کئی سلجوق حکمرانوں سے انتہائی قریبی تعلقات بھی تھے اور وہ ان میں سے ایک کو 'بیٹا' بھی کہہ چکے ہیں۔ یہ بات نایاب نہیں تھی کہ وہ ان حکمرانوں کی مختلف ریاستی امور پر رہنمائی کرتے اور (مثال کے طور پر کافر طاقتوں سے تعلقات کے حوالے سے) مذہبی قوانین کی روشنی میں سفارشات پیش کرتے۔ انہیں اپنے مریدوں اور رشتے داروں کو سماجی اور عملی طور پر مدد کے حصول کے لیے طاقتور افراد سے بذریعہ خطوط متعارف کروانے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے خطبوں اور مسحور کن شاعری کے برعکس یہ خطوط ان روایات پر کاربند نظر آتے ہیں جن کا خیال ریاستی اہلکاروں اور اشرافیہ سے خط و کتابت کے دوران رکھا جاتا ہے۔

یہ سب اس تصور کے خلاف ہے کہ عرفاء (مشائخ) حکمرانوں سے تعلقات کے ہمیشہ سختی سے خلاف رہے ہیں۔ عرفاء کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ خدا پر غور کرنے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں دنیا کے چھوٹے موٹے سیاسی امور سے کوئی لینا دینا ہوتا ہی نہیں۔ مگر اس تاثر کے بالکل الٹ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی نامور عرفاء نے اسلامی تاریخ میں سماج اور سیاست میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔

یہ نہ صرف نامور عرفاء کے نسلی وارثین پر صادق آتا ہے جو آج مصر اور پاکستان جیسے مسلم ممالک میں خاصا سماجی و سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، بلکہ ان مشائخ کے لیے بھی جن کے ناموں پر کئی روحانی سلسلے شروع کیے گئے تھے۔ یہ مشائخ واضح طور پر اس دنیا میں رہے، اشرافیہ اور بادشاہوں اور علماء کے کئی طبقوں سے مختلف انداز میں نہیں۔

رومی کی زندگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ خانقاہ اور مدرسوں کی 2 دنیائیں، جنہیں اکثر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف سمجھا جاتا ہے، اکثر و بیشتر اپنے کردار میں ایک دوسرے کے دائرہ کار میں آجاتے ہیں۔ زاہد، واعظ یا شیخ کے صوفی شاعری میں تضحیک آمیز ذکر کے باوجود اس کی کوئی عملی وجہ نہیں کہ روحانی افراد مجموعی طور پر کیوں دیگر حکمرانوں یا مذہب کے نمائندوں سے بنیادی اختلاف رکھتے ہوں گے۔ درحقیقت جدید دور تک بھی ہم نے دیکھا ہے کہ علماء اور عرفاء مشترکہ سیاسی و مذہبی مقاصد کے حصول کے لیے ایک ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ برٹش انڈیا میں خلافت تحریک ان کے کئی مشترکہ کاموں میں سے صرف ایک مثال ہے۔

رومی کی سرگرمیاں سیاست سے وابستگی کے ایک ہمہ گیر رجحان کا اشارہ ہیں جو کئی اسلامی معاشروں کے نامور عرفاء میں موجود تھا۔ وسطی ایشیاء میں نقشبندی روحانی سلسلے کے مشائخ سے حمایت 15ویں صدی کے اختتام تک کسی بھی حکمران کے حکومت کرنے کے لیے لازم تھی، کیوں کہ یہ روحانی سلسلہ عوام میں بڑی حد تک اپنی جڑیں قائم کرچکا تھا۔ تیموری اور مغل حکمرانوں کی نقشبندی سلسلے سے وابستگی بھی مشہور ہے۔ ازبکستان سے تعلق رکھنے والے شیبانی حکمرانوں کے بھی اس سلسلے سے گہرے تعلقات تھے اور نقشبندی مشائخ مغل اور ازبک حکمرانوں کے درمیان تصفیے کے لیے اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

