دنیا

'بھارت میں 2 سال کے دوران 50 لاکھ مردوں کو بےروزگاری کا سامنا'

2011 کے بعد سے بھارت میں بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا، تعلیم یافتہ اور نوجوانوں میں یہ شرح زیادہ دیکھی گئی، رپورٹ

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک بھارت میں 2 برس کے دوران تقریباً 50 لاکھ بھارتی مردوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اتنے مردوں کو اپنی نوکری کھونا پڑی، جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سالانہ ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے 2014 انتخابات کے وعدے کے برخلاف نظر آتی ہے، تاہم خواتین کو نوکریوں سے نکالنے کا اندازہ کم لگایا گیا ہے۔

بینگلور کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے پائیدار روزگار کے مرکز کی جانب سے جاری تحقیقاتی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی جب 6ہفتوں طویل بھارتی عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ کل شروع ہونے والا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت میں بے روزگاری کی شرح نے 45 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، رپورٹ

این ڈی ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ بھارت کی حکومتی پالیسی کے تھنک ٹینک نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے نائب چیئرمین راجیو کمار کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ 'تصدیق شدہ نہیں' اور 'اعداد و شمار میں صداقت کے حوالے سے معلوم نہیں'۔

تاہم پائیدار ملازمت کے مرکز کی جانب سے 'اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2019' رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2011 کے بعد سے بھارت میں بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کیوں اس سال بھارت میں بڑے انتخابی مسئلے کے طور پر بے روزگاری بڑھی۔

اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ نریندر مودی کی 2016 کی ڈی مونیٹائزیشن پالیسی کے ساتھ ہی روزگار میں کمی کی شروعات ہوئی، تاہم ان دونوں واقعات کے درمیان کوئی 'تعلق' قائم نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی مونیٹائزیشن کرپشن، غیرقانونی ذرائع سے دولت حاصل کرنے والے لوگوں اور جعلی نوٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔

اس کے علاوہ بھارت میں 90 فیصد سے زائد صارفین کی خرید و فروخت نقد میں ہوتی ہے تو اس اقدام سے عوام میں افراتفری پھیل گئی تھی۔

سی ایس ای کی رپورٹ کے مطابق بےروزگار افراد میں زیادہ شرح نوجوانوں کی ہے اور وہ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں جبکہ جائزہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کم تعلیم یافتہ افراد کے بھی نوکریوں اور کام کے مواقع میں کمی آئی۔

اس کے علاوہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں کم تعلیم یافتہ مردوں کی جانب سے لیبر فورس پارٹیسپیشن ریٹ (ایل ایف پی آر) اور ورک فورس پارٹیسپیشن ریٹ (ڈبلیو پی آر) میں بڑی حد تک انکار دیکھنے میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: خاکروب کی ملازمت کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کی درخواستیں

رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ بے روزگاری کا مسئلہ صرف لیبر فورس کے پڑھے لکھے طبقے تک ہی محدود نہیں البتہ ’ بے روزگاری کا مسئلہ کم پڑھے لکھے افراد میں شاید آج بھی کم ہو کیونکہ اس سیکٹر کے لیے لیبر فورس کے نکالنے کا ایک طے شدہ رجحان پایا جاتا ہے جس کی وجہ شاید کام کے مواقع کی کمی ہے۔

اس سے قبل رواں سال کے اوائل میں ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 18-2017 میں بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

اس حوالے سے افرادی قوت کی مدت سے متعلق جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان کیے گئے سروے میں بتایا گیا تھا کہ اس عرصے میں بے روز گاری کی شرح 6.1 فیصد رہی جو 73-1972 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