نقطہ نظر

میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

ملک سنجیدہ اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے جس کے حل کے سلسلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں

میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

— اقبال

سال 2018ء کے شب و روز مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتے جا رہے ہیں اور اب زیادہ وقت نہیں رہا کہ 2018ء کا یہ سال وقت کے گہرے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے اور نئے سال 2019ء کا نیا سورج ایک نئی امید کے ساتھ طلوع ہو۔ اچھے اور بُرے دونوں وقت گزرجاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں تو صرف یادیں۔۔۔ اگر سمجھیں تو یہ اگلے پڑاؤ کے لیے زادِ راہ کی طرح سفر کو آسان بناتی ہیں۔

آئیے نئے سال 2019ء کے لیے بہت سی نیک خواہشات کے ساتھ ذرا پلٹ کر گزرے سال پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ کیا کچھ ہوتا رہا۔

اگر صرف ماحولیات کے حوالے سے ہی جائزہ لیا جائے تو صورتحال تسلی بخش نظر نہیں آتی۔ عالمی تحقیقاتی اداروں کے نتائج ایشیا اور خصوصاً پاکستان کے حوالے سے مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کی کمزور معیشت کو مزید لے ڈوبیں گی۔

وزیرِاعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستانی معیشت کو 3 ارب 80 کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور پاکستان اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔

ملک اس وقت سنجیدہ اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے جس کے حل کے سلسلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حکومت کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 6 سے 8 فیصد ان تباہ کاریوں سے نمٹنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔


صرف 12 سال!

اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ بھی اسی خطرے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس سال کی یہ اہم رپورٹ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) کے تحت جاری کی گئی ہے جس میں سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ کرہءِ ارض کو موسمیاتی تباہی سے بچانے کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اگلے 12 برسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو محدود نہ کیا گیا تو قدرتی آفات کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ زمین کے اوسط درجہ حرارت میں ایک درجہ سینٹی گریڈ کا اضافہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ اب اگر اس درجہ حرارت میں مزید 1.5 سینٹی گریڈ کا اضافہ روکنا ہے تو آج سے ہی جنگی بنیادوں پر فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ اس درجہ حرارت میں اضافے سے جنگلات کی آگ (حالیہ کیلی فورنیا کی آگ اسی کی ایک مثال ہے)، سیلاب اور طوفان جیسی آفات میں اضافے سے کروڑوں افراد متاثر ہوں گے۔

اوسط درجہ حرارت سے مراد 19ویں صدی کے بعد سے ہونے والے اوسط درجہ حرارت میں اضافے سے ہے۔ ناسا کے سائنسدان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ زمین کے درجہ حرارت میں 0.9 ڈگری اضافہ ہوچکا ہے جسے پورا ایک ڈگری ہی سمجھا جائے۔

رپورٹ کے اجرا کے موقعے پر سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ وہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کی جانب سے سرد مہری پر سخت پریشان ہیں جبکہ دنیا کو آلودہ کرنے والے یہی بڑے ممالک ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اب پوری دنیا کو اپنے اور اپنے بچوں کی بقا کے لیے کڑے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور اس کے لیے ہمارے پاس صرف 12 سال ہیں، اگر کچھ نہ کیا گیا تو نتائج بھیانک ہوں گے۔


10 ارب درخت!

اس سال کی ایک اہم پیش رفت یہ رہی کہ نئی حکومت نے ملک بھر میں اپنے 5 سالہ دورِ حکومت میں 10 ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں خصوصاً درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہ رہی ہے اور آنے والے 32 سالوں (2050ء) تک شہری آبادی 70 فیصد ہوجائے گی۔ یہ شہر 78 فیصد توانائی استعمال اور 60 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں جو بدلتے موسموں اور زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کا ایک اہم سبب ہے۔

شہروں کی اس دگرگوں صورتحال کے پیشِ نظر نئی حکومت کا شہروں میں شجر کاری کا اعلان بہت ہی اہم سمجھا جاسکتا ہے۔ حکومت کے پاس اس حوالے سے ’بلین ٹری سونامی‘ کا تجربہ موجود ہے۔

اس منصوبے کے تحت خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے گئے تھے جس کی کامیابی پر بہت سے بین الاقوامی اداروں مثلاً انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این)، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) اور سپارکو نے مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ پاکستان کے قومی خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کے مطابق لگائے گئے پودوں میں کامیابی سے نمو پانے کی شرح 88 فیصد ہے۔


فضائی آلودگی

رواں سال پاکستان میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھی گئی۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ناقص توانائی اور ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے ان گنجان آباد شہروں کی فضا آلودہ ہورہی ہے۔ فضائی آلودگی کی خطرناکی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہر سال اس آلودگی سے 20 ہزار افراد قبل از وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ 5 لاکھ افراد اس سے متعلقہ امراض سے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے شہروں کی فضا میں آلودگی کی وجہ بننے والے ذرات یا پارٹیکل میٹر (پی ایم) جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے شہروں سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فضائی آلودگی کی صورتحال تو اور بھی زیادہ خراب ہے۔

پنجاب میں سردیوں میں چھا جانے والی اسموگ بھی صحت اور معیشت کے لیے خطرناک ہے، اس پر قابو پانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جارہے ہیں جن میں فضائی آلودگی ناپنے کے لیے اسٹیشن کا قیام اور اسموگ پر قابو پانے کے لیے پنجاب بھر میں 70 دنوں کے لیے اینٹوں کے بھٹے کی بندش جیسے اقدامات شامل ہیں۔


