نقطہ نظر

معاشرے میں ذہنی صحت کے بڑھتے مسائل اور ان کا حل

‘میرے پاس آنے والے ایسے مریضوں کی کمی نہیں جنہیں کوئی جسمانی بیماری نہیں ہوتی مگر پھر بھی درد کی دوا لکھنے کو کہتےہیں‘

50 سالہ سلیم احمد* اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، وہ پیشے کے لحاظ سے کار ڈیلر تھے۔ زندگی اور کاروبار کا پہیہ اچھی طرح چل رہا تھا لیکن اچانک انہوں نے اپنے شوروم پر جانا ہی چھوڑ دیا۔ مزاج میں چڑچڑاپن اتر آیا اور کام سے بے رغبتی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔

ان کی اہلیہ نے بتایا کہ، ’گھر میں لڑائی جھگڑے تھے۔ ساس مجھ سے اور میں ساس سے الجھتی تھی، ان کے بھائی الگ پریشان کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں تبدیلی آتی گئی‘۔ مگر ان کی پریشانی اس وقت بڑھ گئی جب ان کے شوہر نے بات بے بات پر رونا شروع کردیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ، ’ایک دن میری ساس یعنی ان کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں تو یہ الماری کے پیچھے چھپ گئے‘۔

بیگم سلیم احمد کو تشویش اس دن ہوئی جب ایک گھریلو جھگڑے کے بعد وہ چھری نکال لائے اور کلائی کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

’اس وقت میں نے فیصلہ کیا، گاڑی نکالی اور ان کو لے کر ایک نجی ہسپتال پہنچ گئی۔ میں نے ان کو ایک ماہرِ نفسیات کو دکھایا جنہوں نے مجھے بتایا کہ میرے شوہر شدید ڈپریشن کا شکار ہیں اور ان کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے‘۔


معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر اقبال آفریدی کے مطابق پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن اور اینگزائٹی یا گھبراہٹ کا شکار ہے جبکہ کچھ ماہرین یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ پاکستان کا ہر دوسرا فرد یا تقریباً 50 فیصد آبادی ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔

مگر کیا پاکستان میں نفسیاتی عوارض صرف ڈپریشن اور گھبراہٹ تک ہی محدود ہیں؟

24 سالہ عمران* نے انجینئرنگ میں بیچلرز کرنے کے بعد ماسٹرز میں داخلہ لیا ہی تھا کہ ایک دن وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلام آباد سے اپنے ماموں کے پاس کراچی پہنچ گیا۔

’وہاں جادوگر ہیں جو میرے دشمن ہیں۔ انہوں نے انٹیلیجنس کے لوگوں کو میرے پیچھے لگادیا ہے۔ یہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں‘، عمران نے اپنے ماموں کو بتایا جو ان کو ایک ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئے۔

ماہرِ نفسیات نے ان کو بتایا کہ ان کا بانجھا پیرانوائیڈ شیزوفرینیا (Paranoid schizophrenia) کا شکار ہے، یہ ایسا مرض ہے جو دواؤں سے کنٹرول ہوسکتا ہے۔

فوٹو: شٹراسٹاک

پروفیسر آفریدی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً ڈھائی سے 3 فیصد آبادی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہے جو بڑی حد تک قابلِ علاج مرض ہے۔

پروفیسر آفریدی کہتے ہیں شیزوفرینیا کی علامات میں ڈلیوژنز (Delusions) اور ہیلو سینیشنز (Hellucinations) شامل ہیں۔

ڈلیوژنز ان خیالات کو کہتے ہیں جن پر مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہوجانے کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔

پڑھیے: 'گھبراہٹ' کی وجوہات، علامات اور علاج

مریض کو اپنے خیال پر 100 فیصد یقین ہوتا ہے لیکن تمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔

ڈلیوژن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کے دشمن ہوگئے ہیں، انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

اسی طرح سے اگر کسی شخص کو کسی شے یا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو پھر بھی آوازیں سنائی دینے لگیں تو اس عمل کو ہیلو سینیشنز کہتے ہیں۔ شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلو سینیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے لگتا ہے جیسے انہیں کوئی چھو رہا ہے۔

فوٹو: شٹراسٹاک

آفریدی صاحب کا دعوٰی ہے کہ پاکستان کے 90 فیصد افراد پوزیٹو مینٹل ہیلتھ سے محروم ہیں، جس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی نفسیاتی مرض جیسا کہ ڈپریشن، گھبراہٹ، بائی پولر ڈس آڈر، شیزوفرینیا کا شکار ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں۔

’پوزیٹو مینٹل ہیلتھ کا مطلب ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہو، روزمرہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو، دوسروں کے لیے مثبت سوچ رکھتا ہو اور معاشرے کی بہتری کے لیے فعال کردار ادا کرتا ہو‘۔

پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے

آفریدی صاحب مزید کہتے ہیں کہ منشیات کا استعمال بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی شرح تقریباً ڈھائی سے 3 فیصد ہے جبکہ اتنے فیصد لوگ ہی ذہنی پسماندگی یا مینٹل رٹارڈیشن (mental retardation) کا شکار ہیں۔ شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آڈر میں مبتلا افراد کی تعداد ایک ایک فیصد ہے۔

