پاکستان

’گورا قبرستان‘ گمنام تاریخ کا المیہ

کم سے کم ڈھائی سو سال قبل بنے قبرستان کی 2 ہزار سے زائد قبروں میں تین لاکھ سے زائد مردے دفن ہیں۔
|

پرانے زمانے میں تاریخ کو محفوظ یا اسے مرتب کرنے کا واحد طریقہ آباؤ اجداد سے سنی گئی داستانوں کو تحریر یا پھر زبانی طور پر اپنی اگلی نسل تک پہنچانا ہوتا تھا۔

دنیا کے تمام خطوں کی تاریخ اسی طرح سے ہی صدیوں کا سفر طے کرکے نئی نسل تک پہنچی، تاہم برصغیر کے مقابلے میں دنیا کے دیگر خطوں نے کم سے کم 500 سال قبل اپنی صدیوں پرانی تاریخ کو تحریر کرکے اسے محفوظ اور مستند بنانا شروع کر دیا تھا۔

دیگر خطوں کے مقابلے میں برصغیر پاک و ہند میں پرانی نسل سے نئی نسل تک تاریخ کو زبانی طور پر منتقل کیے جانے کا سلسلہ محض 50 سال قبل ہی ختم ہوا، اس سے قبل صدیوں سے ایک دوسرے کو تاریخ کے قصے اور کہانیاں سنا کر فخر محسوس کیا جاتا تھا۔

تاریخ کو بہادری کے قصے کے طور پر سنائے جانے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ آج برصغیر کی تاریخ میں کافی حصہ درست علم سے دور نظر آتا ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک تاریخی مقام یا واقعے کو اندازوں سے مختلف بیان کیا جاتا ہے۔

درست تاریخ نہ ہونے کے نقصانات کا اندازہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع مسیحیوں کے تاریخی ’گورا قبرستان‘ کی گمنام اور غیر مستند تاریخ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

اس سے بڑھ کر المیہ یہ بھی ہے کہ خود کراچی کی ہی درست تاریخ کو مرتب نہیں کیا جا سکا۔

تاریخ کو درست انداز میں مرتب نہ کرنا ہی شاید تاریخ کی خوبصورتی ہوتی ہے، کیوں کہ دنیا کی عظیم تاریخیں ایک یا دو صدی کے سفر پر نہیں بلکہ کئی صدیوں کے سفر پر محیط ہوتی ہیں۔

اور کراچی کے گورا قبرستان کی تاریخ بھی کم سے کم ڈھائی سو سال پر محیط ہے۔

کراچی کی مصروف ترین سڑک’شاہراہ فیصل‘ پر واقع مسیحی برادری کے اس قبرستان کو ملک کے سب سے بڑے مسیحی اور تاریخی قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

گمنام تاریخ کے حامل اس قبرستان کے حوالے سے گورا قبرستان کے سیکریٹری ایڈمنسٹریشن انور سردار خان نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جانب سے ذمہ داریاں سنبھالے جانے سے قبل کسی نے بھی قبرستان کی تاریخ اور ڈیٹا مرتب کرنے کو اہمیت نہیں دی جبلپ انہوں نے آنے کے بعد قبرستان کی تاریخ کو مرتب کرنا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 1930 سے لے کر اب تک کا ریکارڈ مرتب کیا ہے اور اب قبرستان میں دفنائے جانے والے ہر مردے کا ریکارڈ بنایا جا رہا ہے۔

انور سرار خان کے مطابق ان کی جانب سے مرتب کیے گئے ریکارڈ کے مطابق اس وقت 2000 ہزار سے زائد قبریں ہیں جن میں 3 لاکھ کے قریب لوگ دفن ہیں۔

اگرچہ گورا قبرستان کی مستند تاریخ موجود نہیں ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس قبرستان کو برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے فوری بعد بنایا گیا۔

برصغیر میں انگریزوں کی آمد ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے تحت 1600ء میں ہوئی تھی جبکہ انگریزوں نے اسی کمپنی کے تحت بتدریج برصغیر کے لوگوں کو اقتصادی غلام بنائے رکھا جبکہ یہ سلسلہ 1857 تک جاری رہی جب متحدہ ہندوستان کے عوام نے اس کمپنی کے خلاف بغاوت نہ کی۔

