کرکٹ کا عالمی مقابلہ، کب کون کیسے فاتح بنا؟

آسٹریلین ٹیم عالمی مقابلوں کی سب سے کامیاب ٹیم ہے جس نے اب تک 5 مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔

کرکٹ کا کھیل ایک نہیں بلکہ 2 صدیوں پرانا ہے، لیکن اس میں جدت لانے کے لیے تقریباً 98 سال کا انتظار کرنا پڑا اور یہ جدت دنیا کے دوسرے کھیلوں کی طرح عالمی میلا منعقد کروانا تھا جس کے بعد بیک وقت کئی ممالک کی ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل آئیں اور یوں عالمی کھیلوں کے درمیان کرکٹ کو بھی نہ صرف فروغ ملا بلکہ اس نے فٹبال اور ہاکی کی طرح اپنا ایک مقام بھی حاصل کرلیا۔

کرکٹ کا پہلا ٹیسٹ میچ بلاشبہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین 1877 میں کھیلا گیا لیکن اس سے بھی قبل 1844 میں یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا (یو ایس اے) اور برٹش کینیڈا کے درمیان کھیلا گیا جسے کرکٹ کی تاریخ کا پہلا بین الاقوامی مقابلہ کہا جاتا ہے۔

آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی ایک اور کالونی جنوبی افریقہ نے بھی 19ویں صدری میں 1889 میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرلیا اور یوں عالمی سطح پر کرکٹ کی تین ٹیمیں بن گئیں۔

چونکہ کرکٹ کا دوسرا فارمیٹ (ون ڈے یا ٹی ٹوئنٹی) متعارف نہیں ہوا تھا، اس لیے آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان برطانیہ میں سہ فریقی ٹیسٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا، تاہم وقت کی زیادتی، شائقین کی عدم دلچسپی اور کھیل کے سست روی سے چلنے کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ بری طرح ناکام ہوگیا اور اس کا دوبارہ انعقاد نہیں کیا گیا، تاہم دوسری مرتبہ کسی بھی تین یا زائد ٹیموں کے درمیان یہ چیمپیئن شپ پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے نام سے منعقد ہوئی۔

اس سے بھی قبل کرکٹ کو ایک عالمی میلے میں متعارف کروایا گیا تھا جو حیرت انگیز طور پر اولمپک تھا جسے 1900 میں پیرس میں کھیلے جانے والے ایونٹ میں شامل کیا گیا تھا، تاہم اس وقت بین الاقوامی ٹیموں نہیں بلکہ برطانیہ اور فرانس کی ایک ایک کلب ٹیموں کے درمیان صرف ایک ہی میچ کھیلا گیا تھا جس میں برطانیہ کے ڈیون اینڈ سمرسیٹ وانڈررز نے فرانس کی فرینچ ایتھلیٹک کلب یونین کو شکست دے کر گولڈمیڈل حاصل کیا تھا۔

کرکٹ کے کھیل میں مزید بین الاقوامی ٹیمیں شامل ہوتی رہیں جہاں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1928، نیوزی لینڈ 1930 ، بھارت 1932 اور پاکستان 1952 میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان ٹیموں کے درمیان صرف ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جاتی رہی۔ صرف طویل دورانیہ کی کرکٹ کا یہ سلسلہ 1971 تک چلتا رہا جس کے بعد پہلی مرتبہ دوطرفہ سیریز میں ٹیسٹ میچز کے ساتھ ون ڈے کو بھی شامل کیا گیا اور پہلا ون ڈے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 5 فروری 1971 کو کھیلا گیا۔

اس کے ساتھ ہی منتظمین نے کرکٹ ورلڈ کپ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا لیکن مردوں کے میگا ایونٹ سے 2 سال قبل 1973 میں خواتین ٹیموں کا عالمی میلا منعقد کیا گیا، تاہم مردوں کا مقابلہ پہلی مرتبہ 1975 میں انگلینڈ میں ہوا، جس کے بعد سے اب تک یہ ایونٹ 11 مرتبہ منعقد کیا جاچکا ہے۔ جس میں دنیا کے مختلف ممالک اب تک حصہ لے چکے ہیں۔

کرکٹ کے گھر یعنی انگلینڈ کو پہلے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کے انعقاد کا اعزاز حاصل ہوا جو جون 1975 کو انگلینڈ کے پانچ شہروں اور 6 گراؤنڈرز پر کھیلا گیا۔ اس ایونٹ میں 8 ٹیموں نے شرکت کی جن میں 6 ٹیسٹ ٹیمیں؛ میزبان انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت، پاکستان، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز جبکہ 2 ایسوسی ایٹ ٹیمیں؛ سری لنکا اور مشرقی افریقہ شامل تھیں۔

مشرقی افریقہ کی ٹیم 4 ممالک کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جس میں کینیا، یوگینڈا، طنزانیہ اور زمبیا کے کھلاڑی شامل تھے اور یہ اس ٹیم کا پہلا اور آخری ورلڈ کپ تھا، تاہم ایونٹ کے کسی بھی میچ میں یہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔

1975 میں کھیلا جانے والا اس ایونٹ میں میچز 50 کے بجائے 60 اوورز فی اننگز پر مشتمل تھے، جس میں ٹیموں کو4، 4 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے گروپ میں میزبان انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ اور ایسٹ افریقہ جبکہ دوسرے گروپ میں پاکستان، ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور سری لنکا شامل تھیں۔

ایونٹ کا پہلا مقابلہ انگلینڈ اور بھارت کے درمیان ہوا، جس میں میزبان ٹیم نے ورلڈکپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 رنز عبور کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا، جبکہ بھارت کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی تاریخ کا پہلا میچ جیتنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔

گروپ اے سے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جبکہ گروپ بی سے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیرز نے سیمی فائل کے لیے کوالیفائی کیا۔ انگلینڈ کو روایتی حریف آسٹریلیا جبکہ ویسٹ انڈیز کو سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کا سامنا کرنا تھا۔

فاتح ٹیم ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اسکرین شاٹ

آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز باآسانی اپنے اپنے سیمی فائنل جیت کر فائنل تک پہنچ گئی، جو لارڈز کے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔ یہ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں کو ایک سنسنی خیز مقابلے کی امید تھی، تاہم امیدوں کے مطابق فائنل نسبتاً سنسنی خیز ہی رہا لیکن کلائیولائڈ کی کپتانی میں حریف ٹیموں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہونے والی ویسٹ انڈیز نے یہ معارکہ 17 رنز سے اپنے نام کیا اور پہلی مرتبہ کرکٹ کا ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

ایونٹ کے دوران پاکستان ٹیم کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی تھی، لیکن اس کا ایک ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا جانے والا گروپ میچ تاریخ کے بہترین میچز میں سے ایک بن گیا جو کالی آندھی (ویسٹ انڈیز) نے ایک وکٹ سے اپنے نام کیا۔ اس میں پاکستان کی بہترین باؤلنگ لائن کے آگے ویسٹ انڈیز کو آخری وکٹ پر جیت کے لیے 64 رنز درکار تھے تاہم پاکستان ٹیم نہ ہی وہ ایک وکٹ حاصل کرسکی بلکہ مقررہ اوورز بھی پورے کرنے اور ہدف سے روکنے میں ناکام رہی۔


  • مین آف دی میچ(فائنل): کلائیو لائڈ (ویسٹ انڈیز) 102 رنز

  • سب سے زیادہ رنز: گلین ٹرنر (نیوزی لینڈ) 333

  • سب سے وکٹیں: گیری گلمر (آسٹریلیا) 11


انگلینڈ میں ہونے والا پہلا کرکٹ ورلڈ کپ شائقین کے لیے کامیاب رہا اور عوام اس سے محظوظ بھی ہوئے جبکہ لوگوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ان مقابلوں کے انعقاد کا انتظار کیا جانے لگا، اور یوں آئی سی سی نے پہلے ورلڈکپ کے 4 سال بعد 1979 میں دوسرا عالمی میلا منعقد کیا اور یہ بھی انگلینڈ میں ہی کھیلا گیا۔

گزشتہ ایونٹ کی طرح اس ایونٹ میں بھی آئی سی سی کی جانب سے 8 ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں شامل کیا گیا جن میں میزبان انگلینڈ، دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز، پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بطور فل ممبر جبکہ 1979 آئی سی سی ٹرافی کا فائنل کھیلنے والی سری لنکا اور کینیڈا دیگر 2 ٹیموں میں شامل تھیں۔

کینیڈا کا یہ پہلا ٹورنامںٹ تھا لیکن یہ کرکٹ کی تاریخ کا وہ پہلا اور واحد ورلڈ کپ بھی تھا جس میں افریقہ سے تعلق رکھنے والی کسی بھی ٹیم نے حصہ نہیں لیا۔

راؤنڈ رابن بنیاد پر کھیلے جانے والے اس ٹورنامنٹ میں بھی ٹیموں کو 4،4 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا جس میں گروپ اے میں میزبان انگلینڈ، پاکستان، آسٹریلیا اور کینیڈا کی ٹیمیں شامل تھیں جبکہ گروپ بی میں دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز، بھارت، نیوزی لینڈ اور سری لنکا شامل تھیں۔

گزشتہ ایونٹ کی طرح اس ایونٹ میں بھی ایک اننگز 50 کے بجائے 60 اوورز پر مشتمل تھی جبکہ دیگر قواعد بھی گزشتہ ایونٹ کی طرح ہی لاگو تھے۔

گروپ اے سے انگلینڈ اور پاکستان جبکہ گروپ بی سے ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ پاکستان نے ورلڈکپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، تاہم دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ مسلسل دوسری مرتبہ ایونٹ کے سیمی فائنل میں شکست کھاگئی اور اس مرتبہ انگلینڈ اسے شکست دے کر فائنل میں پہنچنے میں کامیاب رہا۔

