پاکستان

سگ گزیدگی روکنا آسان لیکن اختتام خوفناک - یہ حکومتی ریڈار پر کیوں نہیں؟

سگ گزیدگی قابل علاج ہے اور اس کی دوائیں بھی موجود ہیں، لیکن آگاہی نہ ہونے پر سیکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

آنسوؤں سے تر آنکھوں کے ساتھ درد میں کراہتے ہوئے 13 سالہ محمد افضل کو دو افراد نے مضبوطی سے تھاما اور سگ گزیدگی (کتے کے کاٹنے) کے باعث دائیں ہاتھ کی کلائی میں ہونے والے زخم کے اندر ایک نرس نے انسدادِ ریبیز ویکسین (اے آر وی) کا انجکشن لگادیا۔

اس سے قبل اس کے ہاتھ پر ریبیز امینوگلوبولین (آر آئی جی) دوا لگائی گئی تھی جو تیزی سے اثر کرنے والی ایسی دوا ہے جو جانور کے کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر ریبیز سے محفوط رکھنے کے لیے دی جاتی ہے۔

کتے کے کاٹنے کے ایک ہفتے بعد وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کراچی کے انڈس ہسپتال میں موجود تھا جہاں پہلی مرتبہ اس کے زخم کو پیشہ ورانہ طبی امداد ملی۔

ایک مریض کے زخموں کا علاج کیا جارہا ہے—فوٹو بشکریہ رپورٹر

افضل کے زخم کی ایک ہفتے سے گھر میں ہی دیکھ بھال جاری تھی جہاں اس کی والدہ اس کے زخم پر لال مرچ چھڑکتی تھیں، اس پر اس نے بتایا کہ اس کی بہن کو بھی 5 ماہ قبل کتے نے کاٹ لیا تھا اور اس پر بھی امی نے یہی کیا تھا اور اس سے اس کی بہن ٹھیک ہوگئی تھی۔

شاہ لطیف کالونی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان سائیکل پر گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک کتے نے اس پر حملہ کیا اور اس کی کلائی پر کاٹ لیا۔

انڈس ہسپتال میں انسداد ریبیز پروگرام کے منیجر محمد آفتاب گوہر کو افضل نے بتایا کہ ’میرا زخم اس وقت خراب ہوا جب میں نے کچھ روز بعد نہا لیا تھا جس کے بعد ہم ایک مقامی کلینک میں گئے جہاں کے ڈاکٹر نے ہمیں اس ہسپتال آنے کی ہدایت کی۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران کراچی کے 2 ہسپتالوں، دی انڈس ہسپتال اور جناح پوسٹ گریجویٹ میں سگ گزیدگی کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

بیماری کی علامات

سگ گزیدگی کی علامات میں ’گلے بند ہونے کا احساس‘ شامل ہے، انڈس ہسپتال میں ریبیز کی روک تھام کے کلینک میں سگ گزیدگی سے متاثر ہونے والے افراد کی قطاریں ادھر سے ادھر جارہی تھیں جبکہ دیگر مریض باہر راہداری میں انتظار کررہے تھے۔

جن میں سے کچھ زیر علاج مریض تھے تو کچھ نئے زخم والے اور کچھ مریض تھے جن کا زخم کچھ دن پرانا تھا ان میں زیادہ تر وہ تھے جن کے علاقوں میں انسداد ریبیز ویکسین دستیاب نہیں تھی۔

ایسے افراد جن کا زخم تازہ تھا انہیں باقاعدہ علاج شروع ہونے سے قبل چھوٹے سے کلینک میں ہی بنے ہوئے ایک چھوٹے سی دھلائی کی جگہ پر بٹھا کر ان کے زخم کو 20 منٹ تک صابن اور پانی سے دھویا جاتا ہے۔

اگر انفیکشن سے متاثرہ جانور کاٹ لے تو زخم کو صابن اور پانی سے دھو نے سے زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