ہندوستانیوں کی بغاوت کے بعد برطانیہ کے شاہی خاندان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے 1858ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 جاری کرتے ہوئے برصغیر کے معاملات تاج برطانیہ کے ماتحت کردیئے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ کراچی کے گورا قبرستان سمیت برصغیر کے متعدد شہروں میں انگریزوں نے اپنی آمد کے فوری بعد ہی قبرستان بنانا شروع کیے ہوں گے۔

زیادہ تر مؤرخین کا ماننا ہے کہ موجودہ پاکستان (متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی خطے) میں انگریزوں نے انیسویں صدی آغاز میں ہی دلچسپی لی اور آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔

انگریزوں کی جانب سے موجودہ پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھائے جانے کے بعد گوروں نے یہاں رہائش کے لیے جہاں شاندار عمارتیں بنائیں، وہیں ہسپتال، تعلیمی ادارے اور گورا قبرستان جیسے مدفون بنانا شروع کیے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کراچی کا گورا قبرستان انڈیا ایکٹ 1858 سے قبل ہی بنایا گیا ہوگا۔

زیادہ تر مؤرخین کا ماننا ہے کہ گورا قبرستان کو 1850 سے قبل ہی بنایا گیا تھا۔

عین ممکن ہے کہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی گورا قبرستان کو بنایا گیا ہے، تاہم زیادہ تر تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ کراچی میں گورا قبرستان کو 1850 سے قبل بنایا گیا ہوگا۔

اس قبرستان کو گورا قبرستان کب سے اور کیوں پکارا جانے لگا، اس حوالے سے بھی کوئی مستند حوالہ موجود نہیں، تاہم اس قبرستان سے منسلک عہدیدار کہتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں اسے بنایا گیا اس لیے اسے ان کی نسبت سے گورا قبرستان پکارا جانے لگا۔

انگریز بنیادی طور پر برطانیہ کے گورے مانے جاتے تھے، برصغیر پر ان کے قبضے کے بعد مقامی لوگ نفرت سے انہیں ’گوروں‘ کے نام سے پکارتے تھے جبکہ وہ جس بھی مقام کو اپنے استعمال میں لاتے تھے، اسے گوروں کے زیر استعمال مقام کے طور پر یاد رکھا جاتا تھا۔

چھبیس ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد کس سال میں رکھی گئی اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے، تاہم اس قبرستان میں اب بھی سب سے پرانی انیسویں صدے کے آخر کی قبر 1885ء کی موجود ہے۔

قبرستان کی سب ہی پرانی قبریں اس وقت انتہائی خستہ حالت میں ہیں، جبکہ قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والے گورکنوں اور ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ بہت ساری قبریں مسمار بھی ہوئی ہوں گی، عین ممکن ہے کہ 1885ء سے قبل کی قبریں زمین میں دھنس گئی ہوں، تاہم اس حوالے سے تصدیقی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

قبرستان میں 1887 اور 1891 کی قبریں بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، جن پر اُسی زمانے کے قیمتی پتھر سجائے گئے تھے، ان پر سال اور تاریخیں درج ہیں۔

قبرستان میں موجود مسیحی پولیس اہلکار کی قبر— فوٹو: وقار محمد خان

تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اس قبرستان کو ابتدائی طور پر گوروں نے بنایا جس کے بعد یہاں پر جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سمیت انگریزوں اور برصغیر کے لوگوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں میں مارے جانے والے انگریز سرکار کے عہدیدار اور عام انگریز شہریوں کو دفنایا جانے لگا۔

انور سردار خان کے مطابق لیکن حقیقت یہی ہے کہ گورا قبرستان کی ایک قبر میں3 سے 4 آدمی دفن ہیں، جگہ کی کمی اور مجبوری کے باعث گورکن بڑی مہارت سے ایک قبر میں ایک سے زائد لوگ دفناتے رہے ہیں۔

قبرستان کے اخراجات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے 2 درجن کے قریب ملازمین ہیں، فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے ایڈمنسٹرین تنخواہ کی ادائیگی میں مشکل کا سامنا رہتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گورا قبرستان میں پاکستان میں موجود سفارتخانوں کے عہدیدار بھی مدفون ہیں، تاہم کس ملک کے کتنے عہدیدار یہاں مدفون ہیں، اس کا درست ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا سکا۔