نقشبندی صوفی سلسلوں میں کچھ حد تک غیر معمولی ہیں کیوں کہ ان میں تاریخی طور پر سیاسی امور سے وابستگی اور خلوت کے بجائے صحبت کی حمایت کرنے کا رجحان رہا ہے، مگر سیاسی وابستگیاں دیگر روحانی سلسلوں میں بھی نایاب نہیں ہیں۔

شیخ معین الدین چشتی اجمیری — Courtesy trustees of the Chester Beatty library, Dublin

اپنے ہی گھر کے پاس دیکھیں تو سہروردی سلسلے سے تعلق رکھنے والے شیخ بہاؤالدین ذکریا (وفات 1262) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملتان کی منگولوں کے سامنے پُرامن تسلیمِ شکست میں کردار ادا کیا تھا اور حملہ آور فوج کے سربراہ کو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے بدلے میں 10 ہزار دینار نقد فراہم کیے تھے۔ واقعتاً سہروردیوں نے ہمیشہ حکمرانوں پر مذہبی طور پر صحیح فیصلے لینے کے لیے اثر انداز ہونے کی کوششیں کی ہیں۔ بہاؤالدین ذکریا دہلی کے مملوک خاندان (خاندانِ غلاماں) کے سلطان التمش کے انتہائی قریب تھے اور انہیں شیخ الاسلام کا سرکاری عہدہ بھی دیا گیا تھا۔ جب گورنرِ ملتان ناصر الدین قباچہ نے سلطان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو بہاؤالدین ذکریا نے سلطان کا ساتھ دیا۔

یہ بات عمومی معلومات میں ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کا نام شیخ سلیم چشتی (وفات 1572) کے نام پر رکھا گیا تھا مگر جو بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے وہ یہ کہ ان کے پردادا بابر کا نام ظہیرالدین بابر بھی نقشبندی شیخ خواجہ عبیداللہ احرار (وفات 1490) کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان شیخ کو وسطی ایشیاء میں بے پناہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔ شیخ کے بیٹے نے بعد میں بابر سے ازبکوں کے خلاف سمرقند کا دفاع کرنے کے لیے کہا۔ جب کئی سال بعد بابر ہندوستان میں بیمار پڑگیا تو انہوں نے خواجہ احرار کی ایک تصنیف کو شعری زبان میں منتقل کیا تاکہ بیماری سے شفاء کے لیے شیخ کی دعائیں حاصل کی جاسکیں۔

جب بابر اپنے وطن وسطی ایشیاء کی سرزمین پر کنٹرول کھو بیٹھا اور ہندوستان اس کی نئی سلطنت بنا، تو وہ اور اس کے بعد آنے والوں نے وسط ایشیائی نقشبندی سلسلوں مثلاً احراروں، جبیریوں اور ذہبیوں سے قریبی و مضبوط تعلقات رکھے۔ یہ تعلقات صرف روحانی سطح پر نہیں بلکہ مغل دربار میں اہم فوجی اور انتظامی عہدے بھی نقشبندی شیوخ کی نسلوں کی نسلوں کے پاس رہے۔

ان شیوخ کی اولادیں بھی شہزادیوں کے لیے پسندیدہ شریکِ حیات قرار پاتیں، چنانچہ یہ اشرافیہ میں خود ہی گھل مل گئے۔ بابر اور ہمایوں، دونوں ہی کی ایک ایک بیٹی کی شادی نقشبندی شیوخ کی اولادوں کے ساتھ کی گئی تھی۔ دونوں بادشاہوں نے خود بھی خراسان کے علاقے جام سے تعلق رکھنے والے شیوخ کے خاندان میں شادی کی۔ اکبر کی والدہ حمیدہ بانو (مریم مکانی) نامور شیخ احمدِ جام (وفات 1141) کے خاندان سے تھیں۔