انڈس ہسپتال میں متعدی بیماریوں کے شعبے کے سربراہ نسیم صلاح الدین جنہوں نے 2008 میں ریبیز کی روک تھام کے کلینک کی بنیاد رکھی، نے اس بیماری کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ریبیز کی علامات انفیکشن سے متاثرہ جانور (عموماً کتے) کے کاٹنے کے عموماً 6 ہفتوں بعد ظاہر ہوتی ہیں جنہیں بخار، سردرد، ٹانگوں کا درد اور گلا بند ہونے اور جلن کا احساس ہوتا ہے اور اس کے بعد پانی نگلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

جمروز خان اپنا زخم دکھا رہے ہیں۔ —فوٹو بشکریہ رپورٹر

عالمی ادارہ صحت کے تصدیق شدہ ریبیز کی نگرانی اور روک تھام کے ماہر گوہر نے بتایا کہ انڈس ہسپتال میں قائم ریبیز کی روک تھام کے کلینک میں روزانہ 30 نئے مریض آتے ہیں اور اگر اس میں زیر علاج مریضوں کو شامل کرلیا جائے تو ایک روز میں مریضوں کی تعداد 80 ہوجاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ریبیز مکمل طور پر ویکسین سے رکنے والا مرض ہے جو لوگوں میں جانور کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، عموماً وائرس سے متاثرہ کتے سے اور ایک بار جب علامات ظاہر ہوجائیں تو یہ ہمیشہ تقریباً موت کی وجہ بن جاتی ہیں۔

ڈاکٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ریبییز کے مریضوں کے آخری لمحات بہت ہولناک ہوتے ہیں جس میں وہ اپنا تھوک نگلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن گلا بند ہوجاتا ہے۔

روازنہ 100 سے زائد کتے کے کاٹنے سے ہونے والے زخموں کا علاج

کراچی میں سول ہسپتال کراچی ( سی ایچ کے)، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں کتے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج جاری ہے۔

گوہر نے کہا کہ 'انڈس اور جے پی ایم سی میں دو بڑے سینٹرز اس لیے سول ہسپتال اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی جانب سے بچوں کو ہمارے پاس منتقل کردیا جاتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ روازنہ کتے کے کاٹنے کا شکار افراد کی بڑی تعداد کے لیے یہ کافی نہیں ہیں۔ جے پی ایم سی ریبیز پری وینشن کلینک میں روازنہ 100 سے 140 افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔

گزشتہ 6 ماہ میں کلینک میں سگ گزیدگی سے متاثرہ 5 ہزار 4 افراد کا علاج کیا جاچکا ہے، 2018 میں یہ تعداد 7 ہزار 9 سو تھی اور تمام افراد کو انسداد ریبیز ویکسین دی گئی تھی۔

2018 ہی میں ہسپتال میں 9 مریض ایسے آئے تھے جو ریبیز سے شدید متاثر تھے اور انہیں ویکسین بھی نہیں دی گئی تھی۔

ارضا صدیقی جب اپنے گھر سے دودھ لینے کیلئے نکلے تو انہیں آوارہ کتے نے کاٹ لیا۔ —فوٹو بشکریہ رپورٹر

گوہر نے بتایا کہ رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں انڈس ہسپتال میں 35 ہزار مریضوں کو ویکسین دی گئی، اکثر مریضوں کو سول ہسپتال کراچی میں بھیجا گیا تھا۔

سیمی جمالی نے کہا کہ ' شہر میں سڑک پر گھومتے ہوئے آوارہ کتوں کی تعداد اور کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے'۔

وہ جے پی ایم سی ایمرجنسی میں ڈاگ بائٹ کلینک اور ریبیز پروینشن سینٹر کی سربراہی کررہی ہیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا ' 2018 میں سگ گزیدگی سے متاثر تمام 9 افراد 24 گھنٹے میں انتقال کرگئے تھے، ہمارے پاس آنے سے قبل انہیں ویکسین نہیں دی گئی تھی، اس وقت ہم انہیں صرف آرام ہی فراہم کرسکتے تھے، ہم نے ان مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے ان کے آخری لمحات آسان بنانے کی کوشش کی'۔