فائنل میچ ایک مرتبہ پھر لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلا گیا جس میں دونوں ہی ٹیمیں ایک دوسرے کے ہم پلہ دکھائی دے رہی تھیں کیونکہ ایک جانب سے دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز جبکہ دوسری جانب ہوم ٹیم انگلینڈ پہلی مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لیے بے تاب تھی۔ امیدوں کے برعکس میزبان ٹیم اپنی بہترین کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی۔

فاتح ٹیم ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اسکرین شاٹ

ویسٹ انڈیز نے مقررہ 60 اوورز میں 286 رنز بنائے جس کے بعد جیت کے لیے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے انگلینڈ کی پوری ٹیم 51ویں اوور میں 194 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئی اور یوں یہ ویسٹ انڈیز نہ صرف 2 مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والی پہلی ٹیم بنی بلکہ ٹائٹل کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی۔


  • مین آف دی میچ(فائنل): ووین رچرڈز (ویسٹ انڈیز) 138 رنز ناٹ آؤٹ

  • سب سے زیادہ رنز: گارڈن گرینیج (ویسٹ انڈیز) 253

  • سب سے وکٹیں: مائیک ہینڈرک (انگلینڈ) 10


دوسرے ٹورنامنٹ کے بعد تیسرا ورلڈ کپ ’پیوریڈینشل کپ 1983‘ اب ایک مرتبہ پھر انگلینڈ میں ہوا جبکہ کچھ میچز ویلز میں بھی کھیلے گئے۔ جس کے دوران فائنل سمیت ایسے میچز دیکھنے میں آئے جنہیں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

گزشتہ 2 ایونٹس کی طرح یہ ایونٹ بھی جون کے مہینے میں 1983 کو انگلینڈ میں کھیلا گیا، جس میں 8 ٹیموں نے شرکت کی جنہیں 4، 4 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، اور ہر ٹیم نے گروپ اسٹیج میں ایک دوسرے کے خلاف 2 ، 2 میچز کھیلے۔

زمبابوے کی ٹیم نے پہلی مرتبہ عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا جو بھارت، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے ساتھ گروپ بی میں موجود تھی جبکہ گروپ اے پاکستان، میزبان انگلینڈ، سری لنکا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل تھا۔

ورلڈ کپ سے قبل خراب کارکردگی میں گھری بھارتی ٹیم اور پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا حصہ بننے والی زمبابوے کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف میچز میں دنیائے کرکٹ کو حیران کردیا۔

گروپ اے سے میزبان ٹیم انگلینڈ ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ میں تمام ٹیموں پر سبقت لے جاتی ہوئی دکھائی دی، جبکہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان سیمی فائنل میں کوالیفائی کرنے کے لیے سخت مقابلہ رہا جبکہ سری لنکا کی ٹیم صرف ایک ہی میچ جیتنے میں کامیاب ہوسکی۔

انگلینڈ اپنے 6 میں سے 5 میچز جیت کر سیمی فائنل میں پہنچ گئی جبکہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے 3، 3 میچز جیتے اور ان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا فیصلہ رن اوسط پر ہوا جو پاکستان کا بہتر تھا اور یوں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

گروپ بی سے دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز حریفوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہورہی تھی، لیکن گروپ اسٹیج کے ایک میچ میں اسے بھارت سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن 5 میچوں میں کامیابی نے اسے مسلسل تیسری مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچا دیا تھا۔

دوسری جانب بھارت کی ٹیم نے اپنی فارم حاصل کرلی تھی اور اپنی 4 فتوحات کے ساتھ وہ بھی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرگئی۔

پہلے سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ ویسٹ انڈیز جبکہ بھارت کا مقابلہ میزبان انگلینڈ کے ساتھ ہوا۔ جہاں بھارت نے انگلینڈ کو شکست سے دو چار کیا جبکہ ویسٹ انڈیز ایک مرتبہ پھر فائنل میں پہنچنے کے لیے پاکستان کے آڑھے آگئی۔

فائنل مقابلہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہوا جو ورلڈ کپ کی تاریخ کے بہترین فائنل مقابلوں میں سے ایک ہے جہاں پہلے تباہ کن باؤلنگ کا سامنا کرتے ہوئے بھارت کی ٹیم محض 183 رنز پر پویلین لوٹ گئی، لیکن جواب میں اس نے ویسٹ انڈیز کے لیے بھی پریشانی کھڑی کردی۔

بھارت کے آل آؤٹ ہونے کے بعد کپتان کپل دیو نے ٹیم سے تاریخی جملے کہے کہ ’یہ اسکور چاہے میچ جیتنے والا اسکور نہ ہو، لیکن یہ لڑنے والا اسکور ضرور ہے۔‘

فاتح ٹیم بھارت کے کپتان کپل دیو ٹرافی کے ہمراہ — فوٹو: اسکرین شاٹ

بھارتی کپتان کے اس قول نے ٹیم کو لڑنے پر مائل کیا اور 184 رنز کے ہدف کا دفاع کرتے ہوئے اس وقت کی بہترین بیٹنگ لائن کو کپل دیو، مہیندر امرناتھ اور مدن لال نے تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ گارڈن گرینج، ڈیزمنس ہنس، ویوین رچرڈز، کلائیو لائڈ اور جیفری ڈوجن جیسی بیٹنگ لائین 140 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی جس کے ساتھ ہی یہ میچ بھارت کے نام رہا۔

ویسٹ انڈیز کا ورلڈ کپ کی ہیٹرک کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا، اور بھارت پہلی مرتبہ کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بن گیا۔

اس ٹورنامنٹ کے دوران کرکٹ کے گراؤنڈ میں باؤنڈری کے علاوہ ایک ’دائرہ‘ متعارف کروایا گیا تھا جس سے متعلق یہ قانون نافذ ہوا کہ فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے کم سے کم 4 کھلاڑی پورے میچ اس دائرے کے اندر رہ کر فیلڈنگ کریں گے۔


  • مین آف دی میچ(فائنل): موہندر امرناتھ (بھارت) 26 رنز اور 3 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: ڈیوڈ گاور (انگلینڈ) 384 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: راجر بینے (بھارت) 18 وکٹیں


کرکٹ کا چوتھا میلہ جو ’ریلائنس کپ 1987‘ کے نام سے مشہور ہے اب انگلینڈ میں نہیں بلکہ اس سے باہر سجنے والا تھا لیکن اس کا انتخاب اس سرزمین پر ہونا تھا جہاں دنیا میں کرکٹ کے سب سے زیادہ شائقین بستے ہیں جی ہاں یہ تھا برِ صغیر (پاکستان اور بھارت)۔

کرکٹ کے کھیل میں جدت آچکی تھی، ون ڈے فارمیٹ میں کلر کٹ کا استعمال بھی شروع ہوگیا تھا لیکن 1987 میں ہونے والے عالمی مقابلوں میں اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی اور صرف 60 اوورز فی اننگز کم ہوکر 50 اوورز فی اننگز ہوگئے تھے اور یہی فارمینٹ آج تک قائم ہے۔

پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک اچھی خبر یہ تھی کہ ورلڈکپ ان کے میدانوں میں ہونے جارہا تھا، اور اسے ٹیلی ویژن پر بھی براہِ راست ٹیلی کاسٹ کیا جانا تھا۔

یہ پہلا اور اب تک کا واحد موقع تھا جب ورلڈ کپ کے لیے اتنی ہی تعداد میں اور ان ہی ٹیموں نے کوالیفائی کیا جنہوں نے گزشتہ ایونٹ یعنی 1983 کے ورلڈ کپ میں کوالیفائی کیا تھا، کیونکہ اس کے بعد سے لے کر اب تک ورلڈکپ میں نہ صرف ٹیموں کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہی بلکہ نئے ممالک بھی اس کے لیے کوالیفائی کرتے رہے۔

اس ایونٹ میں بھی 8 ٹیموں کو 4، 4 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں ایونٹ کی ایک میزبان ٹیم اور دفاعی چیمپیئن بھارت کے ساتھ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور زمبابوے موجود تھے، جبکہ دوسرے گروپ میں دوسری میزبان ٹیم پاکستان، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور سری لنکا موجود تھیں۔

مذکورہ گروپس میں شامل ٹیموں کو ایک دوسرے سے 2، 2 میچز میں مد مقابل آنا تھا۔ ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور بھارتی ٹیم نے گروپ اسٹیج کے دوران اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کیا اور اپنے اپنے 6 میچوں میں سے 5، 5 میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

پاکستان کے ساتھ انگلینڈ اور بھارت کے ساتھ آسٹریلیا نے سیمی فائنل کے لیے جگہ بنائی جہاں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا اور بھارت کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوا۔ دونوں مہمان ٹیمیوں نے میزبان ٹیموں کو شکست دیتے ہوئے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا جو ایڈن گارڈن کولکتہ میں کھیلا گیا۔

چوتھے ورلڈ کپ کا فائنل مقابلہ اب تک کا سب سے سنسنی خیز مقابلہ تھا کیونکہ یہ کسی 2 روایتی حریف ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا تھا جس نے اس کو مزید دلچسپ بنادیا تھا۔

فاتح ٹیم آسٹریلیا کے کپتان ایلن باڈر ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اسکرین شاٹ

ایلن بارڈر کی کپتانی میں میدان میں اترنے والی آسٹریلین ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 253 رنز بنائے، جس کے تعاقب میں انگلینڈ کا آغاز تو اچھا نہ تھا لیکن تجربہ کار گراہم گوچ، بل ایتھی اور کپتان مائیک گیٹنگ نے ٹیم کو جیت کی جانب گامزن کیا۔ لیکن آسٹریلوی باؤلرز نے نپی تلی گیند بازی کرتے ہوئے انگلینڈ کو ہدف سے صرف 7 رنز دور رکھ کر پہلی مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔

ورلڈکپ کی تاریخ کی پہلی ہیٹ ٹرک بھی اسی ایونٹ میں ہوئی جو بھارت کے چیتن شرما نے گروپ اسٹیج میں نیوزی لینڈ کے خلاف بنائی۔


  • مین آف دی میچ(فائنل): ڈیوڈ بون (آسٹریلیا) 75 رنز

  • سب سے زیادہ رنز: گراہم کوچ (انگلینڈ) 471 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: کریگ مک ڈریمٹ (آسٹریلیا) 18 وکٹیں


یہ ایک ایسا سال ہے جب اس کا یہ ہندسہ ہی سامنے آتا ہے تو عالمی کرکٹ پر پاکستان کے راج کی داستانیں، کپتان عمران خان اور ان کے تمام کھلاڑیوں کی ورلڈکپ ٹرافی اٹھائے تصاویر ذہن میں گردش کرنے لگ جاتی ہیں، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس سال کرکٹ کا پانچواں ورلڈ کپ منعقد ہوا تھا جسے پاکستان نے اپنے نام کیا تھا۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو مشترکہ طور پر ’بینسن اینڈ ہیجز کپ 1992‘ سے مشہور اس ایونٹ کی میزبانی سونپی گئی جو تاریخ رقم کرنے والا تھا، کیونکہ اس میں میچز برقی روشنی میں کھیلے جانے والے تھے، گیند کا رنگ پہلی مرتبہ لال سے سفید ہونے والا تھا اور کھلاڑی اب روایتی سفید لباس سے نکل کر اپنی قومی رنگوں کی وردیاں پہننے والے تھے اگرچہ جرسی کے ڈیزائن ایک جیسے تھے لیکن اس میں تمام ٹیموں کے رنگ مختلف تھے۔

کرکٹ کے عالمی ادارے کا نام تبدیل کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) رکھ دیا گیا، جبکہ اس سے قبل انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس نے ورلڈکپ کا انعقاد کیا تھا۔

آسٹریلیا کے 11 اور نیوزی لینڈ کے 7 مقامات پر کھیلا جانے والے اس ورلڈکپ کا آغاز 22 فروری سے ہوا جبکہ فائنل مقابلہ 25 مارچ کو کھیلا گیا۔ ایونٹ کے فارمیٹ کو تبدیل کردیا گیا، اب ٹیموں کو 2 گروپس میں نہیں بلکہ ایک ہی گروپ میں رکھا گیا، جہاں تمام ٹیموں کو ایک دوسرے سے ایک ایک میچ کھیلنا تھا۔

جنوبی افریقہ میں ’علیحدگی نظام‘ (Apartheid) نظام رائج ہونے کی وجہ سے اس پر بین الاقوامی کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں شرکت پر پابندی عائد تھی، تاہم ورلڈکپ 1992 سے قبل اسے دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی اور ٹیسٹ اسٹیٹس بھی بحال ہوگیا جس کے ساتھ پہلی مرتبہ کسی ورلڈ کپ میں اس کی شرکت یقین ہوئی۔

کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا ملک ورلڈکپ کی میزبانی کرنے جارہا تھا جو اس ایونٹ کا دفاعی چیمپیئن بھی تھا۔ اس کے علاوہ شریک میزبان ملک نیوزی لینڈ، پاکستان، ویسٹ انڈیز، بھارت، سری لنکا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ بطور ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل ٹیمیں اس ایونٹ میں شریک ہوئیں جبکہ زمبابوے کی ٹیم 1990 میں آئی سی سی ٹرافی جیتنے کے بعد ایونٹ میں شرکت کو یقینی بنا پائی۔

گروپ اسٹیج کے دوران نیوزی لینڈ کی ٹیم ایک علیحدہ اور خطرناک ٹیم ابھر کر سامنے آئی جو اپنے ابتدائی 7 میچوں میں ناقابلِ شکست تھی تاہم آخری گروپ میچ میں اسے پاکستان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ان دونوں ٹیموں کا ہی سیمی فائنل میں بھی مقابلہ ہوا۔

واضح رہے کہ اس ایونٹ سرفہرست 4 ٹیموں کو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا تھا، جس میں نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ نے باآسانی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، لیکن چوتھی ٹیم کا فیصلہ گروپ کے آخری میچ پر انحصار کرتا تھا جو ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا گیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان اور انگنلینڈ کے درمیان کھیلا گیا گروپ اسٹیج کا میچ بارش کی نذر ہوگیا تھا جس میں قومی ٹیم کی شکست یقینی تھی، کیونکہ پوری ٹیم 74 رنز بنا کر پویلین لوٹ چکی تھی جبکہ انگلینڈ کے 8 اوورز میں 24 رنز تھے جہاں سے اس کی فتح آسان دکھائی دے رہی تھی، لیکن باران رحمت قومی ٹیم کے لیے ایک پوائنٹ کا سہارا بن گئی اور یوں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے میچ سے قبل قومی ٹیم کے اپنے 8 میچز مکمل ہونے کے بعد 4 فتوحات اور بے نتیجہ میچ کے ساتھ 9 پوائنٹس تھے۔

دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کے آخری میچ سے قبل صرف 6 پوائنٹس تھے جو جیت کی صورت میں بھی اسے سرفہرست 4 ٹیموں میں شامل نہیں کر سکتے تھے، لیکن ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے اور اس کی جیت کی صورت میں قومی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوجاتی اور کالی آندھی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جاتی۔

تاہم آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر نہ صرف اسے سیمی فائنل کھیلنے سے روک دیا بلکہ اس کی وجہ سے قومی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔

ایونٹ کا پہلا سیمی فائنل نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان ہوا جسے پاکستان نے انضمام الحق کی دھواں دھار بیٹنگ کی بدولت جیت کر پہلی مرتبہ ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

دوسرا سیمی فائنل انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہوا جس کا اختتام کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے متنازع انداز میں ہوا۔

جنوبی افریقہ کی جیت یقینی تھی، اسے جیت کے لیے 22 رنز درکار تھے کہ اچانک بارش ہوگئی، جس کی وجہ سے میچ روکنا پڑا، تاہم اس وقت رائج کے قانون کے مطابق جنوبی افریقہ کو حیرت انگیز طور پر آخری گیند پر 21 رنز بنانے کا ہدف ملا جسے دیکھ کر جنوبی افریقی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ دنیائے کرکٹ حیران ہوگئی۔

انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر تیسری مرتبہ ورلڈکپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا جہاں اس کا مقابلہ عمران خان کی کپتانی میں پاکستان ٹیم کے ساتھ ہوا۔

ٹاس کے موقع پر عمران خان قومی ٹیم کی جرسی کے بجائے سفید رنگ کی جرسی پہن کر میدان میں اترے تھے جس پر شیر بنا ہوا تھا۔ اس حوالے سے چیمپیئن کپتان اپنے متعدد انٹرویو میں کہہ چکے ہیں وہ ٹیم کا حوصلہ بلند اور حریف ٹیم کا حوصلہ پست کرنا چاہتے تھے اسی لیے ایسے جرسی پہن کر میدان میں اترے جس پر شیر بنا ہوا تھا۔

میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں میچ کا آغاز امیدوں کے برعکس ہوا، جہاں 24 کے مجموعے پر قومی ٹیم کے اوپنرز رمیز راجہ اور عامر سہیل پویلین لوٹ گئے تھے، تاہم ایسے میں کپتان عمران خان اور لیجنڈ کرکٹر جاوید میانداد نے 139 رنز کی پارٹنر شپ بنا کر پاکستان کی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان کے 72 اور جاوید میانداد کے 58 رنز کے بعد انضمام الحق کے 42 اور وسیم اکرم کے برق رفتار 33 رنز نے ٹیم کا ٹوٹل مقررہ 50 اوورز میں 249 رنز تک پہنچا دیا۔

ہدف کے تعاقب میں انگلش ٹیم بھی مشکلات میں گھری ہوئی دکھائی دی، اور شاہینوں نے حریف ٹیم کے کھلاڑیوں کی ایک نہ چلنے دی۔ وسیم اکرم اور مشتاق احمد نے 3، 3 جبکہ عاقب جاوید نے 2 وکٹیں لے کر انگلینڈ کی اننگز تمام کی اور یوں پاکستان 22 رنز سے فتح یاب ہوکر پہلی مرتبہ کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بن گیا۔

اس ایونٹ میں زمبابوے نے انگلینڈ اور سری لنکا نے جنوبی افریقہ اور زمباوے کو شکست دے کر اپ سیٹ کیے تھے۔

فاتح ٹیم پاکستان کے کپتان عمران خان ٹرافی اٹھائے تقریر کر رہے ہیں — فوٹو: اسکرین شاٹ

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورلڈکپ 1992 وہ پہلا ایونٹ تھا جب پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہوا تھا، اس سے قبل دونوں ٹیموں کے درمیان ورلڈ کپ میں کوئی میچ نہیں کھیلا گیا تھا۔ اس ایونٹ میں بھارتی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی اور وہ صرف 2 ہی میچز جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جن میں ایک زمبابوے اور دوسرا پاکستان کے خلاف۔

ویسے تو 70 کی دہائی میں دائرے کے قانون متعارف کروائے گئے تھے تاہم 1992 کے ورلڈکپ میں ابتدائی 15 اوورز میں صرف 2 فیلڈرز دائرے سے باہر رکھنے کی اجازت تھی جبکہ 16ویں سے آخری اوور تک 4 فلیڈر دائرے کے اندر اور باقی 5 دائرے کے باہر رکھنے کا قانون تھا۔

ورلڈکپ میں پہلی مرتبہ مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ متعارف کروایا گیا جو سب سے زیادہ 456 رنز بنانے والے نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو کو دیا گیا جبکہ اس سے قبل ورلڈکپ میں یہ ایوارڈ نہیں دیا جاتا تھا۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): وسیم اکرم (پاکستان) 33 رنز اور 3 وکٹیں

