نقطہ نظر

میری زندگی میں برلن کا باب

یہاں آج کا درجہ حرارت 30 سے اوپر تھا، یعنی خوب گرم دن تھا،لیکن شہر کو دیکھنے کی آرزو میں اس تپش کو تو برداشت کرنا ہی تھا

شہر برلن جرمنی کا دارالخلافہ ہے اور ایک خوبصورت تاریخی شہر بھی۔ اس بڑے شہر میں درجنوں میوزیم اور سیکڑوں دیکھنے والی جگہیں ہیں، لیکن مجھے اس شہر کے حوالے سے ایک ہی چیز ہمیشہ یاد پڑتی تھی اور وہ تھی دیوار برلن۔ سچ کہیے تو برلن سے زیادہ مجھے اس دیوار کو دیکھنے کا شوق تھا جس نے کمیونزم اور ڈیموکریٹس کی تقسیم کو مجسم کردیا تھا۔ مشرقی اور مغربی برلن 2 مختلف طاقتوں کے تسلط کا استعارہ بھی تھے، جس نے ایک دوسرے سے روز ملنے والوں اور محبت کرنے والوں کو بھی ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔

میں اپنی گاڑی پر کوپن ہیگن سے برلن کے لیے روانہ ہوا تھا۔ یہ سفر تقریباً 6 گھنٹوں کا ہے جس میں سے سفر کا کچھ حصہ تقریباً پونے 2 گھنٹے فیری میں تھا۔ گیدسر نامی ڈینش شہر سے روس اسٹاک نامی جرمن شہر تک فیریاں چلتی ہیں جو برلن جانے کے لیے موزوں ترین ہیں۔ فیری ہر 2 گھنٹے کے بعد چلتی ہے۔ 5 بجنے میں ابھی 2 منٹ باقی تھے جب ہم فیری ٹرمینل پہنچے لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے فیری کے گیٹ بند ہوگئے اور ہم مجبور ہوگئے کہ اگلی فیری کا انتظار کریں۔ اگلی فیری اپنے وقت سے 10 منٹ لیٹ تھی۔ خیر یہ معاملات تو ہر سفر کا حصہ ہیں۔

میرا ہوٹل سٹی سینٹر سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور اپنی رینکنگ کے حساب سے یہ ایک تھری اسٹار ہوٹل تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس گرمی کے موسم میں یورپ کے کئی تھری اور فور اسٹار ہوٹلوں کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ اتنی گرمی کے لیے یہ ہوٹل تیار نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ہمارا ہوٹل تھا جہاں گرمی کا کوئی توڑ موجود نہیں تھا۔ لیکن اس مشکل اور پریشانی نے ہمیں یہ سبق ضرور سکھایا کہ اگلا جو بھی ہوٹل دیکھا جائے اس کی سہولیات میں ایئرکنڈیشن ضرور دیکھا جائے۔

اگلی صبح ہم نے اپنی گاڑی ہوٹل میں ہی پارک رہنے دی اور سٹی سینٹر بذریعہ عوامی ٹرانسپورٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پر عوامی ٹرانسپورٹ ڈنمارک کی نسبت خاصی سستی ہے۔ تقریباً 8 یورو میں ہمیں پورے دن کا پاس مل گیا جو ہمارے لیے کافی تھا۔ دنیا میں راستہ دکھانے والوں کی کمی نہیں، ٹرام کے باہر کھڑے مسافروں سے پوچھا تو انہوں نے خوش دلی سے سٹی سینٹر کی سمت بتائی۔