ڈاکٹر صلاح الدین نے کہا کہ ' یہ غریب افراد کی بیماری ہے'، بین الاقوامی سطح پر بھی یہ عالمی ادارہ صحت کی نظر انداز کی جانے والی بیماریوں کی فہرست پر ہے۔

بچاؤ ہونے کے باوجود اس کا خاتمہ انتہائی ہولناک ہے اور ریبیز حکومت کے ریڈار میں رہتا ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ گزشتہ 12 سال سے صوبائی حکومت کی جانب سے مقامی حکومت کو اس کے اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے، کراچی میں شہر کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔

ویکسین کی کمی

ٹی آئی ایچ اور جے پی ایم سی کے ماہرین نے ویکسین کی کمی کی شکایت کی۔

ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ ’برآمدی ادویات کا حصول اتنا آسان نہیں ہوتا‘۔

گوہر نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ایک والد اپنے 11 سالہ بیٹے کو شکارپور سے ہمارے کلینک لے کر آئے، بچے کو چند ہفتے قبل ہی کتے نے کاٹا تھا، بچے کے والد نے شکارپور اور لاڑکانہ کے مختلف کلینکس میں ویکسین کے حصول کے لیے چکر لگائے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ ہمارے کلینک پہنچے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

گوہر کا کہنا تھا کہ اگر کتے کے متاثرہ شخص کو بروقت ویکسین مل جائے تو اس کے بچ جانے کے قوی امکانات ہوتے ہیں ورنہ ریبیز کا مرض جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فرانس اور جرمنی کی ویکسین موثر ہیں لیکن ان کے سفری اخراجات غیر معمولی مہنگے پڑتے ہیں جبکہ بھارت سے برآمد کی گئی ویکسین پر کم خرچہ آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال سے پڑوسی ملک سے ویکسین کا حصول بہت مشکل ہوگیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ قلت کی وجوہات کیا ہیں۔

انڈس ہسپتال کراچی میں بھارت سے درآمد شدہ ادویات استعمال ہوتی ہیں۔—فوٹو بشکریہ لکھاری

اگر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی بدولت ویکسین کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، وزارت صحت کے ماتحت خودمختار ادارہ این آئی ایچ 1960 میں قائم ہوا اور گزشتہ 40 برس سے جان بچانے والی ادویات کی تیاری اور اسے بنانے میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔

این آئی ایچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عامراکرام نے فون پر بتایا کہ ہم ریبیز کی ویکسین بنارہے ہیں اور محدود پیمانے پر اعلیٰ درجے کا اے آر وی بھی تیار کررہے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ہماری بنائی گئی سیرم اور ویکسین صرف پبلک ہسپتال کے لیے میسر ہوگی، مارکیٹ کے لیے نہیں‘۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ’رواں برس کے آغاز سے اب تک این آئی ایچ کی لیب میں 2 لاکھ سیرم پر مشتمل ویکسین تیار کی گئیں اور اگر فنڈنگ جاری رہی تو ہم دسمبر تک 4 لاکھ ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ادارہ 6 لاکھ اے آر وی تیار کرسکے گا جبکہ اس کی طلب 10 لاکھ سے زائد ہے۔

مسئلے کی جانچ

دنیا بھر میں سالانہ 6 ہزار کے قریب ایسی اموات ہوتی ہیں، پاکستان میں سگ گزیدگی کے رپورٹ کیے جانے والے کیسز اور یہاں تک کہ ریبیز سے ہونے والی اموات کا درست ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے کوئی مرکزی رجسٹری موجود نہیں ہے۔

ویکسینیشن کیلئے کتے کو پکڑا جارہا ہے۔ —فوٹو بشکریہ انڈس ہسپتال

ڈاکٹر صلاح الدین نے کہا کہ کتے کے کاٹنے سے متاثر افراد کی تعداد کئی ہزار میں ہے۔

حکومت شاید ملک میں کتوں کی آبادی کی گنتی کرنے میں دلچسپی نہیں کرتی، 2008 سے 2010 کے دوران انٹرایکٹو ریسرچ اینڈ ڈیولمپنٹ اور انڈس ہسپتال کے اشتراک سے نیشنل ڈاگ بائٹ اینڈ ریبیز کی نگرانی کی گئی تھی۔