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: مارٹن کرو (نیوزی لینڈ) 456 رنز

  • سب سے زیادہ رنز: مارٹن کرو (نیوزی لینڈ) 456 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: وسیم اکرم (پاکستان) 18 وکٹیں


اب کرکٹ کے کھیل نے دنیا بھر میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں دنیا کے مختلف ممالک اس کھیل کے دوسرے درجے پر بہترین کارکردگی دکھا رہے تھے اور ان ٹیموں کو اب اوپر لے کر آنا تھا جس کے لیے ورلڈکپ ہی ایک بہترین موقع تھا۔

عوام میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے چوتھے ورلڈ کپ کی طرح چھٹا ورلڈکپ بھی جنوبی ایشیا میں منعقد کروایا گیا۔ اس مرتبہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ سری لنکا کو بھی ایونٹ کے میچز کی میزبانی سونپی گئی جو ورلڈکپ کے آغاز سے قبل ہی تنازعات کا شکار ہوگئی۔

کرکٹ کے امور چلانے والی عالمی تنظیم نے ٹیموں کی تعداد کو بڑھا کر 12 کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک زمبابوے کو بھی ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل ہوگیا تھا، یوں دنیائے کرکٹ میں ٹیسٹ میچز کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد 9 ہوگئی تھی جنہوں نے ورلڈ کپ 1996 کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ لیکن دیگر 3 ٹیمیں کینیا، نیدرلینڈز اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے آئی سی سی ٹرافی 1994 میں ابتدائی 3 پوزیشن حاصل کرکے ورلڈکپ کی فائنل 12 میں جگہ بنائی۔

اس ورلڈ کپ کو ’ولز ورلڈکپ 1996‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جس میں نئی تکنیک دیکھنے میں آئی جس نے ریکارڈز کے انبارے لگائے اور ساتھ ساتھ ایک تنازع بھی دیکھنے میں آیا لیکن وہ کرکٹ انتظامیہ نہیں بلکہ بھارتی شائقین کی جانب سے اپنی ٹیم کی ممکنہ شکست کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا۔

گزشتہ ایونٹ کی طرح اس ایونٹ میں بھی ٹیموں کے یونیفارم کے لیے آئی سی سی کی جانب سے مخصوص ڈیزائن فراہم کیا گیا تھا جنہیں قومی رنگوں کی مناسب سے بنایا گیا تھا۔ اس ایونٹ میں گروپ اسٹیج کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ بھی متعارف کروایا گیا۔

اس مرتبہ ٹیموں کو 6، 6 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا جہاں تمام ٹیموں کو ایک دوسرے سے صرف ایک ایک میچ کھیلنا تھا۔ گروپ اے میں شریک میزبان ممالک بھارت اور سری لنکا کے ساتھ آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز زمبابوے اور کینیا کی ٹیمیں شامل تھیں جبکہ گروپ بی میں شریک میزبان اور دفاعی چیمپیئن پاکستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، یو اے ای اور نیدرلینڈز کی ٹیمیں شامل تھیں۔

گروپ اسٹیچز کی سرفہرست 4، 4 ٹیموں کو کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا تھا جن تمام کوارٹر فائنل کی فاتح ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا تھا۔

یہ ورلڈ کپ 14 فروری سے 17 مارچ 1996 کے درمیان کھیلا گیا، اور اس کے آغاز سے قبل سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے اپنی اپنی ٹیموں کو سری لنکا بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

سری لنکن حکومت کی جانب سے ٹیموں کی سیکیورٹی سے متعلق مکمل یقین دہانی کروائی گئی تھی جس سے کا جائزہ آئی سی سی نے بھی لیا تاہم پھر بھی ان دونوں ٹیموں نے یہاں آنے سے انکار کردیا جس کے بعد آئی سی سی نے سری لنکا کو ان میچز کے پوائنٹس دے دیے، جس کی وجہ سے سری لنکا ظاہری طور پر بغیر میچ کھیلے ہی کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرگئی۔

اگر کہا جائے کہ کرکٹ ورلڈکپ 1996 کرکٹ کو دورِ قدیم سے دورِ جدید میں لے جانے کا ایک موقع تھا اور سری لنکا اس میں سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا تو یہ غلط نہ ہوگا۔

فیلڈنگ پابندیوں کے زیر اثر سری لنکا کے کپتان ارجونا راناٹنگا نے اپنے جارحانہ مزاج بلے بازوں سنتھ جے سوریا اور رمیش کالووتھرانہ کو بطور اوپنر آزمانے کا تجربہ کیا اور یہ کافی حد تک کامیابی بھی رہا، کیونکہ جس وقت کرکٹ میں ابتدائی 15 اوورز میں 60 رنز کے قریب اسکور موزوں سمجھا جاتا تھا، وہاں سری لنکا نے 100 سے زیادہ رنز بنا کر دنیائے کرکٹ کو حیران کردیا۔

بھارت کے خلاف گروپ میچ میں ابتدائی 15 اوورز میں 117، کینیا کے خلاف 123، انگلینڈ کے خلاف کوارٹر فائنل میں 121 اور بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں 86 رنز اسکور کیے۔

گروپ اے سے سری لنکا اور گروپ بی سے جنوبی افریقہ گروپ اسٹیج میں ناقابل شکست رہے جبکہ پاکستان، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بھارت نے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

پہلے کوارٹر فائنل میں انگلیںڈ کا مقابلہ سری لنکا، دوسرے میں پاکستان کا مقابلہ بھارت، تیسرے میں ویسٹ انڈیز کا مقابلہ جنوبی افریقہ اور چوتھے میں آسٹریلیا کا مقابلہ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوا۔

سری لنکا، بھارت، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے اپنے اپنے میچز میں کامیابی حاصل کرکے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جہاں بھارت کا مقابلہ سری لنکا اور آسٹریلیا کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے ہوا۔

ایڈن گارڈن کولکتہ میں کھیلا جانے والا پہلا سیمی فائل بھارتی شائقین کی عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو تاریخ میں ان کی تنگدلی اور کم ظریفی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے میچ میں مقررہ 50 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 251 رنز بنائے جو بھارتی ٹیم کے لیے ایک آسان ہدف تھا، تاہم اسے اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب سری لنکن بلے بازوں نے صرف 120 کے مجموعے پر بھارتی برج گرادیے۔

اپنی ٹیم کی ممکنہ شکست سے بھارتی شائقین آگ بگولہ ہوگئے اور اسٹیڈیم میں نہ صرف ہنگامہ آرائی شروع کردی بلکہ گراؤنڈ میں پلاسٹ کی بوتلیں اور کچرا بھی پھینکنا شروع کردیا جبکہ اس کے علاوہ شائقین نے اسٹیڈیم میں نشستوں کو آگ بھی لگادی تھی۔

اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے میچ ریفری کلائیو لائڈ نے یہ میچ سری لنکا کے نام کردیا جس کے نتیجے میں سری لنکن ٹیم پہلی مرتبہ ورلڈکپ کے فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔

دوسری جانب آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کے منہ سے یقین جیت چیھن کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ 208 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 2 وکٹوں کے نقصان پر 165 رنز تک پہنچی تھی تو آسٹریلین باؤلرز شین وارن، ڈیمیئن فلیمنگ اور گلین میک گرا نے حریف ٹیم کو ہدف سے 5 رنز دور آل آؤٹ کرکے تیسری مرتبہ ورلڈ کپ فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

فائنل میں آسٹریلیا نے مارک ٹیلر 74 اور رکی پونٹنگ کے 45 رنز کی بدولت پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 241 رنز کا مجموعہ کھڑا کیا۔ ارونڈا ڈی سلوا نے 3 آسٹریلین بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ورلڈکپ کے دوران ہر میچ میں سری لنکن ٹیم کو دھواں دھار آغاز فراہم کرنے والے رمیش کالووتھرانہ اور سنتھ جے سوریا بالترتیب 6 اور 9 رنز بنا کر 23 کے مجموعے پر آؤٹ ہوگئے۔ ایسے میں آسٹریلیا کی فتح یقین دکھائی دے رہی تھی لیکن ارونڈا ڈی سلوا نے تاریخی اننگز کھیل کر پہلے گروسینا کے ساتھ 125 رنز کی شراکت بنائی اور پھر اس کے بعد کپتان ارجونا رانا ٹنگا کے ساتھ 97 رنز کی شراکت قائم کرکے پہلی جیت دلوائی اور سری لنکا پہلی مرتبہ عالمی چیمپیئن بن گیا۔

میچ کے بعد تقریب میں فاتح ٹیم کے کپتان ارجونا رانا ٹنگا کو اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ٹرافی دی تھی۔

اس میچ میں کچھ ریکارڈز بھی بنے جن میں ورلڈکپ کا سب سے بڑا انفرادی اسکور بنا جو جنوبی افریقہ کے گیری کرسٹن نے یو اے ای کے خلاف بنایا۔

گیری کرسٹن نے راولپنڈی میں گروپ میچز کے دوران یو اے ای کے خلاف ناقابل شکست 188 رنز بنائے جبکہ اس سے قبل یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے ویوین رچرڈز کے پاس تھا جنہوں نے 1987 کے ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 181 رنز بنا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔

فاتح ٹیم سری لنکا کے کپتان ارجونا رانا ٹنگا ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اسکرین شاٹ

اس کے علاوہ سری لنکا نے نہ صرف ورلڈکپ بلکہ ون ڈے کرکٹ کا سب سے بڑا اسکور بنانے کا ریکارڈ بھی اسی ایونٹ کے دوران بنایا۔ کینیا کے خلاف اپنے گروپ میچ کے دوران سری لنکا نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 398 رنز بنا کر یہ ریکارڈ بنایا تھا۔