ہندوستان میں مغل شہزادوں اور بادشاہوں نے کئی دیگر روحانی سلسلوں مثلاً چشتیوں اور قادریوں کے ساتھ بھی اہم تعلقات قائم کیے۔ خاص طور پر سلسلہ شطاریہ (جس کی ابتداء فارس میں ہوئی) نے بڑھتے بڑھتے کچھ مغل بادشاہوں پر خاصا اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مغل حکمرانوں کے اندر عام رجحان تھا کہ وہ اپنے روحانی رہنماؤں کے لیے تعریفی کلمات لکھا کرتے تھے۔ مثلاً، دارا شکوہ نے اپنے روحانی رہنما حضرت میاں میر (وفات 1635) اور دیگر قادری شیوخ کے تذکرے لکھے ہیں۔ دارا شکوہ کی بہن جہاں آراء نے بھی دہلی کی چشتی شیوخ کے بارے میں لکھا ہے۔

پڑھیے: دارا شِکُوہ، آگرہ کے محلات سے سندھ کے ویرانوں تک

عرفاء کے لیے شاہی عقیدت اتنی زیادہ تھی کہ کچھ مغل حکمرانوں نے ہندوستان سے باہر اپنے ہم منصبوں کی طرح ہی نامور شیوخ کی قبروں کے ساتھ دفن ہونے کی خواہش کی۔ مثال کے طور پر اورنگزیب کو ایک چشتی شیخ زین الدین شیرازی (وفات 1369) کے ساتھ دفن کیا گیا۔ دہلی میں محمد شاہ کی قبر بھی ایک اور چشتی شیخ نظام الدین اولیاء (وفات 1325) کی قبر کے ساتھ ہے۔

دیگر مغل اور اسلامی حکمرانوں کی طرح اورنگزیب کی زندگی بھی کئی مقامات پر مختلف روحانی سلسلوں (مثلاً چشتی، شطاری، نقشبندی) سے عقیدت کا پتہ دیتی ہے۔ روایات ہیں کہ اپنے بھائی دارا شکوہ سے تخت کے لیے جنگ لڑنے کے دوران اس نے نقشبندیوں سے دعا کے لیے کہا تھا۔ نقشبندی نمائندوں نے نہ صرف جنگ کے دوران ان کی طرف داری کا وعدہ کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ وہ بغداد میں غوثِ اعظم عبدالقادر جیلانی (وفات 1166) کے مزار پر بھی اس کی فتح کے لیے دعا کریں گے۔ اسی طرح انہوں نے مکہ میں رہائش پذیر علماء اور مشائخ سے بھی اورنگزیب کے لیے دعاؤں کے حصول کا وعدہ کیا تھا۔

مغل شہزادہ پرویز ایک مقدس شخصیت سے گفتگو کرتے ہوئے Courtesy purchase — Charles Lang Freer Endowment

مختلف اسلامی معاشروں میں بااثر مشائخ کی روحانی اور دنیاوی قوت کا مطلب تھا کہ حکمران اپنی حکومت کے استحکام اور طوالت کے لیے ان کی سیاسی حمایت اور روحانی دعاؤں کے حصول کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ فوائد دونوں ہی فریقوں کو حاصل ہوتے۔ حکمران کی سیاسی پوزیشن مشائخ کی مہرِ تصدیق سے مضبوط ہوتی جبکہ بادشاہوں اور دولت مند اشرافیہ کی جانب سے مشائخ کی مالی سرپرستی کی وجہ سے ان کی سماجی اور معاشی پوزیشن مضبوط ہوتی، جن میں سے اکثر بعد میں زمینوں کے طاقتور مالک بن بیٹھے۔ ان شیوخ کی پیچھے چھوڑی گئی زمینیں اور ورثے اکثر اوقات ان کے شاہی سرپرستوں سے بھی زیادہ نکلتے۔

مگر کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہر نامور عارف کے حکمرانوں کے ساتھ مساوی طور پر قریبی تعلقات تھے۔ کچھ مشائخ (بالخصوص چشتی) بادشاہوں سے ملنے سے انکار کرنے اور دنیاوی قوت سے الگ تھلگ رہنے پر اصرار کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ حاضری دینے کی علاؤالدین خلجی کی بار بار درخواست پر شیخ نظام الدین اولیاء نے جو جواب دیا، وہ مشہور ہے: ’میرے گھر میں 2 دروازے ہیں۔ اگر سلطان ایک دروازے سے اندر آیا تو میں دوسرے سے باہر نکل جاؤں گا۔‘ مگر حقیقت میں سختی سے الگ تھلگ رہنے والے مشائخ بھی اکثر اوقات شاہی گھرانوں اور اعلیٰ سرکاری اہلکاروں میں اپنے مریدوں کے ذریعے اقتدار کی راہداریوں تک رسائی سے فوائد حاصل کرتے تھے۔

