پاکستان

پاک-بھارت کشیدگی: ’ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں‘

سعودی وزیر خارجہ, ولی عہد محمد بن سلمان کا اہم پیغام لے کر پاکستان تشریف لا رہے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
|

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے مداخلت کا فیصلہ کیا ہے‘۔

اس سے قبل ویتنام میں شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں، پاکستان اور بھارت نے کچھ اچھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

گزشتہ روز واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’امریکا نے بھارت اور پاکستان سے سرحد پار کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے اور استحکام کی جانب لوٹنے کا مطالبہ کیا ہے‘۔

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے بہترین خارجہ پالیسی اپنانے اور اس کشیدہ صورتحال میں بہترین سفارتکاری پر وزارت خارجہ کو مبارکباد پیش کی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، بھارت سے کچھ اچھی خبریں موصول ہوئی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، امریکا کی مداخلت، خطے میں امن و امان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ رات میری سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی اور انہوں نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر میں نے انہیں خوش آمدید کہا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج سعودی وزیر خارجہ، ولی عہد محمد بن سلمان کا اہم پیغام لے کر پاکستان تشریف لا رہے ہیں'۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم امن و امان کے داعی ہیں، ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی جانب سے خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں سیاسی مقاصد کے تحت ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اب تو بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر خود دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی حدود میں فضائی حملے سے انہیں لوک سبھا میں 22 نشستیں زیادہ ملیں گی'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جارحیت: ترکی نے پاکستان کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کردیا

بعد ازاں انہوں نے میڈیا سے علیحدہ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے امن کے لیے تمام حدودیں پھلانگ لی ہیں۔

وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ اگر بھارتی پائلٹ کی واپسی سے امن قائم ہوسکتا ہے تو اس ہم اس پر غور کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امن کے داعی تھے اور ہیں، بھارت دہشت گردی پر بات کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت خطے کے امن کو سیاست کی نذر کرنا چاہتا ہے جس پر تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پلوامہ واقعے پر جو ڈوزیئر (دستاویزات) بھیجا اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن اسے کھلے دل سے دیکھنے اور جانچنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو اس سے صرف پاکستان نہیں بھارت بھی متاثرہوگا، بھارت کو کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔

علاوہ ازیں انہوں نے نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بتایا کہ 2 روز قبل انہوں نے امریکی سیکریٹری مائیک پومپیو سے ٹیلی فونک رابطہ قائم کرتے ہوئے اسلام آباد کی ترجیحات اور ملک کے مغربی سرحد پر ترقیاتی کام کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے انہیں بتایا تھا کہ اگر کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو دونوں ملک کے مقاصد، امن، استحکام اور ترقی، متاثر ہوں گے۔

واضح رہے کہ بھارتی لڑاکا طیاروں نے 2 روز قبل 1971 کی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔

اس کے ایک روز بعد ہی پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے 2 جنگی طیاروں کو دوبارہ دراندازی کرنے پر تباہ کردیا تھا، جس کے بعد امریکا کی جانب سے مذکورہ اپیل کی گئی تھی۔

ایک بیان میں امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے بات کی اور امریکا کی جانب سے مزید کارروائیوں سے گریز کا پیغام پہنچایا۔

دوسری جانب چین نے بھی پاک-بھارت کشیدگی میں اضافے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک پر مزید کارروائیوں سے گریز کرنے پر زور دیا اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کیا‘۔