اسد عمر صاحب، کچھ تو بتا دیں!
میں نے ایک طویل عرصے میں اتنے عجیب و غریب آئی ایم ایف مذاکرات نہیں دیکھے۔ مجھے نہیں یاد کہ آخری مرتبہ کب کسی وزیرِ خزانہ نے مذاکرات کے دوران ہی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے حل ہوجانے کا اعلان کیا ہو۔
یہ بھی یاد نہیں آرہا کہ آخری مرتبہ کب ایسا ہوا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ایسے وقت میں شروع ہوئے ہوں جب ایک 'دوست ملک' (اس معاملے میں چین) سے ایک بڑے بیل آؤٹ پیکج کی خبر کا انتظار تھا۔ یقیناً اس خبر کا آئی ایم ایف سے مانگے گئے پیکج کے سائز پر بھی فرق پڑنا تھا اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے ڈیزائن میں مرکزی حیثیت رکھنے والی برآمدات سے ملک میں زرِمبادلہ کی آمد کے اندازوں اور نتیجتاً ذخائر کے سہہ ماہی اہداف پر بھی۔
اس کی ایک ممکنہ توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ چینی 'بیل آؤٹ' کا سائز اور اس کی نوعیت حکومت کو معلوم ہے اور پہلے ہی فنڈ کو بتا دی گئی ہے مگر عوام کے سامنے نہیں لائی جا رہی۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بہت ہی عجیب صورتحال ہے کیونکہ چین سے واپسی کے بعد سے حکومت اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب محسوس ہو رہی ہے۔
وزارت سنبھالنے کے بعد وزیرِ خزانہ نے کہا تھا کہ انہیں ادائیگیوں میں توازن کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ یہ سال گزارا جا سکے۔ مسئلہ اگلے سال سے شروع ہوگا جب یہی اندازے دکھاتے ہیں کہ بیرونی مالی امداد کی ضرورت بڑھ کر 33.8 ارب ڈالر ہوجائے گی جبکہ اسی دوران برآمدات میں سُستی اور بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی واقع ہونے کا بھی امکان ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کو سہارا دینے کے لیے چین اور سعودی عرب کا مشترکہ سہارا یعنی چین کو برآمدات اور سعودی عرب سے تیل کی سہولت اہم ہوگا مگر یہ اہم اصلاحات کا متبادل نہیں ہوسکتا۔
ایک اور اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ کہ درمیانی مدت میں بیرونی مالیاتی ضروریات کے اندازوں پر مذاکرات کے تازہ ترین راؤنڈ کے بعد نظرِ ثانی کر کے انہیں بڑھانا پڑے۔ ہم جولائی 2017ء کی آرٹیکل فور رپورٹ اور مارچ 2018ء کی بعد از پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ میں یہ ہوتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔
جولائی 2017ء میں شائع ہونے والی آرٹیکل فور رپورٹ میں مالی سال 2019ء کے لیے بیرونی مالیاتی ضروریات کا اندازہ 21 ارب ڈالر یا پھر ہماری برآمدات کا 297.1 فیصد تک لگایا گیا تھا جسے مارچ 2018ء میں بڑھا کر 27 ارب ڈالر یا پھر ہماری برآمدات کے 310.6 فیصد پر رکھا گیا ہے۔
اگر ہم دیکھیں کہ ان دونوں رپورٹس کے درمیان صرف 8 ماہ کا فاصلہ ہے، تو یہ بہت ہی بڑا اضافہ ہے، اب یا تو ایسا ہوا کہ اس دوران حکومت کے سامنے نئی معلومات آئیں یا بڑے حجم کا مختصر مدتی قرضہ لیا گیا، یا پھر ان دونوں میں سے کسی ایک معاملے میں شدید غلطی کی گئی۔ اس اہم شماریے، یعنی کہ مجموعی بیرونی مالیاتی ضرورت کا تازہ ترین اندازہ وہ پہلی چیز ہے جسے پروگرام کی دستاویزات میں آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوتے ہی ڈھونڈنا چاہیے۔ ایسا ہونے کا امکان جنوری میں ہے۔
چلیں امید کرتے ہیں کہ یہ ہفتہ اس حوالے سے خوش آئند ثابت ہو۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com