اس سے قبل ورلڈ کپ میں سب سے بڑا ٹوٹل بنانے کا اعزاز ویسٹ انڈیز کے ہی پاس تھا جس نے سری لنکا کے خلاف اسی میچ میں 360 کا مجموعہ بنایا تھا جس میں ویوین رچرڈز نے 181 کا ریکارڈ بنایا تھا۔

اس کے علاوہ اسی ٹورنامنٹ میں کینیا کی ٹیم نے 2 مرتبہ کی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کو اپ سیٹ شکست دے دی تھی۔ کینیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 166 رنز بنائے جبکہ 167 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 93 کے مجموعے پر ڈھیر ہوگئی تھی۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): ارونڈا ڈی سلوا (سری لنکا) 107 رنز اور 3 وکٹیں

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: سنتھ جے سوریا (سری لنکا) 221 رنز اور 7 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: سچن ٹنڈولکر (بھارت) 523 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: انیل کمبلے (بھارت) 15 وکٹیں


کرکٹ کا ساتواں ورلڈ کپ ’ٓآئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 1999‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سے قبل عالمی میلے کو اسپانسر کا نام دیا جاتا تھا تاہم اب آئی سی سی نے کھیل کو مزید کمرشل کرنے دنیا میں اس کی ساکھ کو مضبوط کرنے اور شائقین کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مزید تبدیلیاں کیں۔

ان میں سب سے بڑی تبدیلی ڈک ورتھ لوئس قانون کا عمل میں آنا تھا، کیونکہ ماضی میں 1992 کے ورلڈ کپ میں ہم سابقہ قانون کا نتیجہ انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے سیمی فائنل میچ کے دوران دیکھ چکے ہیں جب کیپلر وسلز کی ٹیم سے اس قانون نے یقین فتح چھین لی تھی۔

اب آئی سی سی کی جانب سے یکساں ٹیم یونیفارم کو ختم کرکے تمام ٹیموں کو اپنے قومی رنگ اور نشان کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ڈیزائن والی کٹ کے ڈیزائن جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی جن کی منظوری کے بعد تمام ٹیموں کی علیحدہ علیحدہ جرسی سامنے آئی۔ ایسا دنیا کے دیگر کھیلوں جیسے فٹبال اور ہاکی میں بھی ہوا کرتا ہے۔

اس ایونٹ میں شامل ہونے والی ٹیموں کی تعداد بھی 12 تھی جن میں 9 ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل ٹیمیں جبکہ 3 ٹیموں کینیا، اسکاٹ لینڈ اور پہلی مرتبہ ورلڈکپ کا حصہ بننے والی بنگلہ دیشی ٹیم نے 1997 میں ہونے والی آئی سی سی ٹرافی میں سرفہرست تین پوزیشنز حاصل کرکے اپنی شرکت کو یقین بنائی تھی۔

ورلڈکپ 1999 میں 14 مئی سے 20 جون کے درمیان انگلینڈ میں منعقد ہوا جبکہ اس کے 2 میچز اسکاٹ لینڈ جبکہ آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور ویلز میں ایک ایک میچز کھیلے گئے۔ تاہم یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ورلڈکپ مغربی یورپ میں منعقد ہوا۔

اس مرتبہ ایونٹ ڈبل راؤنڈ رابن اور پھر ناک آؤٹ مرحلے پر مشتمل تھا۔ جس میں پہلے 12 ٹیموں کو 6، 6 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا جن کی فہرست 3، 3 فاتح ٹیموں کو علیحدہ علیحدہ گروپ میں تقسیم کیا گیا اور اس اسٹیج کا نام ’سپر سِکس‘ رکھا گیا جہاں ان کا مقابلہ دوسرے گروپ کی فاتح ٹیموں سے ہوا۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلے گروپ اسٹیج کے دوران حریف ٹیموں کے لیے ڈراؤنا خواب بنی رہیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان دونوں ٹیموں کو آخری میچز میں اپنے اپنے گروپ میں شامل سب سے کمزور ٹیم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پاکستان کو بنگلہ دیش نے نارتھمپٹن کے مقام پر 62 رنز سے شکست دے دوچار کیا جبکہ جنوبی افریقہ کو چیلمسفورڈ کے مقام پر زمبابوے کے ہاتھوں شکست کا مزہ چھکنا پڑا۔

پہلے گروپ کے اختتام پر اب باری تھی سپر سِکس کی جہاں پہلے گروپ سے ٹیموں کو اپنے پوائٹس لے کر دوسرے گروپ میں جانا تھا۔ تاہم گروپ بی سے پاکستان 4، نیوزی لینڈ 2 اور آسٹریلیا 0 پوائنٹس لے کر سپر-6 میں پہنچیں جبکہ گروپ اے سے زمبابوے 4، جنوبی افریقہ 2 اور بھارت 0 پوائنٹس کے ساتھ سپر-6 پہنچیں۔

سپر-6 مرحلے میں ہر ٹیم کو 3 میچز کھیلنے تھے، اور اس میں جو ٹیم 4 پوائنٹس لے کر آئی ہے وہ صرف ایک میچ جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا تھا، جبکہ 2 پوائنٹس والی ٹیم کو 2 میچز جیتنے تھے جبکہ 0 پوائنٹس کے ساتھ آنے والی ٹیم کو اپنے تمام میچز جیتنے تھے۔

پاکستان زمبابوے کے خلاف اپنا ایک میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچی جبکہ اسے بھارت اور جنوبی افریقہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی طرح پاکستان کے گروپ میں موجود آسٹریلیا کو اپنے تمام میچز جیتنے تھے اور اس نے تمام میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

یہاں سپر-6 کے بالکل آخری میچ جو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہوا اور اسی ٹورنامنٹ کا دوسرا سیمی فائنل جو انہیں ٹیموں کے درمیان ہوا، تاریخی میچز میں سے ایک ہے۔

سپر-6 کے میچ میں جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرے ہوئے 271 رنز بنائے جبکہ ہدف کے تعاقب میں آسٹریلین ٹیم مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی تھی، تاہم ایسے میں جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز آسٹریلین کپتان کا کیچ پکڑ لیا لیکن اس کا جشن مناتے ہوئے وہ کیچ ہرشل گبز سے چھوٹ گیا جس پر اسٹیو وا ہرشل گبز کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ’بچے! تم نے ورلڈکپ گرادیا‘۔

اسٹیو وا نے اپنے ان الفاظ کو درست ثابت کرتے ہوئے 120 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ٹیم کو 5 وکٹوں سے باآسانی فتح سے ہمکنار کروایا اور سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ جنوبی افریقہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکی تھی جبکہ نیوزی لینڈ جسے ایک میچ جیتنا تھا، نے بھارت کو شکست دے کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

پاکستان نے سعید انور کی شاندار سنچری کی بدولت نیوزی لینڈ کو باآسانی 9 وکٹوں سے شکست دے کر دوسری مرتبہ ورلڈکپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، جبکہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والا سیمی فائنل سنسنی خیز مقابلے کے بعد ڈرا ہوگیا تاہم سپر-6 میں فتح کی بنیاد پر آسٹریلیا فائنل کے لیے کوالیفائی کرگیا۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان لارڈز کے گراؤنڈ میں کھیلا جانے والا فائنل خلاف توقع تھا، جہاں شائقین کرکٹ پاکستان کی جیت کو یقین سمجھ رہے تھے وہاں اس ٹیم سے آسٹریلیا کے خلاف مزاحمت بھی نہ ہوسکی۔

فاتح ٹیم آسٹریلیا کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو — فوٹو: اسکرین شاٹ

پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کی پور ٹیم 132 رنز پر آؤٹ ہوگئی، اور شین وارن نے اپنی جادوئی باؤلنگ کے سبب 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

جواب میں آسٹریلین ٹیم نے 21ویں اوور میں ہی 133 رنز کا آسان ہدف حاصل کرکے دوسری مرتبہ ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

اس ایونٹ میں پاکستان کے ثقلین مشتاق زمبابوے کے خلاف سپر-6 کے میچ میں ہیٹرک کرکے نہ صرف پہلے پاکستانی بلکہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے اسپنر بھی بنے۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): شین وارن (آسٹریلیا) 4 وکٹیں

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: لائنس کلوزنر (جنوبی افریقہ) 281 رنز اور 17 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: راہول ڈریوڈ (بھارت) 461 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: جیف ایلٹ (نیوزی لینڈ)، شین وارن (آسٹریلیا) 20، 20 وکٹیں


کرکٹ کے کھیل میں تبدیلی تو نہیں ہوئی لیکن اس میں ٹیموں کا اضافہ ضرور ہوا، جس میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کا ذکر سرفہرست ہے جسے پاکستان کے خلاف ون ڈے میچ میں فتح کے بعد ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل ہوگیا اور اب وہ ورلڈکپ میں بطور دسویں ٹیسٹ ٹیم کے طور پر شامل ہونے جارہی تھی۔

آئی سی سی نے آٹھویں ایڈیشن ’کرکٹ ورلڈکپ 2003‘ کو منعقد کروانے کے لیے براعظم افریقہ کا انتخاب کیا جہاں اس کی میزبانی جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا کو مشترکہ طور پر دی گئی۔

پہلی مرتبہ ورلڈکپ کے لیے ماسکوٹ متعارف کروایا گیا اور یہ ماسکوٹ افریقہ کی ثقافت اور اس کی جنگلی حیات کی عکاسی کرتا تھا، جس کا نام ’ڈیزل‘ رکھا گیا۔

مذکورہ ایونٹ 9 فروری سے 23 مارچ کے درمیان جنوبی افریقہ کے 12، زمبابوے کے 2 اور کینیا کے ایک شہر میں کھیلا گیا۔

اس ایونٹ میں دنیائے کرکٹ کی 14 ٹیموں نے شرکت کی جو ورلڈکپ میں شامل ہونے والی ٹیموں میں اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 10 ٹیسٹ اسٹیٹس حامل ٹیموں کے علاوہ ون ڈے اسٹیٹس کی حامل شریک میزبان ٹیم کینیا نے پہلے ہی ایونٹ کے لیے کوالیفائی کیا جبکہ کینیڈا میں ہونے والی آئی سی سی ٹرافی 2001 میں سرفہرست 3 ٹیموں نے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی کیا۔