انور خان کے مطابق انہیں گورا قبرستان میں غیر ملکی سفارتخانوں کے مدفون ہونے کا پتہ اس وقت لگا جب ان کے آنے کے بعد ملک میں موجود سفارتخانوں کے عہدیداروں نے ان سے رابطہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گورا قبرستان میں سب سے زیادہ یورپی ممالک اور خاص طور پر انگلینڈ او پولینڈ کے لوگ دفن ہیں جب کہ جاپان اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کے شہری بھی یہاں دفن ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا نہیں خیال کہ گورا قبرستان میں امریکی سفارتخانے کے اہلکار یا کوئی امریکی شہر دفن ہے، کیوں کہ اب تک امریکی سفارتخانے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ غیر ملکی سفارتخانے اپنے شہریوں اور عہدیداروں کے یہاں دفن ہونے کے باوجود قبرستان انتطامیہ کی مالی معاونت نہیں کر رہے۔

انور سردار خان نے انکشاف کیا کہ بعض غیر ملکی سفارتخانے انہیں سالانہ 10 سے 15 ہزار روپے کی مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے قبرستان کی دیکھ بھال اور اسے محفوظ بنانے کے لیے فنڈنگ کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں صوبائی محکمہ اوقاف سمیت کسی سرکاری ادارے سے کوئی فنڈ نہیں ملتے۔

قبرستان انتظامیہ قبروں کی فیس سے ہونے والی کمائی سے اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ چرچ آف پاکستان بھی ان کی تھوڑی بہت مالی معاونت کر رہا ہے۔

قبرستان میں اسکاٹ لینڈ، انگلیڈ کے علاوہ جاپانی افراد کی قبریں بھی موجود ہیں—فوٹو: وقار محمد خان

سیکریٹری قبرستان کا کہنا تھا کہ مالی مسائل کی وجہ سے ہی وہ قبرستان کی مناسب دیکھ بھال کے انتظامات کرنے سے قاصر ہیں، تاہم پھر بھی وہ بہتر سے بہتر انتطامات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مالی مسائل کی وجہ سے جہاں قبرستان انتظامیہ کو ملازمین کو تنخواہیں دینے میں مشکلات ہوتی ہیں، وہیں انتظامیہ قبرستان کی چار دیواری بنوانے اور قبرستان کی صفائی کروانے میں بھی مشکلات کا شکار ہے۔

چھبیس ایکڑ سے زائد پر مشتمل اس قبرستان کی چار دیواری تقریبا چاروں طرف سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور وہ بمشکل تین سے چار فٹ اونچی ہے، جس وجہ سے آتے جاتے لوگ کچرا قبرستان کے اندر پھینکتے ہیں، آوارہ کتے بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

گورا قبرستان کو دو اطراف سے آبادی اور باقی دو اطراف سے حکومتی منصوبوں سے خطرہ ہے۔

قبرستان کے سامنے اور دائیں جانب معروف سڑک شاہراہ فیصل ہے جبکہ حکومت اس روڈ کو خوبصورت اور کشادہ بنانے کے لیے نئے تعمیراتی منصوبے بنا چکی ہے اور ان ہی منصوبوں سے گورا قبرستان کے دو اطراف متاثر ہوتے ہیں۔

اسی طرح قبرستان کے 2 دو اطراف آبادی کے گھیرے میں ہیں جبکہ وہاں سے پھینکے جانے والے کچرے سمیت تجاوزات اس تاریخی قبرستان کی بقا لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

قبرستان کے پیچھے اور بائیں جانے گزشتہ ایک دہائی میں بہت زیادہ آبادی بڑھ چکی ہے جبکہ قبرستان کی چار دیواری کے اوپر بھی گھروں کی دیواریں بن چکی ہیں۔

قبرستان کی چار دیواری کے اوپر دیواریں بنا کر بنائے گئے گھروں کی جانب سے قبرستان میں کچرا پھینکنا معمول بن چکا ہے، جس وجہ سے آبادی کے قریب بنی قبریں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ وہاں کچرا پھینکے جانے کی وجہ سے سیم اور تھور ہو چکا ہے۔

آبادی کی جانب سے پھینکے جانے والے کچرے اور تجاوزات سے قبرستان میں قائم برطانوی راج میں کراچی کے کلیکٹر سر ہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی ”فلس لوئس لارینس“ کی قبر بھی متاثر ہو رہی ہے

فلس لوئس لاررینس کراچی کی مشہور سماجی شخصیت تھے—فائل فوٹو: ڈائیو میڈیا ڈاٹ کام

آبادی کے بلکل قریب موجود فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی 1912ء کی تاریخ درج ہے جبکہ قبر کے لیے مغل دور کی طرز تعمیر پر الگ کوٹھڑی بنائی گئی ہے۔

