پاکستان

’بلوچستان بیرونی جارحیت اور اندرونی بدانتظامی کا نشانہ بنا رہا‘

حاضر سروس میجرل جنرل فدا حسین ملک نے ادب فیسٹیول میں بلوچستان اور اس کے مسائل پر اپنی کتاب پر تفصیلی گفتگو کی۔

مصنف جنرل فدا حسین ملک نے کہا ہے کہ بلوچستان بیرونی جارحیت اور اندرونی بدانتظامی کا نشانہ بنا رہا جس کی وجہ سے عام اور محسوس کیے جانے والے مسائل ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔

یہ باتیں بلوچستان: آ کنفلکٹ آف نیریٹیو (Balochistan: A Conflict of narrative) کے مصنف اور حاضر سروس میجر جنرل نے ہفتے کو ادب فیسٹیول کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا لیکن ابھی تک سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے۔ اس کی اپنی اسٹریٹیجک اہمیت ہے اور یہ سندھ، فارسی اور وسط ایشیائی تہذیبوں سے منسلک ہے جبکہ معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔

جنرل فدا حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود یہ سب سے کم ترقی یافتہ ہے۔ یہ بیرونی جارحیت اور اندرونی بدانتظامی و نااہلی کا شکار رہا۔ اپنی اسٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے اسے عالمی توجہ ملی جس کے نتیجے میں دشمن ملکوں نے اپنی خفیہ سرگرمیوں سے اسے ہائبرڈ جنگ کا نشانہ بنایا۔ اندرونی طور پر پالیسیوں میں نظرانداز کیے جانے اور ذاتی مفادات کے سبب اس کی ترقی متاثر ہوئی۔ بلوچ معاشرے کو اب بھی بنیادی سہولیات، سیکیورٹی مسائل، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں اور غیرملکی شدت پسندوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام نفسیاتی طور پر صدمے کا شکار ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ترقی کے سلسلے میں پاکستان تبدیلی لا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے وژن 2025 کا اولین ایجنڈا ہے جہاں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی خوشحالی کے راستے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور یہ سب گوادر پورٹ کے بغیر ممکن نہ تھا۔

مصنف نے کہا کہ بلوچستان کی آواز کے طور پر کتاب لکھتے ہوئے میں جانتا تھا کہ مجھے غیرجانبدار اور جذباتیت کو ایک طرف رکھنا ہو گا تاکہ یہ جان سکوں کہ صوبے اور فیڈریشن کے درمیان کیا ہو رہا ہے۔ میں نے جغرافیے کے بجائے لوگوں کے احساسات کے بارے میں زیادہ بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے کتاب میں صوبے کے بارے میں فیڈریشن کے موقف، قوم پرستوں کے خیالات، شدت پسند گروپوں اور قبائلی سربراہان کے موقف کا ذکر کیا۔ میں غیرجانبدار رہنا چاہتا تھا تاکہ ریاست کو یہ بتا سکوں کہ مسئلہ موجود ہے اور اب یہ ایک موذی مرض بن چکا ہے۔

کتاب کی تشکیل میں معاونت کرنے والے صوبے کے کئی لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد مصنف نے فوج کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے انہیں اس موضوع پر کتاب لکھنے کی اجازت دی جسے عام طور پر ایک محفوظ خفیہ راز تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قارئین اس کتاب میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے حوالے سے متعدد لوگوں کے اعتراف جرم کی داستاں پڑھیں گے اور مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہی کی گئی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے کے باعث میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ بالآخر ملک نے اس بات کی اہمیت کا احساس کیا کہ جب تک مسائل پر گفتگو اور انہیں تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم مسائل کے حل کی جانب قدم نہیں بڑھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزرے سالوں کے درمیان ریاست اور صوبے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام اور پنجاب کے عوام کے درمیان جیسے موضوعات پر بات ہوتی رہی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔ لہٰذا سوچ یہ ہے کہ جب بھی کچھ غلط ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے پنجاب کے عوام کی وجہ سے بلوچستان کے عوام مشکلات اٹھاتے ہیں جو ایک درست سوچ نہیں۔

سیشن کے دوران طارق کھوسہ نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ 1970 کی دہائی کے بعد سے اب تک وہ صوبے کے واحد بلوچ آئی جی پولیس ہیں۔ حاضر سروس میجر جنرل کی جانب سے لکھی گئی کتاب مسلح افواج کے اندر کھلی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے جس نے اپنے فوجی افسر کو کتاب لکھنے کی اجازت دی، یہ ایک خوشگوار تجربہ ہے۔

طارق کھوسہ نے کہا کہ اس کتاب میں بہت وسیع تاریخ ہے اور بلوچستان کے حوالے سے اس کا نقطہ نظر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل نے کہا کہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کو دہشت گرد یا باغی جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔ شاید ہمارے اپنے ہی لوگ بھٹک گئے ہوں لیکن انہیں براہ راست دہشت گرد قرار نہیں دینا چاہیے۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے۔ آپ کو صورتحال کو دوسرے نظریے سے دیکھتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان، پاکستان کا مستقبل ہے۔ اس طرح کی ذیلی قوم کا ہمارے ساتھ ہونا ہماری طاقت کا باعث ہے اور ملک کو دیکھنا چاہیے کہ بلوچ قوم پرست کس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 3 فروری 2019 کو شائع ہوئی