حیران کن طور پر پاکستان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ’سومیٹو فارم ڈس آڈرز‘ (somatoform disorders) کا شکار ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لگتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر بیمار ہیں، کسی کو معدے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے، کوئی سردرد کا شکار ہوتا ہے اور کوئی عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کا دعوٰی کرتا ہے جبکہ حقیقتاً یہ تمام لوگ جسمانی نہیں بلکہ ذہنی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

ماہرِ امراض معدہ ڈاکٹر شاہد احمد کے مطابق ان کے پاس آنے والے ایسے مریضوں کی کمی نہیں جنہیں کوئی جسمانی بیماری نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود بھی وہ درد کی دوا لکھوانے پر اصرار کرتے ہیں۔

’ایسی ہی ایک مریضہ کو میں نے ایک ماہرِ نفسیات کے مشورے سے سکون آور ادویات دیں تو وہ ٹھیک ہوگئیں مگر بعد میں جب انہیں اندازہ ہوا تو وہ مجھ پر کافی بگڑیں‘۔

آفریدی صاحب کے بقول ضرورت سے کم کھانا اور بسیار خوری بھی نفسیاتی مسائل ہیں جبکہ بچوں میں ’اٹینشن ڈیفیسٹ ہاپئر ایکٹیویٹی ڈس آڈر‘ یا ADHD بہت عام نفسیاتی مرض ہے جس میں بچے ضرورت سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور کسی کام پر زیادہ دیر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔

بہترین ذہنی صحت کے لیے انفرادی طور پر ہمیں اپنی سوچ، رویے اور جذبات کو ٹھیک رکھنا ہوگا، اچھا طرزِ زندگی اپنانا ہوگا یعنی وقت پر سونا اور جاگنا، روزانہ ورزش، منشیات سے اجتناب اور عبادتوں کی پابندی۔

اجتماعی طور پر باہمی تعلقات اور رویوں کو ٹھیک کرنے سے ذہنی صحت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

پڑھیے: میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی

پروفیسر آفریدی بتاتے ہیں کہ ’لوگ نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے اب ماہرین سے رجوع کر رہے ہیں مگر ابھی بھی ناخواندہ افراد میں ماہرین سے رجوع کرنے کی شرح کم ہے، تاہم صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے‘۔

افسوس اس بات کا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں کو حکومت توجہ نہیں دیتی اور ان بیماریوں کے علاج پر صحت کے بجٹ کا صرف اعشاریہ 4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔

پروفیسر اقبال آفریدی کہتے ہیں کہ، ’نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے صحت کے بجٹ کا کم از کم 25 فیصد مختص کیا جانا چاہیے کیونکہ نفسیاتی مسائل سے متاثرہ افراد کی تعداد دیگر مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ نفسیاتی علاج کینسر، ہیپاٹائٹس، ذیابطیس اور دیگر بیماریوں کے مقابلے میں سستا ہے اور زیادہ تر نفسیاتی بیماریاں 9 مہینوں میں دواؤں سے ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ وہ کسی مرض کا شکار ہیں۔ یہ ذمہ داری ان کے اہل خانہ اور دوست و احباب کی ہے۔ جب ان کے رویوں یا مزاج میں کوئی غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کریں تو انہیں فوراً کسی ماہرِ نفسیات کے پاس لے جائیں۔ آج تقریباً ہر بڑے ہسپتال میں ذہنی و نفیساتی صحت کا شعبہ قائم ہے۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے امراض کو باقاعدہ تسلیم کرے، ان کی شناخت کرے بلکہ یہ بھی تسلیم کرے کہ لوگ ذہنی امراض کا شکار ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ جب ان بیماریوں کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ان امراض کے علاج کی زیادہ سے زیادہ سہولیات کا بندوبست کرے۔

بڑے ہسپتالوں میں شعبہ ذہنی و نفیساتی صحت تو قائم ہیں لیکن نجی ہسپتالوں، بالخصوص نئے بننے والے ہسپتالوں میں ایسے شعبوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

معاشرے کی بھی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لے، محض لوگوں کو پاگل یا نفیساتی کہہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ تو مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

نفسیاتی مسائل ایک اٹل حقیقت ہے، جب سے انسان وجود میں آیا ہے تب سے لوگوں کے رویوں اور مزاج میں عجیب و غریب تبدیلیاں اور لوگوں سے تعلقات میں خرابیاں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔ انسان انہی عجیب و غریب رویوں کی وجہ سے آپس میں جھگڑے کرتے رہے ہیں بلکہ جنگیں بھی لڑی ہیں۔

معاشرے کو رویہ تبدیل کرنا ہوگا، لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد کی آگے بڑھ کر مدد کرنی ہوگی تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آسکے۔


*شناخت مخفی رکھنے کے لیے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔

ابو عبداللہ بھٹی

ابو عبداللہ بھٹی گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں جبکہ تقریباً 10 برسوں سے انگریزی اخبار کے لیے صحت سے متعلق رپورٹنگ کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