تحقیق میں شامل کیے گئے 9 ہیلتھ سینٹرز نے ریبیز کے باعث 367 اموات رپورٹ کی تھیں، تحقیق کے مطابق شہروں سے 76.8 فیصد کیسز اور دیہی علاقوں سے 23.2 فیصد سامنے آئے۔

اس کے مطابق 83 فیصد مرد اور 17 فیصد خواتین کتے کے کاٹنے کا شکار ہوئے جن میں اکثر کی عمریں 10 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔

اختر نے کہا کہ ' ہمارے پالیسی سازوں کو تشویش نہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ تنگ علاقوں میں چلنا یا سائیکل چلانا کیسا ہے جہاں آوارہ کتے حملے کے لیے تیار رہتے ہیں'۔

سیمی جمالی لوگوں کو سست روی کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ریبیز کے خطرات سے متعلق آگاہی کی کمی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ' وہ کتے کے کاٹنے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں اکثر مرتبہ بچے اپنے والدین کو کتے کے کاٹنے سےمتعلق نہیں بتاتے'۔

سیمی جمالی نے کہا کہ ' اس کے بعد مائیں عام طور پر کچھ گھریلو ٹوٹکے کرتی ہیں، اگر وہ کام نہیں کرتے تو کسی پیر /فقیر کے پاس لے جاتی ہے جو زخم پر جڑی بوٹی لگادیتے ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ 'جب دوروں کے شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ مریض پر کسی جن کا سایہ اور وہ پیر/ فقیر سے مدد جاری رکھتے ہیں یہاں تک کہ مریض مرجاتا ہے'۔

اپنے 30 سالہ کیرئیر میں سیمی جمالی نے جے پی ایم سی سے ریبیز سے 60 ہلاکتیں دیکھیں جن میں اکثر بچے شامل تھے۔

کراچی کو ریبیز فری بنانا

ڈبلیو ایچ او دنیا بھر سے 2030 تک ریبیز کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے لیکن ڈاکٹر صلاح الدین نہیں سمجھتے کہ پاکستان اس فہرست میں شامل ہوسکتا ہے جہاں ریبیز کا وجود ہی نہ رہے۔

ان کا پہلا ردعمل تھا کہ ’ہرگز ممکن نہیں، ہم اپنے انداز میں آگے کی سمت میں بڑھ رہے ہیں‘۔

کراچی کے علاقے کورنگی میں ویکسینیشن کیلئے آر ایف کے کا کنٹینر موجود ہے۔ —فوٹو بشکریہ انڈس ہسپتال

انہوں نے قدرے محتاط انداز میں کہا ’چونکہ ہمارے پاس کوئی نگراں ادارہ نہیں، اس لیے ہمیں واقعات کے بارے میں معلومات نہیں ہیں‘۔

ڈاکٹر صلاح الدین نے کہا ’جو لوگ ریبیز کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں اس پر دل انتہائی افسردہ ہوتا ہے اور پاکستان کے ہیلتھ کیئر نظام کی خرابی پر مایوسی ہوتی ہے‘

ٹی آئی ایچ کی تمام تر توجہ کراچی کو ریبیز سے پاک کرنے پر ہے اور کے ایم سی کے ساتھ ڈاکٹر صلاح الدین کی شراکت داری ہے۔

کراچی میں گزشتہ برس آر ایف کے مہم کا آغاز ابراہیم حیدری نامی علاقے سے ہوا جس کے بارے میں خیال ہے کہ کراچی میں ریبیز کی بیماری کی وبا ادھر ہی سے شروع ہوئی۔

گوہر کے خیال میں آوارہ کتوں کو جان سے مار دینا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ غیر انسانی سلوک ہے تاہم وبا کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم ہے۔