ٹرام کے بعد ایک ٹرین لے کر پہلی منزل تک پہنچنا تھا۔ ایک بزرگ سے راستہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ ساتھ چلیے، اور وہ ہمیں متعلقہ پلیٹ فارم پر لے آئے۔ ہمارا پہلا اسٹاپ الیگزینڈ پلیٹس نامی جگہ تھی۔ یہ ایک مرکزی چوراہا ہے جہاں بس اسٹیشن، ٹرین اسٹیشن اور شاپنگ سینٹرز ہیں۔ اس کا نام روسی زار الیگزینڈر کے نام پر رکھا گیا تھا اور بعد میں اس چوراہے کو مقامی سیاست میں ایک مجمع گاہ کی سی اہمیت حاصل رہی۔ انڈر گراؤنڈ ٹرین سے باہر نکلے تو اس بڑی کھلی جگہ پر ایک جہان آباد پایا۔ ٹؤرسٹ کمپنیوں کے چاق و چوبند سیلز مین اور عورتیں آپ کا خوب استقبال کرتی ہیں، اکثریت نے شوخ طرز کی ایک وردی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں بروشر اور سٹی ٹور کے لیے آپ کو موٹی ویٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ یورپ کے تقریباً سبھی سیاحتی مقامات پر بس ٹؤر، کشتی ٹؤر، پیدل ٹؤر اور سائیکل ٹؤر طرز کی کمپنیاں پائی جاتی ہیں۔

الیگزینڈر پلیٹس میں کھڑے ہو کر پہلی نظر میں ہی آپ کو برلن کا ٹی وی ٹاور دکھائی دیتا ہے۔ یہ ٹی وی ٹاور برلن کا ایک تصویری آئکن ہے اور دیگر شہروں کی یہاں بھی اوپر جاکر شہر کا نظارہ کرنے کی سہولت رکھی گئی ہے، جس کے لیے آپ کو اینٹری فیس دینی ہوگی اور اگر اوپر جاکر اسکائی بار میں ان سے کافی خرید کر پئیں تو کمپنی آپ کو مزید دعائیں بھی دے گی۔ لیکن ٹی وی ٹاور کے باہر سیاحوں کا رش لگا ہوا تھا۔ اسی ٹاور کے ایک طرف برلن کا سٹی ہال بھی موجود ہے، جس کے سامنے کچھ تعمیراتی کام ہو رہا تھا، اس لیے اس ٹاؤن ہال کو دیکھنے کے لیے ایک دو بلاک چل کر دوسری طرف جانا پڑا، یہاں پر مختلف برانڈز کی دکانیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور ایک واکنگ اسٹریٹ طرز کی جگہ کا بھی گمان ہوتا ہے۔

برلن شہر کو دیکھنے کے شوق میں یہ بات کچھ دیر کے لیے محو ہوگئی کہ ابھی ناشتہ نہیں کیا۔ اسی الیگزینڈر پلیٹس پر ترک شوارما کی دو تین دکانیں موجود ہیں، جہاں حلال کی پلیٹس بھی آویزاں ہیں، ہم نے انہیں گوگل کی مدد سے حلال فوڈ نئیر می کے ذریعے ہی ڈھونڈا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم ٹی وی ٹاور کے پہلو سے گزرتے ہوئے برلن ڈوم کی طرف چل پڑے۔ ٹی وی ٹاور کی پچھلی طرف ایک پارک نما جگہ ہے جہاں پر فوارے چل رہے تھے اور یورپ کی شدید گرمی کے موسم میں بچے اور بڑے پانی کے اس فوارے کو خوب انجوائے کر رہے تھے۔

یہاں آج کا درجہ حرارت 30 سے اوپر تھا، یعنی خوب گرم دن تھا، دھوپ کی تمازت میں چلنا مشکل ہو رہا تھا لیکن شہر کو دیکھنے کی آرزو میں اس تپش کو تو برداشت کرنا ہی تھا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہم برلن کے اس مشہور چرچ جسے برلن ڈوم بھی کہا جاتا ہے کے پاس چلے آئے۔ یہ چرچ پہلی بار 15ویں صدی میں بنایا گیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوتے اس کی 2002ء میں آخری بار مرمت ہوئی۔ اس طرز کے ڈوم یورپ کے اکثر شہروں کی شان دکھائی دیتے ہیں جو دور سے ہی دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔ چرچ دریائے سپری کے کنارے واقع ہے جو دیکھنے میں ایک نہر جیسا ہی دکھائی دیتا ہے، اور یہاں کشتی رانی اور بوٹ ٹؤرز کے ذریعے شہر کی سیر کروانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

