نقطہ نظر

چینی بھائیوں! کیا اپنے کھانے ہمارے حوالے کرسکتے ہو؟

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صرف چینی ہی ہیں جنہوں نے پاکستان میں بننے والا چائنیز کھانا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

چینی وفود جوق در جوق پاکستان آرہے ہیں اور انہیں یہاں کے چائنیز ریسٹورینٹس لے جایا جا رہا ہے، اور یہ منطق ٹھیک بھی ہے، آخر انہیں گھر کا احساس دلانا مقصود جو ہے۔ ان کے ساتھ انہی کے کھانوں سے سجی میز پر بیٹھنے سے برف پگھلانے یا اجنبیت دُور بگھانے میں مدد ملتی ہے۔ مثبت پہلوؤں کے ساتھ سی پیک پر گفتگو کریں، اور ہاں یاد رہے کہ سب سے زیادہ مثبت پہلو یوآن رہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صرف چینی ہی ہیں جنہوں نے پاکستان میں بننے والا چائنیز کھانا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ہم جسے چائنیز کھانا کہتے ہیں وہ بنیادی طور پر انہی چیزوں کو تھوڑا مصالحہ دار اور ذائقہ دار انداز میں پکانے کا نام ہے جنہیں ہم ہمیشہ سے ہی بناتے آرہے ہیں۔ چاول میں چکن، ساس میں ڈوبی چکن، سوپ میں چکن، نوڈلز میں چکن، چکن میں چکن میں؟ اور ایسا کیوں نہیں کیا جائے؟

ہمیں لاہور میں تلی ہوئی چیزیں پسند ہیں۔ ہم سب کچھ تلتے ہیں، ہم تو اپنے تیل کو بھی تلتے ہیں۔ چینی باشندے ابلے ہوئے اور بھاپ پر پکے ہوئے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، لہٰذا تناؤ میں فوراً اضافہ ہونے لگتا ہے۔

جب میں بڑا ہو رہا تھا تب میں سوچا کرتا تھا کہ چینی باشندے پورا دن صرف ڈرم اسٹک اور اسپرنگ رولز کھاتے ہیں۔ مثلاً اگر بیجنگ میں کوئی ایک فیملی کسی دوسری فیملی سے ملنے چلی جائے تو ان کے آگے اسپرنگ رولز پیش کیے جائیں گے اور انہیں بار بار کہا جاتا رہے گا کہ، ’اور لیجیے نا، آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔ یہ ایگ فرائیڈ رائس تو چکھ کر دیکھیے، میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے‘۔

مگر مجھے اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب معلوم ہوا کہ چین میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

ان غلط ناموں کی وجہ سے چائنیز سوپ کے بارے میں میرا علم بھی ہاٹ اینڈ سار تک محدود تھا۔ البتہ جب بھی اسے فوڈ پانڈا کے ذریعے منگوایا تو یہ عام طور پر کولڈ اینڈ سار کی شکل میں ہی ملا۔

میرے والد جب بھی زیادہ مصالحوں کو برداشت نہ کرپاتے تو ہمارے ہاں چکن کارن سوپ بنتا۔ لیکن ہم میں سے کسی کو بھی یہ زیادہ پسند نہیں تھا۔ انتہائی بے ذائقہ۔ ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ آخر چینی اس چیز کو گلے سے اتارتے کیسے ہیں؟ یہ تو ایسی چیز ہے جو ایک بیمار انسان کو شوربے کے طور پر دی جانی چاہیے، جبکہ ریسٹورینٹ میں پیش کرنے کی تو کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔

پھر چکن ڈرم اسٹکس مقامی بیکریوں میں بھی دستیاب ہونے لگیں۔ ہڈی سے لپٹے بریڈ ملے گوشت کی تلی ہوئی وہ بڑی بڑی گیندیں۔ بھئی مجھے تو بہت لذیذ لگتیں، کیونکہ ان کا ذائقہ مصالحہ دار چرغے جیسا ہوا کرتا تھا۔ مگر چینیوں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی یہ چیز دیکھی ہوگی اور شاید پھر کبھی دیکھنا بھی نہیں چاہیں گے۔

لگتا ہے کہ منچورین بھی مانچسٹر سے آیا ہو؟ کیونکہ یہ چین سے تو نہیں آیا۔ ایگ فرائیڈ رائس اور چکن منچورین ہمارے پاکستانی تڑکے والے چائنیز کھانوں کا خاصہ ہیں۔ جب کبھی کوئی کہے کہ چلو یار چائنیز کھاتے ہیں تو اس میں رائس اور منچورین کا ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ چینی افسران اس جال میں پھنسنے اور ہاں کہنے سے پہلے کتنی بار نا کہتے ہوں گے؟

کھانے پکانے کے طریقوں اور اس کنفیوژن سے ہمارے اقتصادی پلانز کا بھی بیڑہ غرق ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص خالی پیٹ لوگوں کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ انہیں اپنا کھانا چاہیے اور ہم بس وہی کھانا بنانے ہی والے ہیں۔

چینی اسٹریٹ فوڈ بھی ہماری سرزمین پر پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد میں ایک شخص نظر آیا جو ٹھیلے پر ڈمپلنگ بیچ رہا تھا، ٹھیک اسی طرح جس طرح افغانی فرائیز یا بن کباب بیچے جاتے ہیں۔ ان کے چرچے سوشل میڈیا پر بھی دکھے۔

ببل ٹی، ڈِم سَم، کنگ پاؤ، ہاٹ پاٹس، نوڈل سوپ بھی ریسٹورینٹس، گروسری اسٹورز اور ٹیک اویز کا رخ کر رہے ہیں۔ بھئی یہ تو مرکزی دھارے میں اپنی جگہ پکی کر رہے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے چینی زبان کی کلاسز کا آغاز پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ جہاں خالص چائنیز کھانے پیش کیے جارہے ہیں وہاں الکحل بھی فروخت کیا جاتا ہے۔

اچانک سے یہ خبریں بھی مل رہی ہیں کہ لاہور میں شراب کی نئی دکانوں کو لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں۔ امکان ہے کہ ایک ایسی دکان لاہور ایئرپورٹ پر بھی کھولی جائے گی جہاں چینیوں کو الکحل کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے تاکہ لاہور کے ابتدائی دنوں میں اپنا وجود باقی رکھا جاسکے۔ جناب وہ اسموگ میں سانس لینے کے عادی نہیں ہیں۔

ڈیوٹی فری الکحل سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ان نشہ آور مشروبات کے لیے انہیں مال روڈ پر واقع ہوٹلز کا سفر نہ کرنے پڑے یا پھر غیر قانونی طور پر مشروبات بیچنے والوں کو بے تحاشا پیسے نہ دینے پڑیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن دُور کا سوچیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چینیوں کو اپنے کھانے کا انتظام ہمیں سونپ دینا چاہیے۔ میں تصدیق شدہ خالص چائنیز کھانا کھا چکا ہوں جو انتہائی بد ذائقہ ہوتے ہیں۔ ایک دن چینیوں کو احساس ہوگا کہ وہ برسا برس سے اپنے کھانوں کے ساتھ غلط کرتے چلے آ رہے ہیں۔

مگر کسی کے کھانوں پر قبضہ یوں یکطرفہ کہاں ہوتا ہے۔ میں یہ ضرور دیکھنا چاہوں گا کہ چینی بھائی نہاری کے ساتھ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے اپریل، 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔

حسیب آصف

لکھاری صحافی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