دنیا

بھارت: سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کے 4 ملزمان عدالت سے بری

این آئی اے عدالت نے پاکستانی گواہوں کو واپس بھیجنے کی درخواست بھی رد کردی، بھارتی میڈیا
|

بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکے سے اڑانے کے مرکزی ملزم سوامی اسیم آنند سمیت 4 افراد کو بری کردیا جس میں 43 پاکستانی مسافروں سمیت 68 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ہریانہ کے مرکزی شہر پنچکولا میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے 2007 میں پاکستانیوں سمیت مقامی مسافروں کو لے کر اٹاری جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکے سے اڑانے کے مقدمے میں نامزد ملزمان کو تحقیقات کے بعد بری کردیا۔

رپورٹ کے مطابق عداالت نے اس مقدمے کے پاکستانی گواہوں کو واپس بھیجنے کی درخواست کو بھی رد کر دیا۔

خیال رہے کہ درخواست، سمجھوتہ ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے والے پاکستانی عبدالوکیل کی بیٹی راحیلہ وکیل نے اپنے وکیل مومن ملک کے ذریعے 11 مارچ کو دائر کی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے وکیل آر کے ہندا کا کہنا تھا کہ ‘این آئی اے کی خصوصی عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تفتیشی ایجنسی سازش کے الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور حکم دیا ہے کہ ملزمان شک کا فائدہ اٹھانے کے مستحق ہیں’۔

مزید پڑھیں: سمجھوتہ ایکسپریس دھماکا کیس فیصلہ محفوظ، 14مارچ کو سنایا جائے گا

یاد رہے کہ 18 فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا جس میں 43 پاکستانیوں سمیت 68 مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد این آئی اے نے 8 افراد کو ملزم نامزد کیا تھا۔

دہشت گردی کے الزام میں نباکمار عرف سوامی اسیم آنند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجند چوہدری کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا جبکہ حملے کا ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی دسمبر 2007 میں مارا گیا تھا۔

نامزد دیگر تین ملزمان رام چندرا کال سینگرا، سندیپ ڈینگے اور امیت تاحال مفرور ہیں اور عدالت انہیں اشتہاری بھی قرار دے چکی ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پنچکولا کی این آئی اے عدالت میں ٹرائل کا آغاز 2010 میں ہوا تھا جہاں مجموعی طور پر 299 میں سے تقریباً 224 گواہوں کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق این آئی اے نے تحقیقات کے بعد 2011 میں چارج شیٹ جمع کرادی تھی جس پر زیرحراست نباکمار عرف سوامی اسیم آنند سمیت 8 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

بعد ازاں اسیم انند کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا تاہم دیگر تین ملزمان جیل میں تھے، این آئی اے نے ملزمان پر قتل، جرائم کی سازش سمیت دھماکا خیز مواد اور دہشت گردی کے حوالے سے دیگر شقوں کو مقدمہ میں شامل کیا تھا۔

واضح رہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس ہفتے میں دو مرتبہ پاکستان سے بھارت اور بھارت سے پاکستان آتی ہے اور 2007 میں دہلی سے اٹاری جاتے ہوئے پانی پت کے قریب دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا جس میں پاکستان مسافر بھی نشانہ بنے تھے۔

دفتر خارجہ کی مذمت

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی میڈیا کی رپورٹس پر مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کیس کے ملزمان کو چھوڑنے کی رپورٹس آئی ہیں، یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کا انتہائی قدم ہے، دھماکے میں جو پاکستانی شہید ہوئے تھے ان کے اہل خاندان کو کیا جواب دیا جائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس حوالے سے تفصیلات جمع کر رہے ہیں اور جلد ہی اس پر باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔

دھماکا کہاں ہوا؟

لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں 18 فروری 2007 میں ہریانہ کے پانی پت کے مقام پر دھماکا ہوا تھا جس میں 43 پاکستانی اور 10بھارتی شہریوں سمیت دھماکے میں مجموعی طور پر 68 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 15افراد کی شناخت نہیں ہو سکی تھی، مرنے والوں میں 64 مسافر تھے جبکہ 4 کا تعلق ریلوے سے تھا۔

بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق دہشت گرد حملے میں 10 پاکستانیوں سمیت 10 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جبکہ دھماکے کے بعد لگنے والی آگ کے نتیجے میں ٹرین کی کئی کوچز جل گئی تھیں۔

بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں اسے بھارت کی سالمیت، سیکیورٹی، خود مختاری اور اتحاد کو نشانہ بنانے کی منظم سازش قرار دیا تھا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ابتدائی طور پر ہریانہ پولیس نے مقدمے کی ایف آئی درج کی تھی لیکن وزارت داخلہ نے 2010 میں اس حملے کا مقدمہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی منتقل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں ہندو تنظیم ملوث

پہلی چارج شیٹ جون 2011 میں فائل کی گئی جس کے بعد اگست 2012 اور جون 2013 میں بالترتیب دو ضمنی چارج شیٹ دائر کی گئیں۔

