صحت

موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت کے لیے کتنی نقصان دہ؟

موسموں کے بدلتے مزاج کی وجہ سے ذہنی امراض، ذیابیطس سمیت دیگر بیماریوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

دنیا کی سلامتی کو پیشِ نظر مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی ایک اہم خطرہ ہے جس کا حل ضروری ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی پینل کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کو مختلف طریقوں سے متاثر کرسکتی ہے جو کچھ یوں ہیں :

حشرات کی پیداوار میں اضافہ

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت اور فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ مچھروں اور دیگر حشرات کی افزائش نسل کے لیے بہتر ماحول فراہم کرتا ہے، اس وجہ سے ان کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں نہ صرف حشرات کی تقسیم کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان میں موجود وائرس کی تعداد بیماریوں کے خطرات میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

آلودہ پانی سے انفیکشن

—فائل فوٹو ڈان نیوز

درجہ حرارت اور بارشوں میں اضافہ خصوصاً گرمیوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے ذریعے دیگر انفیکشن کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

علاوہ ازیں اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت سیلاب اور طوفانوں سے مزید تباہی لائے گا۔

ذہنی امراض میں اضافہ

—شٹر اسٹاک فوٹو

ماحولیاتی تبدیلی حیران کن طور پر ذہنی صحت سے وابستہ مسائل میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے،

ایک تحقیق کے مطابق پانچ برس میں درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری اضافے سے ذہنی امراض میں 2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

تحقیق میں کہا گیا تھا کہ درجہ حرارت اسی تناسب سے بڑھتا رہا تو 20 لاکھ افراد میں ذہنی پریشانیوں کا اضافہ ہوگا۔

نیچر کلائمیٹ چینج کی تحقیق کے مطابق فی مہینہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ خود کشی کی شرح میں 0.68 فیصد اضافے کی وجہ یے، ایک اندازے کے مطابق 2050 تک درجہ حرارت میں اضافہ 14 ہزار افراد کی خود کشی کی وجہ ہوگا۔

ٹائپ 2 ذیابیطس

—کریٹیو کامنز فوٹو

کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ٹائپ 2 ذیابیطس میں اضافے کا باعث بنتا ہے ، محققین کے مطابق امریکا میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے ذیابیطس کی شرح میں 4 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

سانس کی بیماریوں میں اضافہ

—اے ایف پی فائل فوٹو

اکثر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے جو ہوا کے ذریعے پھیپڑوں میں داخل ہوکر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔

علاوہ ازیں فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ، پھیپڑوں اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