خشک سالی کا تیسرا الرٹ جاری

رواں سال بلوچستان اور سندھ میں تھرپارکر کے متعدد علاقے شدید خشک سالی کے باعث خبروں کی سرخی بنے رہے۔ ملک میں چونکہ اس سال بارشیں کم رہیں اس لیے حکومت نے اس سال کے آخر میں تیسرا خشک سالی الرٹ جاری کیا ہے۔

رواں سال صوبہ سندھ میں معمول سے 71 فیصد اور بلوچستان میں 44 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ ڈیموں میں پانی کی سطح پچھلے 9 برسوں کی کم ترین شرح پر آگئی۔

پانی کی کمی سے زراعت اور لائیو اسٹاک شدید متاثر ہوا ہے۔ تھر پارکر کی صورتحال کافی بدتر ہے جہاں آئے دن ماؤں میں غذا کی کمی کے باعث نوزائیدہ بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی شرح ملک بھر سے زیادہ ہے۔


انڈس ڈیلٹا کی ایک گھاٹی محفوظ علاقہ قرار

ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں ایک بڑا واقعہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے انڈس ڈیلٹا کی ایک گھاٹی کو محفوظ سمندری علاقہ (Marine Protected Area) قرار دیا گیا ہے۔ یہ گھاٹی خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں واقع ہے اور اس کا رقبہ 27 ہزار 607 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔

سمندر کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ہمیں 2020ء تک سمندری علاقے کے کم از کم 10 فیصد حصے کو محفوظ قرار دینا ہے تاکہ وہاں قدرتی طور پر موجود حیاتیات پھل پھول سکے۔ اس سے قبل بلوچستان میں موجود اسٹولا جزیرے کو محفوظ سمندری علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی یہ گھاٹی بھی متنوع حیاتیات سے مالا مال ہے۔ یہاں شارک، وہیل اور ڈولفن سمیت بہت سی سمندری حیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سے ہمارے سمندر میں حیاتیاتی نشوونما ہوسکے گی۔


گلیشائی جھیلوں کے سیلاب سے بچاؤ

گلیشائی جھیلوں کے پھٹنے سے علاقے اور آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے منصوبے کا پہلا 5 سالہ دور 2015ء میں کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے، جس کے بعد اس منصوبے کے دوسرے حصے کا اس سال آغاز کیا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ماحول کے تحفظ اور خطرات میں گھری آبادیوں کو بچانے کے لیے مختص فنڈ ’گرین کلائمیٹ فنڈ‘ سے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے 3 کروڑ 60 لاکھ امریکی ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔

یہ منصوبہ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے 15 اضلاع کی 2 کروڑ 90 لاکھ آبادی کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ پاکستان اور خصوصاً شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز پگھلتے ہیں اور ان میں جھیلیں بننے لگتی ہیں جو پانی کی زیادتی سے پھٹ جاتی ہیں اور ان کا پانی انتہائی تیزی سے سیلاب کی صورت نشیبی آبادیوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے، جس سے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی سطح پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس منصوبے کا آغاز اس سال کے اواخر میں ہوگا۔


ماحولیاتی ہجرت

پاکستان میں بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کے پاس نقل مکانی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ شہر پہلے ہی گنجان آباد ہیں اور یوں مزید لوگوں کی آمد صورت حال کو بدترین بنا دیتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلی دہائی سے اندرون ملک نقل مکانی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے خصوصاً سمندری پانی کی آمد سے زرعی زمینوں کی تباہی اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی سے ساحلی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں خشک سالی سے نقل مکانی کا یہ عمل تیز ہورہا ہے۔ اگر حکومت نے ان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے خصوصی اقدامات نہیں کیے تو آئندہ مزید ابتری پیدا ہوسکتی ہے۔


60فیصد جنگلی حیات کا خاتمہ

رواں سال جاری جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ The Living Planet Report نے بھی ماحول کے لیے کام کرنے والوں کی فکر میں اضافہ کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق انسانوں کے عاقبت نااندیش اقدامات نے صرف 4 دہائیوں میں کرہءِ ارض سے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے سمندروں میں پائی جانے والی مونگے کی چٹانیں اور دنیا کے سب سے بڑے بارانی ایمیزون کے جنگلات کے 5ویں حصے کا صفایا کردیا ہے۔

اس نقصان کی وجوہات میں آبی و فضائی آلودگی، آب و ہوا کی تبدیلیاں اور جنگلی حیات کے مسکنوں کی بربادی ہے۔ صرف 1970ء سے 2014ء کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور امریکا میں 89 فیصد فقاریہ جانداروں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق انسان کرہءِ ارض پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کرچکا ہے، اس سے قبل کرہءِ ارض 5 عظیم معدومیاں دیکھ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق آخری معدومی ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیات ختم ہوگئی تھی۔


تیل کی آلودگی

کراچی کے ساحل مبارک ولیج سے سینڈزپٹ تک کے علاقے میں تیل پھیلنے کے واقعے کو بھی ہم اس سال کا ایک بڑا واقعہ شمار کرسکتے ہیں۔ یہ سمندری علاقہ حیاتاتی تنوع کے اعتبار سے خاصا زرخیز اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ تیل کی آلودگی سے کچھوؤں، ڈولفن، وہیل سمیت بہت سی آبی جانداروں کی حیات خطرے میں پڑگئی۔ تیل کے پھیلاؤ سے ماہی گیروں کا روزگار بھی سخت متاثر ہوا۔ تیل خاصے بڑے علاقے تک پھیل چکا تھا، بعدازاں پاکستان نیوی اور دیگر اداروں نے مل کر ساحل سے اس تیل کو صاف کیا۔ تاہم ابھی تک اس کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