ابتدائی تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟

ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ رات 11 بج کر 53منٹ پر پانی پت کے دیوانہ ریلوے اسٹیشن سے نکلنے والی ٹرین کی دو بوگیوں میں دھماکا خیز مواد اور آتش گیر مادے سے آگ لگ گئی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ 16کوچز پر مشتمل اٹاری ایکسپریس رات 10 بجکر 50منٹ پر دہلی سے اٹاری کے لیے روانہ ہوئی اور اس میں پانی پت اور دیوانہ کے درمیان دھماکا ہوا۔

مزید پڑھیں:سمجھوتہ ایکسپریس حملےکے ماسٹر مائنڈ کی بریت 'افسوسناک': دفترخارجہ

رپورٹ کے مطابق 16 میں سے 4 کوچز سیکنڈ کلاس لیبر کے لیے مختص تھیں جبکہ دھماکا ان دو کوچز میں ہوا جو مختص نہیں تھیں جہاں چار آئی ای ڈی نصب کیے گئے، اس کے نتیجے میں دو کوچز میں دھماکا ہوا جبکہ دو آئی ای ڈی کو بعد میں برآمد کر لیا گیا۔

مقدمے کے ملزمان کون تھے؟

دھماکے کا الزام 8 افراد پر عائد کیا گیا تھا جن میں سے صرف 4 نے مقدمات کا سامنا کیا، مقدمے میں مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند عرف نابا کمار سرکار تھا جسے 2015 میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی۔

دیگر تین ملزمان کمل چوہان، راجیندر چوہدری اور لوکیش شرما سینٹرل جیل امبالا میں جوڈیشل حراست میں ہیں جبکہ تین ملزمان امیت چوہان، رام چندرا کال سنگرا اور سندیپ دانگے کو مقدمے میں اشتہاری ملزم قرار دیا گیا۔

تاہم نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ایک اور ملزم سنیل جوشی دسمبر 2007 میں مدھیا پردیش میں مار دیا گیا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم اسیم آنند کو حیدرآباد دکن میں مکہ مسجد دھماکے اور اجمیر درگاہ دھماکے میں بری کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اجمیر مزار حملہ: غیر معمولی طور پر ہندو انتہا پسند مجرم قرار

سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کہا کہ اس سازش میں اصل معاونت اسیم آنند نے کی اور مقدمے کے دیگر ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مالی معاونت بھی فراہم کی۔

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی چارج شیٹ کیا کہتی ہے؟

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسیم آنند ہندوؤں کے مندروں جیسے اکشردھام مندر، رگھوناتھ مندر اور سنکت موچان پر دہشت گردوں کی جانب سے حملوں سے تنگ تھے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پوری مسلمان برادری کے خلاف ’بم کا بدلہ بم‘ کی سوچ کی بنیاد پر ایک منصوبہ بنایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزمان نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور ان کے اجتماعات کے مقامات پر حملے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملک بھر میں مختلف لوگوں سے ملاقات کی اور اسی سلسلے میں سمجھوتہ ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا جسے پاکستان اور بھارت کے مسلمان سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سوٹ کیس میں رکھا گیا بم دراصل کمال، لوکیش، راجیندر اور امیت کی جانب سے نصب کیا گیا تھا۔

ملزم راجیندر چوہدری، سنیل جوشی، رام چندرا کال سنگرا ، لوکیش شرما، کمال چوہان، امیت اور دیگر نے مدھیا پردیش کے علاقے دیواس کے جنگلات میں جنوری 2006 میں تربیت حاصل کی اور اس دوران بم بنانے کی تربیت لی اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

انہوں نے اپریل 2006 میں فرید آباد میں شوٹنگ کی تربیت حاصل کی اور ملزمان نے اپنے تئیں تفتیش کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے لیے پرانے دہلی ریلوے اسٹیشن کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں پر کسی بھی قسم کی سیکیورٹی نہیں تھی۔

مقدمے میں کتنے گواہ تھے؟

مقدمے میں تقریباً 299 گواہ تھے۔ ان گواہوں میں سے 13 کا تعلق پاکستان سے تھا لیکن یہ 13 افراد عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ 2013 میں متعدد گواہان اپنے بیان سے مکر گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:سمجھوتہ ایکسپریس 180 سے زائد مسافروں کو لے کر بھارت روانہ

گزشتہ سال مقدمے کے خصوصی جج نے ٹرائل کی سست پیش رفت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ہفتے ایک دن بعد مقدمے کی سماعت ہونے کے باوجود پروسیکیوشن مقررہ تاریخوں پر صرف ایک یا دو گواہ پیش کرتا ہے۔

مقدمے کے آغاز سے اب تک 8 جج اس کی سماعت کر چکے ہیں اور اب آخر میں ریپ اور قتل کے مقدموں کی سماعت کے لیے مشہور سی بی آئی کے خصوصی جج جگدیپ سنگھ اگست 2018 سے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں لیکن ان کی تقرری سے قبل ہی اکثر گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے تھے۔