اس ٹورنامنٹ میں ٹیموں کی تعداد کو تو بڑھایا گیا لیکن اس کے فارمیٹ کو بالکل اسی طرح رکھا گیا جیسا کہ 1999 میں ہونے والے ورلڈکپ میں رکھا گیا تھا۔ پہلے ان 14 ٹیموں کو 7، 7 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا جہاں سرفہرست رہنے والی تین ٹیموں نے سپر-6 مرحلے کے لیے کوالیفائی کیا۔

پہلے گروپ اے میں شریک میزبان ملک زمبابوے، دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا، بھارت، پاکستان، نمبیا، نیدرلینڈز اور انگلینڈ کی ٹیمیں موجود تھیں جبکہ گروپ بی میں شریک میزبان ملک جنوبی افریقہ اور کینیا کے ساتھ سری لنکا، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں شامل تھیں۔

یہ ورلڈکپ ایک ایسا ورلڈ کپ ثابت ہوا جہاں ایک یا 2 نہیں بلکہ جہاں دنیائے کرکٹ کی 4 بہترین ٹیسٹ ٹیمیں اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوگئیں جن کے بارے میں یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ ورلڈ کپ جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان ٹیموں میں اس وقت دنیائے کرکٹ کی مضبوط ترین ٹیم پاکستان بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ویسٹ انڈیز، میزبان جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کی ٹیمیں بھی پہلے مرحلے میں ہی ناکام ہوگئیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1996 کے ورلڈ کپ کی طرح 2003 کے ورلڈکپ میں بھی کچھ ٹیموں نے ورلڈکپ میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جن میں ایک انگلینڈ تھی جس نے زمبابوے میں اپنا گروپ میچ کھیلنے سے انکار کیا تھا جبکہ دوسری ٹیم نیوزی لینڈ تھی جس نے کینیا میں اپنا گروپ میچ کھیلنے سے انکار کیا تھا۔

آئی سی سی کی جانب سے زمبابوے اور کینیا کو اپنے اپنے ان میچز کے لیے پوائنٹس دے دیے گئے جس کا انہیں ایسا فائدہ ہوا کہ دونوں ٹیمیں سپر-6 میں پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔

کینیا کی ٹیم نہ صرف نیوزی لینڈ کے خلاف واک اوور کے پوائنٹس لینے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسی ٹیموں کو اپ سیٹ شکست بھی دی جس کی وجہ سے وہ سیمی فائنل میں پہنچے میں کامیاب ہوئی اور یہ اب تک ورلڈ کپ کی تاریخ کی پہلی ایسوسی ایٹ ٹیم بھی بنی جس نے ورلڈکپ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

ورلڈکپ 2003 پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا، جس میں قومی ٹیم تاریخ کی سب سے مضبوط ٹیم دکھائی دے رہی تھی لیکن تاریخ کی سب سے بڑی ناکام کا سامنا اسی ٹیم کرنا پڑا۔ جس کے بعد پاکستان کے بڑے بڑے کھلاڑیوں جیسے وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور کے کیریئر کا اختتام ہوا۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ 1992 میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں ہونے والی بارش نے پاکستان کو شکست سے بچایا لیکن 2003 کے ورلڈکپ میں زمبابوے کے خلاف میچ میں ہونے والی بارش نے قومی ٹیم کو نہ صرف فتح سے دور کردیا بلکہ ایونٹ سے ہی باہر کردیا۔

گروپ اے سے آسٹریلیا، بھارت اور زمبابوے نے سپر-6 کے لیے کوالیفائی کیا جبکہ گروپ بی سے نیوزی لینڈ، سری لنکا اور کینیا نے سپر-6 کے لیے کوالیفائی کیا جنہیں سیمی فائنل میں جانے کے لیے مخالف گروپ کی تینوں ٹیموں سے مقابلہ کرنا تھا۔

پہلے گروپ میں بڑی ٹیموں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے اور زیادہ پوائنٹس سپر-6 میں لانے کے بعد آسٹریلیا اور کینیا کو محض ایک ایک میچ میں کامیابی حاصل کرنی تھی لیکن بھارت اور سری لنکا کو کم سے کم 2، 2 اور نیوزی لینڈ اور زمبابوے کو اپنے تمام میچز میں کامیابی حاصل کرنی تھی۔

نیوزی لینڈ اور زمبابوے کو شکست کے بعد آسٹریلیا، بھارت، سری لنکا اور کینیا نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔

پہلا سیمی فائنل سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا جس میں جس میں آسٹریلیا نے باآسانی کامیابی حاصل کی اور پانچویں مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزازا حاصل کیا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں بھارت نے کینیا کا ورلڈکپ میں سفر تمام کرتے ہوئے دوسری مرتبہ عالمی کپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

جوہانسبرگ میں کھیلے گئے اس فائنل میں آسٹریلیا کے لیے بھارت ترنوالہ ثابت ہوئی جس نے پہلے کینگروز کو 359 رنز بنانے دیے اور پھر اس کے بعد خود 234 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی اور یوں اسٹریلیا نہ صرف اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے والی دوسری ٹیم بنی جبکہ تین مرتبہ عالمی کپ جیتنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی۔

فاتح ٹیم آسٹریلیا کا ٹرافی کے ساتھ گروپ فوٹو — فوٹو: اسکرین شاٹ

فائنل میں 140 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلنے پر آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا جبکہ ورلڈ کپ میں 673 رنز بنانے اور 2 وکٹیں لینے پر سچن ٹنڈولکر کو مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔

اس عالمی مقابلے کے دوران ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر آسٹریلیا کے شین وارن کو ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔

سری لنکا کے چمندا واس نے بنگلہ دیش کے خلاف گروپ میچ میں میچ کی پہلی ۳ گیندوں پر ہیٹ ٹرک کر کے دنیا کا منفرد ریکارڈ بھی قائم کردیا تھا۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): رکی پونٹنگ (آسٹریلیا) 140 رنز

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: سچن ٹنڈولکر (بھارت) 673 رنز اور 2 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: سچن ٹنڈولکر (بھارت) 673 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: چمندا واس (سری لنکا) 23 وکٹیں


’آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ 2007‘ کے ساتھ جو تلخ یادیں پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں ان کا اثر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ آج تک پوری دنیائے کرکٹ میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا ایونٹ تھا، جسے آسٹریلیا کے علاوہ شاید دوسری کوئی ٹیم بالخصوص پاکستان اور بھارت تو یاد نہیں رکھنا چاہیئں گے، اور ایسا کیوں ہے یہ آپ کو جلد معلوم ہوجائے گا۔

کرکٹ کی عالمی تنظیم نے ’روٹیشنل پالیسی‘ کے تحت اب ورلڈکپ کی میزبانی ویسٹ انڈیز کو سونپی، جو ایک ملک نہیں بلکہ ایک خطہ ہے جو وسطی اور جنوبی امریکا میں واقع ہے اور اس میں شامل ممالک کو ہی کرکٹ ورلڈکپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔

جن مملک کو ایونٹ کی میزبانی ملی ان میں 7 ممالک جو جزائر پر مشتمل تھے ان میں بارباڈوز، سینٹ کٹ اینڈ نیوس، جمیکا ، سینٹ لوشیا، ٹرینی ڈاڈ اینڈ ٹوباگو، اینٹیگا اینڈ باربوڈا اور گرینیڈا شامل ہیں جبکہ جنوبی امریکی ملک گیانا کو بھی ایونٹ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔

13 مارچ سے 28 اپریل تک کھیلے جانے والے اس ایونٹ میں ریکارڈ 16 ٹیموں نے حصہ لیا جن میں ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل 10 اور 6 ایسوسی ایٹس ٹیمیں بھی شامل تھیں۔

ایونٹ کے ماسکوٹ کا نام میلو رکھا گیا تھا جو وسطی امریکی خطے کی ثقافت کی ترجمانی کرتا تھا۔

اس ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ ورلڈکپ کا حصہ بننے والی آئرلینڈ اور برمودا کی ٹیمیں بھی شامل تھیں۔ جن کے میچ تاریخ کے صفحوں میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

ون ڈے کرکٹ میں پاور پلے کے نئے قوانین متعارف ہونے کے بعد اب اس میں چند تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ جبکہ ایونٹ کے فارمیٹ میں بھی واضح تبدیلی کردی گئی تھی۔ یہ ایونٹ ڈبل راؤنڈ رابن اور پھر ناک آؤٹ کی بنیاد پر کھیلا گیا جبکہ اس میں سے سپر-6 کا نظام ختم کردیا گیا تھا۔

پہلے ان تمام ٹیموں کو 4، 4 کے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے بعد ان گروپس کی سرفہرست رہنے والی 2،2 ٹیموں کو ایک ہی گروپ میں شامل کر دیا گیا جو 8 ٹیموں پر مشتمل جیسے سپر-8 کا نام دیا گیا تھا۔

گروپ اے میں دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، اسکاٹ لینڈ اور نیدرلینڈز شامل تھیں۔ گروپ بی سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش اور برمودا پر مشتمل تھا۔ نیوزی لینڈ، انگلینڈ، کینیا اور کینیڈا گروپ سی کا حصہ تھے جبکہ میزبان ویسٹ انڈیز، پاکستان زمبابوے اور آئرلینڈ گروپ ڈی میں ایک ساتھ موجود تھے۔

ایونٹ کی فیوریٹ ٹیمیں پاکستان اور بھارت پہلے راؤنڈ سے آگے جانے میں بھی ناکام ہوگئیں اور اپنے سے کمزور حریف کے ہاتھوں شکست کھا کر ایونٹ سے باہر ہوگئیں تھیں۔