اس چرچ سے ہم چلتے ہوئے برلن کے سب سے مشہور آئکن براڈنبرگر گیٹ کی طرف بڑھے، کچھ ہی فاصلے پر درختوں کے نیچے پڑے ایک بنچ پر بیٹھ کر سستایا گیا۔ یہیں چند میٹرز کے فاصلے پر جنگ عظیم دوم کے سانحات کی ایک یادگار بنائی گئی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں آدمی کے دل پر بہت اثر چھوڑتی ہیں، ان میں سے ایک یہ یادگار بھی ہے۔ ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں 2 مجسمے جنگ کی ہیبت، بربادی اور اثرات کی ایسی تصویر کشی کر رہے ہیں کہ دل کانپ کر رہ جاتا ہے۔ چھت پر سے ایک بیضوی شگاف سے روشنی کسی اسٹیج پر ہائی لائٹ کیے جانے والے منظر کی طرح سے پڑتی ہے اور ماحول کو مزید اداس کرتی چلی جاتی ہے۔ درد اگر کوئی لفظ نہ ہوتا تو شاید یہ مجسمہ ہوتا۔

ایسے ہی براڈنبرگر گیٹ سے 200 میٹر آگے جرمن پارلیمنٹ کی طرف جائیں تو یورپ کے جپسی لوگوں کے قتل عام کی ایک یادگار ہے۔ یہ یادگار ایک کھلا ہوا گول سا پانی کا تالاب ہے، جس کے کونوں پر فرش پر مرنے والوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس چار دیواری میں ایک دائرہ سا پانی کھلے آسمان کے نیچے ایک آئینہ کی طرح چمکتا ہے۔ باہر کی دیوار پر مرنے والوں کے بارے میں مزید لکھا ہوا ہے۔

یہیں پر وہ جگہ بھی موجود ہے جسے یورپ میں یہودی قتل عام کی یادگار کہا جاتا ہے۔ 19 ہزار مربع میٹر میں بنے 2711 کنکریٹ کے ستون ایک ایسی کہانی کہتے ہیں کہ دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔ میں فنونِ لطیفہ سے نا آشنا سا شخص ہوں، جسے یادگاریں، مجسمے، میوزیم مزہ نہیں دیتے لیکن فنکار کا فن سر چڑھ کر بولے تو تسلیم کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ یادگار بھی اسی گیٹ سے کچھ 100 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

دیکھنے میں کنکریٹ کے یہ چند سو ستون کچھ بھی نہیں، لیکن اس نمائشی قبرستان کے ستون کے اندر جا کر فنکار کا پیغام نوشتہءِ دیوار نظر آتا ہے۔ دور سے کنکریٹ کے یہ ستون بس اپنی جسامت میں مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن جوں جوں آپ ان کے اندر چلے جاتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ پتھروں کی مدد سے لہریں بنائی گئی ہیں، جس میں یہ ستون انسانی جسموں کی مانند ہیں، کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے اور کچھ ہمارے قد سے بھی بہت بڑے، اور کہیں اتنے بڑے کہ آپ خود اس سمندر میں غرق ہو جائیں۔

پیشتر اس کے کہ میں برلن کے در و دیوار کے فن پاروں میں کھو جاتا، میں برلن کے مشہور براڈنبرگر گیٹ کے آس پاس پھر چلا آتا ہوں۔ اسی گیٹ کے پاس ہی فوکس ویگن نامی مشہور کار کمپنی کا ایک شوروم دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں پر مستقبل کی ٹچ کنٹرول گاڑیاں ڈیمو کے لیے رکھی گئی تھیں۔ یہاں پر آگمینٹڈ رئیلٹی کے ذریعے اس گاڑی میں سفر کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، کہ آپ اس گاڑی میں بیٹھ کر کیسا محسوس کریں گے اور یہ کس طرح سے چلے گی۔