مزید پڑھیے: پیر پٹھو کی وادی: موجوں سے مَیلوں تک

سلطانوں اور مشائخ کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہموار بھی نہیں رہے۔ وقتاً فوقتاً ان کے تعلقات بگاڑ کا شکار بھی ہوجاتے تھے۔ شیوخ کو اکثر جلاوطنی، قید، یہاں تک کہ سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑتا جیسے ان کے الفاظ یا اقدامات سے امنِ عامہ کو نقصان ہوتا یا پھر وہ شاہی تخت حاصل کرلینے کی پوزیشن میں آجاتے۔ شیخ احمد سرہندی (وفات 1624) کی مثال مشہور ہے۔ جہانگیر نے انہیں مختصر مدت کے لیے قید میں رکھا کیوں کہ ان کے اپنے روحانی مرتبے کے بارے میں بلند و بالا دعوؤں سے امنِ عامہ متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ ان سے کئی صدیوں قبل سِدی مولا کو جلال الدین خلجی نے سزائے موت دے دی تھی کیوں کہ اسے شک تھا کہ شیخ اس کے تخت پر قبضہ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اسلامی روحانی سلسلوں نے صرف بادشاہوں اور ریاستی عہدیداروں کے ذریعے تاریخی طور پر سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ کچھ نے تو براہِ راست عسکری مہمات بھی شروع کیں۔ موجودہ وقت کا مشہور عمومی نظریہ کہ 'صوفی ازم' کسی خودکار انداز میں 'امن' کا نام ہے، اس کے برعکس کچھ اسلامی روحانی سلسلوں کے پاس قابلِ غور حد تک فوجی بھرتیوں کی صلاحیت تھی۔

موجودہ دور کے ایرانی آذربائیجان میں اردبیل کا صفویہ روحانی سلسلہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ 2 صدیوں کے دورانیے میں اس سُنّی صوفی سلسلے نے خود کو ایک لڑاکا قوت میں تبدیل کرلیا۔ قزلباش مریدوں کی اپنی فوج کی مدد سے پہلے صفوی حکمراں شاہ اسمٰعیل اول نے 16ویں صدی کے ایران میں ایک پائیدار شیعہ سلطنت قائم کی۔

موجودہ دور میں دیکھیں تو سندھ میں پیر پگارا کے حروں نے برٹش دور میں ایک اور مثال پیش کی کہ کس طرح پیر کے مرید ایک تربیت یافتہ لڑاکا قوت بن سکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں مشائخ کی ایسی دوسری مثالیں تلاش کرنا مشکل نہیں جنہوں نے سلطانوں پر جنگیں چھیڑنے کے لیے زور دیا یا جو عسکری مہمات میں سلطانوں کے ساتھ رہے یا پھر جنہوں نے اپنے مریدوں کو اپنے پسندیدہ حکمرانوں کی افواج میں لڑنے کی ترغیب دی۔ کچھ کے بارے میں تو مانا جاتا ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر مسلح جنگوں میں شرکت بھی کی تھی۔

مولانا جلال الدین رومی اپنے مریدوں میں مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں Courtesy Museum of Fine Arts, Boston

چنانچہ جہاد پر علماء اور عرفاء کے مختلف مؤقف کی بات کرنا واضح طور پر غلطی ہوگی۔ دوسرے مسائل کی طرح اس مسئلے پر بھی 'صوفی ازم' بمشکل ہی مرکزی دھارے کے روایتی اسلام سے ہٹ کر ہے۔