فلس لوئس کے3 بچے تھے اوران کی موت ایک روڈ حادثے میں ہوئی تھی، ان کی یاد میں کراچی کے معروف لیڈی ڈفرن ہسپتال میں مڈ وائفری انسٹی ٹیوٹ بھی موجود ہے۔

گورا قبرستان میں موجود ان کی قبر پر بنائی گئی کوٹھڑی سے متعلق مقامی مؤرخ کہتے ہیں کہ فلس لوئس سے ان کے شوہر ہینری اسٹیولی کو شدید محبت تھی، جس وجہ سے انہوں نے بیوی کی یاد میں قبرستان کے کونے میں الگ کوٹھی بنوائی، جو اس وقت رہائشی آبادی کے گھیرے میں آچکی ہے۔

فلس لوئس کی قبر کا مقبرہ 1912 میں ہی بنایا گیا تھا—فوٹو: اولڈ کراچی فیس بک پیج

کوٹھڑی کے دائیں، بائیں اور سامنے والی طرف سے آبادی کے گھر بن چکے ہیں جبکہ فارغ اوقات میں آبادی کے بچے وہاں کرکٹ بھی کھیلنے آیا کرتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ قبرستان کے پیچھے بڑھتی ہوئی رہائشی آبادی نے قبرستان کے ایک حصے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی جگہ کے طور پر استعمال کر رکھا ہے۔ قبرستان انتظامیہ کی جانب سے بار بار کہنے کے باوجود رہائشی آبادی نے کچرہ پھینکنے کے سلسلے کو ختم نہیں کیا بلکہ الٹا قبرستان انتظامیہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

انور سردار خان کا کہنا تھا کہ قبرستان کی چار دیواری پر دیواریں بنا کر بنائے گھر تجاوزات ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس گورا قبرستان کی اراضی کا درست نقشہ موجود ہوتا تو وہ قبرستان کے قریب گھر بنانے والے افراد کے خلاف عدالت میں جاتے، تاہم ان کے پاس قبرستان کا نقشہ نہیں، اس لیے وہ مجبور ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آبادی والی طرف سے قبرستان کی چاردیواری چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہاں کے بچے دیوار چڑھ کر قبرستان میں کرکٹ کھیلنے آتے ہیں اور اس عمل کے دوران قبروں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

ان کے مطابق انہوں نے متعدد بار آبادی والوں کو قبرستان میں کچرا نہ پھینکنے اور وہاں کرکٹ کھیلنے سے منع کی درخواست کی ہے، تاہم ان کی جانب سے ایسا کرنے پر بعض مرتبہ جھگڑے کی نوعیت ہو جاتی ہے، اس لیے وہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے حکومت، فلاحی اداروں اور پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارتخانوں سے قبرستان کی مالی مدد کرکے چاردیواری کو 6 فٹ تک اونچا کرنے اور قبرستان میں نئی مٹی کی بھرائی کرنے کی درخواست بھی کی۔

انہوں نے تجازات اور گندگی کو قبرستان کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے تاریخی قبرستان کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے قبرستان کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے بتایا کہ اس کے 4 ممبران ہوتے ہیں، جن میں سے 2 پروٹیسٹنٹ اور 2 رومن کیتھولک فرقے کے ممبران ہیں جبکہ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن کو چرچ آف پاکستان مقرر کرتا ہے، جس کی مدت 5 برس ہوتی ہے،اس مدت کے بعدانتخابات کے تحت ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری کو منتخب کیا جاتا ہے، جو قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے چرچ آف پاکستان کے نمائندے کا کام کرتا ہے ۔

قبرستان کے سیکریٹری ایڈمن سردار انور خان کا کہنا تھاکہ گورا قبرستان چرچ آف پاکستان اور رومن کیتھولک کے ماتحت کام کرتا ہے، لیکن قبرستان میں مسحیحیوں کے دونوں فرقوں کے لوگ دفن ہیں۔ انور سردار خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسیحیت میں فرقوں کی کوئی تکرار نہیں ہے ،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قبرستان میں پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک فرقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دفن ہیں جبکہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبران بھی دونوں فرقوں سے لئے جاتے ہیں۔