اس شوروم سے نکل کر برلن کی اکثر تصاویر میں نظر آنے والے اس گیٹ پر پہنچے تو لگتا تھا کہ ایک جہان اس گیٹ کو دیکھنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ اس کے سامنے کا سارا حصہ سیاحوں سے بھرا پڑا تھا، اسکولوں کے ٹرپ، ٹؤر کمپنیوں کے نمائندے، سیلفیاں بنانے والوں کے گروہ، ایک میلے کا سا سماں تھا۔ یہاں سے نکل کر ہم جرمنی کی پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف چلے آئے، اس عمارت کے اوپر شیشے کا ایک گنبد بنایا گیا ہے جہاں سے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں پر سیاحوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں، دو دن کے اس ٹور میں اس جیسی ایک ہی جگہ کی لائن میں لگا جا سکتا ہے، اس لیے اس عمارت کو دور سے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔

اب ہماری اگلی منزل برلن کی مشہور دیوار تھی، جسے دیکھے بغیر میرے خیال میں برلن کا سفر ادھورا تھا۔ یہ دیوار سینٹر کے علاقے سے کچھ فاصلے پر تھی، اس لیے پھر سے پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لیا گیا۔ بھلا ہو گوگل کا، آپ کو اگر انٹرنیٹ دستیاب ہے تو کسی سے پوچھے بغیر سب راستے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہم کوئی 25 منٹ میں دیوارِ برلن کے پاس چلے آئے۔ یہاں پر دیوارِ برلن کی تاریخ کے متعلق ایک آبزرویشن سینٹر بھی بنایا گیا ہے، جس کا داخلہ مفت ہے۔ یہاں جا کر آپ اس دیوار کی پرانی تصاویر، ویڈیوز اور اس سے متعلق دیگر مواد حاصل کرسکتے ہیں، اس کی چھت پر جا کر دیوار کو اوپر سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اسی سینٹر میں دیوار توڑنے کے جذباتی مناظر اور اس پوری جدوجہد پر بنی ہوئی ایک چھوٹی دستاویزی فلم بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد اس دیوار کی باقیات کو قریب سے دیکھ کر اور بھی اچھا لگا، اب یہاں وہ دیوار تو نہیں بس دیوار کا ایک نشان باقی ہے۔ اس دیوار کے ساتھ جدوجہد کرنے والوں کی تصاویر اور یادگاریں بھی موجود ہیں۔ یہاں پر آکر نجانے کیوں ذہن پر کوئی تصویر نہیں بنی، دیوار کی باقیات نے بھی کچھ متاثر نہیں کیا۔ شاید دل میں یہ بات تھی کہ دیواریں گر جانے کے لیے ہی ہوا کرتی ہیں۔ ان کی یادگاریں اور نشان ہمیں باور کرواتے ہیں کہ انسانی کنکشن کی اہمیت فاصلوں سے بہت زیادہ ہے۔ جبر کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے، ثابت قدم رہنے والوں کی کہانیاں لوگ فخر سے یاد کرتے ہیں اور آنے والوں کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔

یورپ کے باقی شہروں کی طرح یہاں پر بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک فعال نظام موجود ہے۔ صفائی ستھرائی اور ہریالی کا اہتمام دکھائی دیتا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے شہر میں ہر وہ سہولت دکھائی دیتی ہے جو ہونی چاہیے۔ مصروف شہر میں دو دن میں بھلا کیا کیا دیکھا جا سکتا ہے اور کیا کیا چھوڑا جا سکتا ہے۔ دیوارِ برلن کے ایک حصے پر بنی ہوئی تصاویر دیکھنے کی ابھی حسرت تھی کہ تھکاوٹ نے آ لیا، پھر سے حلال کھانے کی تلاش شروع کی اور اس شہر کی سیر کے لیے جو وقت رکھا تھا وہ سارا ہی خرچ کر بیٹھے۔ پھر آئیں گے برلن تمہیں دیکھنے۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