کاروبار

اسلامی سرمایہ کاری میں کرپٹو کرنسی کی حیثیت؟

کرپٹو کرنسی تسلیم شدہ رقم نہیں لیکن اس کا استعمال کرنے والے اسے مستقبل میں اصل رقم سے تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

تسلیم شدہ رقم کے برعکس جہاں کرپٹو کرنسی کو صرف کچھ مخصوص کمیونٹی یا نیٹ ورک کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسلامی سرمایہ کاری میں اس کی حیثیت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ڈان اخبار کے بزنس اینڈ فنانس کی رپورٹ کے مطابق جو کمیونٹی یا نیٹ ورک اس کرپٹو کرنسی کو تسلیم کرتے ہیں وہ اسے ایک مالیات یا تبادلے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

اسی طرح کسی بھی کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت مخصوص نیٹ ورک کے شرکاء کے درمیان اتفاق رائے پر مبنی ہے اور کوئی بھی خودمختار ملک یا حکومت کی جانب سے اس بات کی ضمانت نہیں لیتا کہ اس کی قدر مستحکم اور فرضی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا کرپٹو کرنسی کے استعمال پر سخت اقدامات اٹھانے کا انتباہ

اگر کوئی کرپٹو کرنسی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے دو طریقے ہیں، پہلا یہ کہ اسے کرپٹو کرنسی ایکسچینج سے خریدا جائے یا پھر اسے خود بنایا جائے۔

بٹ کوائن، بٹ کوائن کیش، رپل، اتھیریم، زی کیش، لائٹ کوائن، مونیرو اور ڈیش زیادہ مشہور اور وسیع طور پر استعمال ہونے والی کرپٹو کرنسیز ہیں۔

تاہم کسی بھی کرپٹو کرنسی کو تسلیم شدہ رقم قرار نہیں دیا گیا لیکن کرپٹوکرنسیز کے حامیوں کا یہ ماننا ہے کہ مستقبل میں یہ اصل کرنسی کو تبدیل کردے گی۔

دوسری جانب غیر مسلم اسکالرز یہ بحث کرتے ہیں کہ کرپٹو کرنسیز اسلامی مالیاتی ضروریات کے مطابق ہٰں اور یہ اسلامی سرمایہ کاری کے لیے فائندے مند ہوسکتے ہیں۔

تاہم اسلامی قوانین کی طرف سے متنوع نقطہ نظر کے باعث کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کے بارے میں مسلم اسکالرز کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں اور بہت سے مسلمان اسے غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

ترکی میں مذہبی امور کے ڈائریکٹریٹ کی جانب سے ورچوئل کرنسیز کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کی قیمت فرضی ہوتی ہے اور یہ غیر قانونی سرگرمیوں جیسے منی لانڈرنگ میں استعمال ہوسکتی ہے اور یہ ریاست کے آڈٹ اور نگرانی میں نہیں آتی۔

مصر میں بڑے علماء نے کرپٹوکرنسیز پر پابندی لگا چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی جوئے کی طرح ہے اور یہ منی لانڈرنگ اور ممنوعہ سرگرمیوں کے لیے سہولت فراہم کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرپٹو کرنسی ریاست کو کمزور کرنے کا بھی سبب ہے کیونکہ ’کرنسی جاری کرنے‘ کا ’واحد حق‘ صرف مانیٹری اداروں کو ہے جو ریاست کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔

سعودی عرب میں معلوم عالم دین عاصم الحکیم نے کرپٹو کرنسی کو اسلام میں حرام قرار دیا کیونکہ یہ مبہم ہیں اور منی لانڈرنگ اور دیگر سرگرمیوں کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

اسی طرح کرپٹو کرنسی کے خلاف دیگر اعتراضات میں پہلا اس کا مبہم ہونا، فرضی ہونا، جرائم کی مختلف سرگرمیوں میں معاونت کرنا اور ریاست کی جانب سے اس کا جاری نہ کرنا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سینٹرل بینک نے اپنے شہریوں کو کرپٹوکرنسی سے متعلق خطرات سے خبردار کیا تھا، تاہم انہوں نے اس پر پابندی نہیں لگائی تھی۔

تاہم جنوبی افریقہ میں اسلامک اسکالرز نے کرپٹوکرنسی کے حق میں حکم دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ سماجی طور پر قابل قبول ہے اور عام طور پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا بِٹ کوائن اور کرپٹو کرنسیاں پیسے کا مستقبل ہیں؟

اسی طرح انڈونیشیا میں ایک اسلامی اسکالر محمد ابو بکر نے بٹ کوائن کو اسلام میں جائز قرار دیا ہے۔

ان کا موقف ہے کہ جرمنی نے بٹ کوائن کو قانونی کرنسی کے طور پر تسلیم کیا ہے، لہٰذا یہ جرمنی میں’اسلامی رقم‘ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی طرح مختلف افراد اور مرچنٹس نے اپنی ٹرانزیکشن میں بٹ کوائن کو بطور ٹرانزیکشن تسلیم کیا ہے جبکہ اسے اسلامی روایتی رقم کے طور پر شمار کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح برطانیہ میں رمضان مسجد کے اسلامک اسکالر کے مطابق مسلمان بٹ کوائن اور ایتھیوریم کے ذریعے زکوۃ کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