انور سردار خان دوسری بار قبرستان کے سیکریٹری ایڈمنسٹریٹر منتخب ہوئے ہیں، وہ ماضی میں مقامی انتخابات میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں اور ان کے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں۔

جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسیحی صلیب

تاریخی قبرستان کے کلفٹن روڈ پر واقع مرکزی دروازے پر بلند و بالا صلیب بنایا گیا ہے جو کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا صلیب مانا جاتا ہے۔

یہ صلیب 140 فٹ اونچا ہے اور اس کی بنیادیں 20 فٹ تک اندر زمین میں دھنسی ہوئی ہیں۔

ابتدائی طور پر اس صلیب کو بلٹ اور بلاسٹ پروف بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، تاہم اب اسے صرف سادہ کنکریٹ سے تیار کیا جا چکا ہے۔

صلیب کو بلٹ اور بلاسٹ پروف نہ بنانے کے حوالے سے قبرستان انتظامیہ کا کہنا تھا کہ صلیب کی تعمیر کے وقت انہیں بعض نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔

جنوبی ایشیا کے اس بلند ترین مسیحی نشان کو بنانے کے لیے مسیحی صنعت کار پرویزگل ہینری خاندان نے عطیہ فراہم کیا۔

انور سردار خان کا کہنا تھا کہ پرویز ہینری گل خاندان نے اس صلیب کو دنیا کو پاکستان کا سافٹ امیج دکھانے کےلیے بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی ملک میں مسیحی نشان کے بلند و بالا بنائے جانے سے اب دنیا میں یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام مذہبی آزادیاں حاصل ہیں اور انہیں اپنے مذہبی نشانات یا رسومات کو ادا کرنے میں کوئی پریشانی نہیں۔

ان کے مطابق جہاں تک انہیں علم ہے کہ یہ صلیب جنوبی ایشیا کا کنکریٹ سے بنا سب سے بڑا صلیب ہے۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر

تاریخی قبرستان میں پاکستان کی مدر ٹریسا کہلائی جانے والی جرمن نژاد پاکستانی سماجی رہنما اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر بھی موجود ہے۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ جرمنی کے صوبے زاکسن کے چھوٹے سے گاؤں لائپزگ میں 9 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئیں اوروہ8 مارچ 1960 کو پاکستان میں جذام کے مریضوں کا علاج کرنے پہنچیں اور آتے ہی انہوں نے کراچی سے اپنا کام شروع کردیا۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ 1963 تک ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں 80 بستروں پر مشتمل لیپروسی سینٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں، اگلے 2 سال میں انہوں نے لیپروسی کے مرض کا علاج کرنے کے لیے رضا کاروں کو تربیت دینے کے لیے ’نیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ آف لیپروسی‘ قائم کیا۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کی وجہ سے ہی پاکستان 1996 میں جذام فری ملک بنا، انہیں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان اور جرمنی کی حکومتوں کے علاوہ دیگر ممالک کی حکومتوں نے بھی ایوارڈز دیے۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ نے زندگی کے آخری ایام تک انسانی خدمت اور کام کو ترجیح دی اور دنیا سے کوچ کرنے سے ایک سال قبل 2016 میں انہوں نے بچوں کی پیدائش، ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے منفرد پروگرام کا آغاز بھی کیا۔

پاکستان کے لیے سال 2017 برا ثابت ہوا اور 10 اگست کو ڈاکٹر رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔

اپنی محسن کی موت پر پوری قوم افسردہ دکھائی دی جبکہ حکومت نے انہیں مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ گورا قبرستان میں سپرد خاک کیا۔

ڈاکٹ رتھ فاؤ کی قبر پاکستان کی وہ پہلی قبر بھی ہے جسے ڈیجیٹل قبر کا اعزاز حاصل ہے، ان کی قبر کے ماربل کے اوپر کیو آر کوڈ کنندا کیا ہے، جسے کسی بھی اسمارٹ فون پر اسکین کرنے سے موبائل صارف ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی اور خدمات سے متعلق بنائے گئے خصوصی گوگل دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

علاوہ ازیں اس کیو آر کوڈ کی تصویر کو اسکین کرکے بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ سے متعلق دستاویزات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ٹیکنالوجی کا استعمال،ڈاکٹر رتھ فاؤ کی ڈیجیٹل قبر

زندگی بچ سکتی ہے . . .

باہمت خاتون کی کہانی: بھیک مانگنے سے اپنے کاروبار تک