’گورا قبرستان‘ گمنام تاریخ کا المیہ
پرانے زمانے میں تاریخ کو محفوظ یا اسے مرتب کرنے کا واحد طریقہ آباؤ اجداد سے سنی گئی داستانوں کو تحریر یا پھر زبانی طور پر اپنی اگلی نسل تک پہنچانا ہوتا تھا۔
دنیا کے تمام خطوں کی تاریخ اسی طرح سے ہی صدیوں کا سفر طے کرکے نئی نسل تک پہنچی، تاہم برصغیر کے مقابلے میں دنیا کے دیگر خطوں نے کم سے کم 500 سال قبل اپنی صدیوں پرانی تاریخ کو تحریر کرکے اسے محفوظ اور مستند بنانا شروع کر دیا تھا۔
دیگر خطوں کے مقابلے میں برصغیر پاک و ہند میں پرانی نسل سے نئی نسل تک تاریخ کو زبانی طور پر منتقل کیے جانے کا سلسلہ محض 50 سال قبل ہی ختم ہوا، اس سے قبل صدیوں سے ایک دوسرے کو تاریخ کے قصے اور کہانیاں سنا کر فخر محسوس کیا جاتا تھا۔
تاریخ کو بہادری کے قصے کے طور پر سنائے جانے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ آج برصغیر کی تاریخ میں کافی حصہ درست علم سے دور نظر آتا ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک تاریخی مقام یا واقعے کو اندازوں سے مختلف بیان کیا جاتا ہے۔
درست تاریخ نہ ہونے کے نقصانات کا اندازہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع مسیحیوں کے تاریخی ’گورا قبرستان‘ کی گمنام اور غیر مستند تاریخ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس سے بڑھ کر المیہ یہ بھی ہے کہ خود کراچی کی ہی درست تاریخ کو مرتب نہیں کیا جا سکا۔
تاریخ کو درست انداز میں مرتب نہ کرنا ہی شاید تاریخ کی خوبصورتی ہوتی ہے، کیوں کہ دنیا کی عظیم تاریخیں ایک یا دو صدی کے سفر پر نہیں بلکہ کئی صدیوں کے سفر پر محیط ہوتی ہیں۔
اور کراچی کے گورا قبرستان کی تاریخ بھی کم سے کم ڈھائی سو سال پر محیط ہے۔
کراچی کی مصروف ترین سڑک’شاہراہ فیصل‘ پر واقع مسیحی برادری کے اس قبرستان کو ملک کے سب سے بڑے مسیحی اور تاریخی قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