ایک اور مشہورِ عام غلط فہمی 'صوفی ازم' کو اسلام کا جنوبی ایشیائی تجربہ یا پھر اسلام کی اس خطے میں جنم لینے والی ایسی نرم خو 'برانڈ' قرار دینا ہے جو دیگر جگہوں پر پائے جانے والے 'سخت گیر' اسلام سے مختلف ہے۔ پیری مریدی کے تعلقات سے وابستہ رسومات اور درگاہوں کے دورے واقعی مقامی ثقافت کے اثرات کا مظہر ہیں اور دیگر ممالک اور خطوں کی عارفانہ رسومات سے واضح طور پر مختلف ہیں۔

مگر جنوبی ایشیاء میں اسلامی تصوف کی پہچان بننے والے رجحانات اور خدوخال واضح طور پر مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاء کے اسلامی تصوف سے ملتے جلتے ہیں۔ جیسا کہ برطانوی اسکالر نائل گرین کہتے ہیں، ’جسے اکثر اوقات اسلام کی جنوبی ایشیائی خصوصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی صوفی مزاروں کی پیروی پر زور، وہ درحقیقت وسیع تر اسلامی ثقافت کی اہم روایات اور رسومات میں سے ایک اہم رسم تھی جسے جنوبی ایشیاء میں ابتدائی دور میں متعارف کروایا گیا۔ جنوبی ایشیاء میں صوفی ازم کی تاریخ سمجھنا مشکل ہے اگر ہم وسیع تر اسلامی دنیا مثلاً عرب، زرخیز ہلال (عراق، شام، لبنان، مصر کے علاقوں پر مشتمل خطہ) ایران اور وسطی ایشیاء سے مقدس شخصیات کی جنوبی ایشیاء ہجرت کے طویل اور منفرد رجحانات کی بحث میں نہ جائیں۔’

یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاء کے تمام بڑے روحانی سلسلوں کی شروعات اس خطے کے باہر ہوئی۔ یہاں تک کہ سلسلہءِ چشتیہ، جسے کسی بھی خطے سے زیادہ جنوبی ایشیاء سے اپنی وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے، وہ افغانستان میں موجودہ ہیرات کے نزدیک چشت میں قائم ہوا۔ روحانی سلسلوں سے وابستہ شیوخ اور ان کے مریدوں نے وقتاً فوقتاً ان بین العلاقائی روابط کی نہ صرف اہمیت کو اجاگر کیا ہے بلکہ ان پر فخر بھی کیا ہے۔

شیخ علی الہجویری (وفات 77-1072) افغانستان میں غزنہ سے ہجرت کرکے لاہور میں قیام پذیر ہوئے، انہیں داتا گنج بخش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بلند مرتبے والے وہ شیخ جو کہ برِصغیر سے باہر رہتے تھے، ان کا رتبہ داتا گنج بخش سے کسی صورت کم ہے۔ آج بھی بغداد کے غوثِ اعظم کی جنوبی ایشیاء میں کافی قدر و منزلت ہے۔

کوئی بھی شخص، جو برِصغیر سے باہر مسلم تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت رکھتا ہے، اس کے لیے اس مؤقف کا دفاع مشکل ہوگا جسے ہم خاص طور پر جنوبی ایشیاء کی عوام اور تحقیقی بحثوں میں سنتے ہیں کہ 'صوفی اسلام' کسی نہ کسی طرح سندھ یا پنجاب یا پھر وسیع تر انداز میں برِصغیر کا خاصہ ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو ہمارے خطے میں اسلامی تصوف کی مختلف لڑیوں کو وسیع تر اسلامی دنیا سے ان کے مستقل روابط کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

تصوف آخر ہے کیا؟ مایہ ناز ایرانی اسکالر عبدالحسین زرینکوب اسے ’خدا سے براہِ راست اور ذاتی رابطہ حاصل کرنے کی کوشش‘ قرار دیتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ تصوف انسانیت جتنا ہی قدیم ہے اور اسے کسی نسل یا مذہب کے ساتھ مخصوص قرار نہیں دیا جاسکتا۔