آوارہ کتے کو سرجری کے بعد رہا کردیا جاتا ہے۔ — فوٹو بشکریہ انڈس ہسپتال

گوہر نے وضاحت کی کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر 70 فیصد کتوں کو ویکسینیشن کردی جائے تو وبا نہیں پھیلے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک تقریباً 3 ہزار 500 کتوں کی ویکسین ہوچکی ہے جبکہ 15 سو پالتو بنائے جا چکے ہیں۔

ان کے مطابق یہ طرز عمل سری لنکا، بھوٹان اور فلپائن میں کامیاب رہا۔

جانوروں کے حقوق کی سماجی رکن عائشہ چندریگر کے مطابق میرا خیال ہے کہ ریبیز فری کراچی بہت اہم منصوبہ ہے لیکن منصوبے کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے سائنسی بنیادوں پر تحقیق ہونی چاہیے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے فعال اے سی ایف سماجی ادارے کی سربراہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر ناپسندیدہ یا خاص وجہ سے جانوروں کو مارنے کی مہم پر 6 ماہ پابندی عائد کردی گئی۔

عائشہ چندریگر کا ماننا ہے کہ سوسائٹی کو جانوروں کے حقوق سے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگی کا برتاؤ کریں۔

دوسری جانب گوہر نے بتایا کہ منصوبے میں کراچی کے تجربہ کار جانوروں کے ڈاکٹرز، سماجی رکن، ڈاکٹرز اور محققین نے حصہ لیا لیکن اس سے قبل آوارہ کتوں کی گنتی کی گئی اور عالمی ماہرین نے ویکسینیٹر ٹیم اور کتوں کو پکڑنے والی ٹیم کی تربیت کی۔

انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او نے 50 ہزار ویکسین فراہم کی جبکہ بلدیاتی حکومت نے 2 کروڑ روپے کے فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس میں سے صرف 25 فیصد فراہم کیے گئے مگر ٹی آئی ایچ نے درکار رقم کے لیے سول سوسائٹی اور دیگر سے رابطہ قائم کرکے اپنی ضرورت پوری کی۔

کراچی میئر وسیم اختر نے فنڈز کی عدم فراہمی پر کہا کہ ایسی مہم کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت سے فنڈز نکالنا ’بہت بڑا ٹاسک‘ ہے، ایسے وقت پر جب میں اپنے میونسپل ملازمین کی تنخواہیں بھی نہ نکال سکوں۔

کورنگی میں آوارہ کتوں کو پکڑنے کیلئے آر ایف کے کے رضا کار اپنے آلات کے ہمراہ — فوٹو بشکریہ انڈس ہسپتال

انہوں نے مزید کہا کہ ’کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے جس کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، فنڈز کی عدم موجودگی سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘۔

وسیم اختر نے کراچی کو ریبیز سے فری کرنے کے لیے منصوبہ کو پورے شہر تک پھیلانے پر زور دیا اور اس ضمن میں ہر شخص کو جگانے کا کہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس مسئلے پر کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر کام کیا جائے‘۔

گزشتہ برس سے ابراہیم حیدری میں ریبیز کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا جو منصوبے کی کامیابی کی علامت ہے۔

اب منصوبے کو کورنگی، لانڈھی اور لیاری میں شروع کردیا گیا ہے اور تمام علاقے میں ٹی آئی ایچ کی 8 ٹیمیں اب تک 15 ہزار کتوں کو ویکسین دے چکی ہیں۔

کراچی کو ریبیز سے فری بنانے کے لیے منصوبے کو پورے شہر تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔


زوفین ٹی ابراہیم کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ ماضی میں روز مرہ کے مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی، پانی، توانائی، قابل تجدید ذرائع، حفظان صحت، بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق بیماریوں اور صحت لکھتی رہی ہیں۔
وہ اس وقت دی تھرڈ پول سے بطور ایڈیٹر پاکستان وابستہ ہیں۔