پاکستان کی ٹیم گروپ اسٹیج میں اپنا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف ہارچکی تھی، جبکہ دوسرے میچ میں اس کا مقابلہ پہلی مرتبہ ورلڈکپ کھیلنے والی آئرلینڈ سے تھا جہاں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی۔

میچ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ باب وولمر اس شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے اور اگلے روز ہوٹل میں اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ جمیکا پولیس نے قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا لیکن بعد میں موت کی وجہ دل کا دورہ قرار دیا۔

سپر-8 مرحلے میں دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، سی لنکا، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، انگلینڈ اور آئرلینڈ پہنچنے میں کامیاب ہوئیں، تاہم صرف آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کی ٹیموں نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔

پہلے سیمی فائنل میں سری لنکا نے نیوزی لینڈ کو با آسانی 208 رنز سےشکست دے کر دوسری مرتبہ ایونٹ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو باآسانی شکست دے کر چھٹی مرتبہ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

فائنل میں آسٹریلیا نے سری لنکا کو 53 رنز سے شکست دے کر پہلی مرتبہ ورلڈکپ جیتنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی جبکہ مجموعی طور پر چوتھی مرتبہ ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

واضح رپے کہ 2007 ورلڈ کپ کا فائنل برقی روشنی کی کمی لیکن تنازعات کی روشنی میں ختم ہوا۔ میچ سے قبل بارش ہوگئی تھی جس کی وجہ سے میچ کو 38 اوورز فی اننگز تک محدود کر دیا گیا تھا۔ آسٹریلیا نے سری لنکا کو جیت کے لیے 282 رنز کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں پہلے تو اوپنرز ناکام ہوئے لیکن بعد میں سری لنکن لیجنڈز کمار سنگا کارا اور کپتان مہیلا جے وردھنے جیت کی جانب پیش قدمی کی۔

دونوں نے تیسری وکٹ پر 116 رنز کی پارٹنر شپ بھی قائم کی تاہم ان کے آؤٹ ہونے کے بعد سری لنکن ٹیم لڑکھڑا گئی۔

خراب روشنی کے باعث کھیل روک دیا گیا جسے دیکھتے ہوئے آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے جیت کا جشن منانا شروع کردیا، جس پر امپائر علیم ڈار نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ اس وقت میچ نہیں جیتے اور میچ ابھی باقی ہے۔

فاتح ٹیم آسٹریلیا ٹرافی کے ساتھ جیت کا جشن مناتے ہوئے — فوٹو: اسکرین شاٹ

نظر ثانی شدہ ہدف کے مطابق سری لنکا کو جیت کے لیے 3 اوورز میں 61 رنز درکار تھے، جس کے لیے اضافی دن رکھا گیا تھا، تاہم دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے مفاہمتی معاہدے کے تحت ان 3 اوورز کو مدھم روشنی کے اندر ہی کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سری لنکن کھلاڑی 3 اوور میں صرف 9 رنز ہی بناسکے اور آسٹریلین ٹیم 53 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوئی، تاہم کھیل میں قانون کے نفاذ کے حوالے سے امپائرز نے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا اور کہا کہ آسٹریلیا کو یہ میچ صرف 37 رنز سے جیتنا چاہیے تھا۔

ٹکٹوں کی قیمتوں میں اضافے، کھلاڑیوں کے لیے سہولیات میں کمی کی وجہ سے ایونٹ منتظمین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): ایڈم گلکرسٹ (آسٹریلیا) 149 رنز

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: گلین میک گرا (آسٹریلیا) 26 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: میتھیو ہیڈن (آسٹریلیا) 659 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: گلین میک گرا (آسٹریلیا) 26 وکٹیں


آسٹریلیا کی دنیائے کرکٹ پر حکمرانی 1999 سے برقرار تھی اور تک آسٹریلیا کی ٹیم ورلڈکپ مقابلوں میں ناقبل شکست تھی، جسے اس وقت دنیائے کرکٹ کے بہترین کپتان، بیٹسمین، باؤلرز اور وکٹ کیپر کی خدمات حاصل تھیں اور اس سے جیتنا کسی بھی ٹیم کے لیے انتہائی مشکل دکھائی دے رہا تھا۔

ایک مرتبہ پھر ایشیائی ممالک کے حصے میں ایونٹ کی میزبانی آئی جس کا فیصلہ آئی سی سی اجلاس کے دوران ہونے والی ووٹنگ سے ہوا جس میں ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی میزبانی کے لیے بولی میں حصہ لیا۔

ابتدا میں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش مشترکہ طور پر میزبانی کے حقدار کہلائے تاہم 3 مارچ 2009 کو سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گردحملے نے نہ صرف پاکستان سے ورلڈ کپ کی میزبانی چھین لی بلکہ 10 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان میں بین الاقوامی بحال نہیں ہوسکی۔

ایشیائی ممالک میں 16 فروری سے 2 اپریل 2011 تک کھیلے جانے والے اس ورلڈ کپ میں ایونٹ کے گزشتہ فارمیٹ کو تبدیل کرکے دوبارہ 1996 والے فارمیٹ کو ہی بحال کردیا گیا اور اس میں 14 ٹیموں نے کوالیفائی کیا جنہیں 7، 7 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

گروپ اے میں میزبان سری لنکا، دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا، پاکستان، نیوزی لینڈ، زمبابوے اور آئی سی سی ورلڈکپ کوالیفائر کی ۴ سرفہرست ٹیموں میں سے کینیڈا اور کینیا موجود تھیں جبکہ گروپ بی میں میزبان بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے علاوہ آئی سی سی ورلڈکپ کوالیفائر کی 2 ٹیمیں آئرلینڈ اور نیدرلینڈز شامل تھیں۔

ورلڈکپ 1992 کی فاتح اور 1999 کی رنرز اپ پاکستان ورلڈکپ کی تاریخ میں بہترین کارکردگی دکھاتی نظر آئی اور یہ کارکردگی بیٹنگ سے نہیں بلکہ باؤلنگ سے دکھائی گئی جو ماریہ ناز آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے دکھائی اور ٹیم نیوزی لینڈ کے علاوہ آسٹریلیا اور سری لنکا جیسی حریف ٹیموں کے خلاف بھی گروپ میچز جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ واحد موقع تھا جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1992 کے بعد سے اب تک کسی بھی ایونٹ میں سب سے کم میچز میں شکت کا سامنا کیا تھا، ایک گروپ اسٹیج کے دوران نیوزی لینڈ جبکہ دوسری شکست سیمی فائنل میں بھارت کے خلاف تھی۔

اب تک ورلڈکپ کے فائنل میں نہ پہنچنے والی جنوبی افریقی ٹیم 2003 کے علاوہ تمام ایونٹس میں شاندار کارکردگی دیکھاتی آئی ہے جبکہ اس ایونٹ میں بھی پاکستان کے بعد دوسری کامیاب ترین ٹیم ثابت ہوئی۔

گروپ اے سے پاکستان جبکہ گروپ بی سے جنوبی افریقہ نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی لیکن دونوں گروپ سے مزید 3،3 ٹیمیں کوارٹر فائنل (ناک آؤٹ مرحلے) تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔

پاکستان، سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ گروپ اے سے جبکہ جنوبی افریقہ، بھارت، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ گروپ بی سے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کرسکیں۔

پاکستان کا مقابلہ ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا کا مقابلہ بھارت، جنوبی افریقہ کا مقابلہ نیوزی لینڈ، سری لنکا کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوا جہاں پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور سری لنکا سیمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

پہلا سیمی فائنل سری لنکا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے خلاف کھیلا گیا جس میں میزبان ملک نے باآسانی کیوز کو شکست دے کر مسلسل دوسری مرتبہ اور مجموعی طور پر تیسری مرتبہ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جبکہ دوسرا سیمی فائنل روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا جس میں بھارت نے کامیابی حاصل کی اور تیسری مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاک بھارت مقابلہ دیکھنے کے لیے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے جبکہ دیگر حکومتی حکام بھی ان کے ہمراہ اسٹیڈیم پہنچے تھے۔

یہ دوسری مرتبہ تھا کہ بھارت اور سری لنکا کسی بڑے ایونٹ کے فائنل میں ایک دوسرے کے مد مقابل تھے، اس سے قبل یہ دونوں آئی سی سی چیمپیئز ٹرافی 2002 کے فائنل میں ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے لیکن یہ میچ بارش کی نذر ہوگیا تھا اور دونوں ہی ٹیموں کو مشترکہ طور پر فاتح قرار دے دیا گیا تھا۔

ممبئی میں ہونے والے اس فائنل مقابلے میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بھارتی ٹیم کو جیت کے لیے 275 رنز کا ہدف دیا، جسے کپتان مہیندر سنگھ دھونی کی شاندار بیٹنگ پرفارمنس کی بدولت بھارتی ٹیم نے 49ویں اوور میں حاصل کرکے دوسری مرتبہ ورلڈکپ ٹائٹل اپنے نام کیا۔

فائنل میں 91 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے پر مہیندر سنگھ دھونی کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا جبکہ ٹورنامنٹ میں 362 رنز بنانے اور 15 وکٹیں لینے پر یوراج سنگھ کو مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔

اس ایونٹ کے دوران بنگلہ دیشی ٹیم ویسٹ انڈیز سے عبرتناک شکست کھا گئی جس کے بعد بنگالی شائقین نے ویسٹ انڈیز ٹیم پر پتھراؤ کردیا، تاہم پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پھتراؤ بنگلہ دیشی ٹیم کے لیے کیا تھا، انہیں نہیں معلوم تھا کہ بس میں مہمان ٹیم موجود ہے۔

علاوہ ازیں انتہا پسند ہندو بھارتی سیاسی جماعت شیو سنہا نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان فائنل میں کوالیفائی کر گیا تو وہ ممبئی میں فائنل منعقد نہیں ہونے دیں گے۔