چنانچہ یہ کافی پریشان کن ہوگا اگر اسلامی تصوف صرف برِصغیر میں پھلتا پھولتا اور کسی دیگر اسلامی خطے میں نہیں، جیسا کہ ہمارے کچھ دانشوروں کا ماننا ہے۔ اسلامی تصوف بھی فارس، وسطی ایشیاء اور عرب کی سرزمین سے اتنا ہی متاثر ہے جتنا کہ ہمارے خطے میں اسلام کے دیگر پہلو۔ جب ہم صوفیاء کی زندگیوں اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کریں تو ان اثرات کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔

جیسا کہ شیخ احمد سرہندی (مجدد الفِ ثانی) نے 16ویں یا 17ویں صدی میں لکھا تھا: ’ہم مسلمانانِ ہند ماوراء النہر کے علماء اور صوفیاء (مشائخ) کے اتنے مقروض ہیں کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس خطے کے علماء ہی تھے جنہوں نے [مسلمانوں کے] عقائد کی درستگی کے لیے جدوجہد کی تاکہ وہ صحیح عقائد، اصحابِ رسول ﷺ کی آراء اور برادری (اہلِ سنت والجماعت) کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حنفی قانون کے تحت [مسلمانوں کی] مذہبی رسومات کی اصلاح کی۔ اس بے مثال صوفی سلسلے کے راستے پر عظیم صوفیاء (ان کی قبریں منور ہوں) کا سفر ہندوستان میں اسی بابرکت خطے کی بدولت ہو پایا ہے۔‘

یہ اثرات مکمل طور پر یک طرفہ نہیں تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مجددی سلسلہ (جسے ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی نے نقشبندی سلسلے کی ذیلی شاخ کے طور پر پروان چڑھایا) وسطی ایشیاء اور اناطولیہ میں قابلِ قدر اثر و رسوخ کا حامل بنا۔ اس سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ یہ خطے کس طرح کالونیل دور کی آمد سے قبل دانش، ادب اور تجارتی سطحوں پر ایک دوسرے سے منسلک تھے۔

محوِ رقص درویش — Courtesy purchase, Rogers Fund and the Kevorkian Foundation Gift, 1955

یہ مضمون اسلامی تصوف کے بارے میں 4 مفروضوں کے ازالے کی ایک کوشش تھی۔

پہلا مفروضہ

پہلا مفروضہ تو یہ کہ عرفاء کی خانقاہوں اور علماء کے مدرسوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے (چنانچہ 'صوفی اسلام' اور مرکزی دھارے کے سنی اسلام کے درمیان بہت بڑا فرق ہے)۔

دوسرا مفروضہ

دوسرا مفروضہ یہ کہ صوفیاء غیر متحرک، غیر سیاسی اور اپنے وقت کے سیاسی امور سے لاتعلق رہتے ہیں۔

تیسرا مفروضہ

تیسرا مفروضہ یہ کہ تمام تر صوفیاء اپنی فطرت میں 'امن پسند' ہوتے ہیں اور مسلح جہاد یا جنگ کے خلاف ہوتے ہیں۔

چوتھا مفروضہ

آخری مفروضہ یہ کہ اسلامی تصوف یا تو دیگر اسلامی زمینوں کے برعکس جنوبی ایشیائی ماحول سے مخصوص ہے یا اس ماحول سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

اگر ہم مسلم معاشروں، مثلاً آج کے پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے اسلامی تصوف کو فروغ دینے کے امکانات اور محدودیت پر کوئی بھی معنی خیز پالیسی بحث کرنا چاہتے ہیں تو ان چاروں نکات کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔

جب ہم اس خطے میں اسلامی تصوف کو فروغ دینے کے لیے دلیل پیش کریں، تو ہمارے لیے اس حقیقت سے آگاہ ہونا اہم ہے کہ ہم درحقیقت مرکزی دھارے کے سُنّی (بالعموم حنفی) اسلام کو اس کی تاریخی روایتی صورت میں فروغ دینے کی دلیل پیش کر رہے ہیں۔


ترجمہ: بلال کریم مغل ۔ انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں مغل تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ماہنامہ ہیرالڈ کے اپریل 2018 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔

زہرا صابری

لکھاری کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں مغل تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