فاتح ٹیم بھارت کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو — فوٹو: اسکرین شاٹ

ایونٹ میں گروپ اسٹیج کے دوران بھارت کے خلاف میچ میں امپائر نے انگلش بیٹسمین این بیل کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ نہیں دیا، جس پر دھونی نے یہ فیصلہ ڈی آر ایس سسٹم کے تحت چیلنج کیا، اس سسٹم نے بتایا کہ ایل بین اپنی کیریز سے مقررہ حد سے دور ہیں اس لیے انہیں آؤٹ قرار نہیں دیا جاسکتا، تاہم دھونی نے اس قائدے پر تنقید کی جس کے بعد آئی سی سی نے مقررہ حد کا قانون تبدیل کردیا اور امپائرز کو نئے قواعد و ضوابط جاری کردیے گئے۔

سری لنکا کے کپتان کمار سنگاکارا نے جاری ایونٹ کے دوران آئی سی سی کی جانب سے قانون کی تبدیلی کو حیران کن اور کسی ایک ٹیم کے حق میں قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ یہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب میزبان اور شریک میزبان ٹیمیں ہی فائنل تک پہنی تھیں جبکہ میزبان ملک نے کامیابی حاصل کی۔ 1996 میں جیتنے والی سری لنکا کی ٹیم بلاشبہ ایونٹ کی شریک میزبان ضرور تھی لیکن اس نے فائنل میچ پاکستان کے شہر لاہور میں کھیلا تھا جبکہ 2011 میں بھارت نے فائنل اپنے ہی شہر ممبئی میں کھیلا تھا۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): مہیندر سنگھ دھونی (بھارت) 91

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: یوراج سنگھ (بھارت) 362 رنز اور 15 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: تلکرتنے دلشان (سری لنکا) 500 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: شاہد آفریدی (پاکستان ) اور ظہیر خان (بھارت) 21، 21 وکٹیں


کرکٹ ورلڈکپ کی میزبانی ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حصے میں آئی اور دونوں ممالک نے 1992 کی طرح ’آئی سی سی ورلڈ کپ 2015 ‘ میں بھی شاندار میزبانی سے مہمان ٹیموں اور شائقین کے دل جیت لیے۔

ورلڈ کپ کا 11واں ایڈیشن 14 فروی سے 28 مارچ کے درمیان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے 7، 7 شہروں میں کھیلا گیا، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے اپنے میچز اپنے ملک میں ہی کھیلے جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا ایک گروپ میچ آسٹریلیا نے کیویز کے میدان میں ہی کھیلا۔

اس مرتبہ بھی ٹیموں کی تعداد کو 14 رکھا گیا تھا جن میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی 10 ٹیموں کے علاوہ آئی سی سی ورلڈ کپ کوالیفائر کی 2 اور آئی سی سی ورلڈکرکٹ لیگ 2011 کی بہترین 2، 2 ٹیموں نے عالمی میلے کے لیے کوالیفائی کیا۔ جن میں پہلی مرتبہ ایونٹ کا حصہ بننے والی افغانستان کے علاوہ یو اے ای، آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ شامل تھیں۔

اس ٹورنامٹ میں زیادہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور فارمیٹ کو بالکل اسی طرح رکھا گیا تھا جس طرح گزشتہ ایونٹ کے درمیان رکھا گیا تھا یعنی پہلے ٹیموں کو 7، 7 کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا جن کی سرفہرست 4، 4 ٹیموں نے ناک آؤٹ مرحلے (کوارٹر فائنل) کے لیے کوالیفائی کیا۔

گروپ اے میں شریک میزبان ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ سری لنکا، اسکاٹ لینڈ، افغانستان، انگلینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں شامل تھیں جبکہ گروپ بی دفاعی چیمپیئن بھارت، جنوبی افریقہ، پاکستان، آئرلینڈ، زمبابوے، یو اے ای اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں پر مشتمل تھا۔

اس ایونٹ کے دوران نیوزی لینڈ گروپ اے اور بھارت گروپ بی سے پہلے مرحلے کے دوران سب سے کامیاب ٹیمیں بن کر سامنے آئیں۔ نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا، سری لنکا اور انگلینڈ جیسی مظبوط ٹیموں کو زیر کیا جبکہ بھارت نے جنوبی افریقہ، پاکستان اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں کو شکست دے دوچار کیا۔

2011 کے فارمیٹ پر کھیلے جارہے اس ایونٹ میں گروپ اسٹیج کی سرفہرست 4 ٹیموں نے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جن کو درجہ بندی کے مطابق دوسرے گروپ کی 4 ٹیموں کے خلاف سیمی فائنل میں حصہ لینا تھا۔

اس ایونٹ میں گروپ اے کے ایک میچ میں بنگلہ دیش نے سنسنی خیز مقابلے کے انگلینڈ کو شکست دے کر اسے ایونٹ سے باہر کر دیا جبکہ خود نے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

اسی طرح اس گروپ کی دیگر ٹیموں میں بنگلہ دیش کے ساتھ نیوزی لینڈ، سری لنکا اور آسٹریلیا نے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جن کا مقابلہ بالترتیب گروپ بی سے کوارٹر فائنل میں کوالیفائی کرنے والی بھارت، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ اور پاکستان سے ہوا۔

کوارٹر فائنل میں اپنے حریفوں کو شکست دے کر نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ نے پہلے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں بھارت کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہوا۔ کیوز نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پروٹیاز کو شکست دے کر پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ دوسری جانب کینگروز نے بھارتی سورماؤں کو تر نوالہ بناتے ہوئے ساتویں مرتبہ ورلڈ کپ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ورلڈ کپ تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ تھا جب فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیمیں ایونٹ کی شریک میزبان تھیں، اس سے قبل 2011 ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچنے والی بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں بھی عالمی مقابلے کی شریک میزبان ٹیمیں ہی تھیں۔

گزشتہ ایونٹ کی طرح اس ایونٹ میں 2 میزبان ٹیموں کے درمیان فائنل میں سنسنی خیز مقابلے کی توقع کی جارہی تھی لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والا یہ میچ امیدوں کے برعکس یک طرفہ ثابت ہوا جہاں کینگروز نے کیویز کو دبوچ لیا۔

پورے ایونٹ میں سب سے خطرناک دکھائی دینے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم فائنل میں آسٹریلین ٹیم کے سامنے بجھی بجھی نظر آئی اور پوری ٹیم صرف 183 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئی۔ جواب میں آسٹریلین ٹیم نے مطلوبہ ہدف صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر 34ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔

اس کے ساتھ ہی آسٹریلیا نے پہلی مرتبہ اپنے ملک میں بھی ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے 1992 کے عالمی میلے میں فائنل تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ اس جیت کے ساتھ ہی آسٹریلین ٹیم کھیلیوں کی تاریخ کی وہ ٹیم بن گئی جس نے اپنے مخصوص کھیل میں دنیا کے ہر خطے میں کسی بھی کھیل کا سب سے بڑا ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

آسٹریلیا نے 1987 میں ایشیا (پاکستان، بھارت)، 1999 میں انگلینڈ (یورپ)، 2003 میں جنوبی افریقہ (افریقہ)، 2007 میں ویسٹ انڈیز (خطہ امریکا) اور 2015 میں اپنے ملک (اوشیانو) میں ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

ایونٹ کے دوران آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے میچ میں انگلش بیٹسمین جیمز ٹیلر ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار پائے تاہم ڈی آر ایس نے فیصلہ تبدیل کردیا اور انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا، تاہم ایل بی ڈبلیو کے ساتھ ساتھ وکٹ کی دوسری جیمز اینڈرسن رن آؤٹ ہوگئے۔ آئی سی سی قانون کے مطابق فیصلہ تبدیل ہونے کی وجہ سے گیند کو ’ڈیڈ بال‘ قرار دیا جاتا ہے اور رن آؤٹ بھی اوور ٹرن ہوجاتا ہے۔

فاتح ٹیم آسٹریلیا کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو — فوٹو: اسکرین شاٹ

آئرلینڈ اور زمبابوے کے درمیان ہونے والے سنسنی خیزمقابلے میں کریز پر موجود زمبابوے کے سیٹ بیٹسمین سین ویلیمز باؤنڈر پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اسٹیڈیم میں لگے 8 کیمرے یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کیا فلیڈر کا پاؤں باؤنڈری پر لگا یا نہیں، تاہم ایسے میں جیت کے قریب ہوتے ہوئے بھی سین ویلیمز فیصلے کا انتظار کیے بغیر پویلین لوٹ گئے۔

اسی طرح بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کھیلنے جانے والے کوارٹر فائنل مقابلے میں بھی ایک تنازع نے جنم لیا جب بھارتی بلے باز روہیت شرما اوور-ویسٹ-ہائی گیند پر فیلڈر کو کیچ دے بیٹھے، تاہم امپائر نے اسے نو بال قرار دیا جس کی وجہ سے روہیت شرما کو آؤٹ قرار نہیں دیا گیا۔

بنگلہ دیشی ٹیم نے اس پر سخت احتجاج کیا جبکہ اس وقت بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے آئی سی سی کے صدر مصطفیٰ کمال نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی دھمکی تھی۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا تھا کہ امپائرنگ کی غلطی کی وجہ سے بھارت میچ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ تاہم بعدازاں آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیو رچرڈسن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔


  • مین آف دی میچ (فائنل): جیمز فولکنر (آسٹریلیا) 3 وکٹیں

  • مین آف دی ٹورنامنٹ: مچل اسٹارک (آسٹریلیا) 22 وکٹیں

  • سب سے زیادہ رنز: مارٹن گپٹل (نیوزی لینڈ) 547 رنز

  • سب سے زیادہ وکٹیں: مچل اسٹارک (آسٹریلیا)، ٹرینٹ بولڈ (نیوزی لینڈ) 22، 22 وکٹیں