نقطہ نظر

سلگتے سگریٹ کو بجھائیے، ہمارے جنگل بچائیے

ایک طرف حکومت جنگلات کا رقبہ بڑھانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف سگریٹ سازی کی صنعت اس کوشش کو ناکام بنانےمیں مصروف ہے

’میرے والد چین اسموکر تھے‘۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہءِ نفسیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے گفتگو کا آغاز کیا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ ایک سگریٹ سے دوسری سگریٹ جلاتے تھے۔ میری چھوٹی بہن ان سے بہت مانوس تھی۔ وہ چھوٹی ہونے کے باعث والد کی لاڈلی تھی اور ہر وقت ان کے ساتھ رہتی۔ وہ سگریٹ پیتے رہتے اور بہن ان کے قریب کھیلتی رہتی۔ وہ اسے اسکول بھی خود چھوڑنے جاتے۔ والد ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی سگریٹ پیتے رہتے۔ گاڑی کا اے سی چل رہا ہوتا لہٰذا گاڑی کے شیشے بند ہوتے اور دھواں گاڑی کے اندر ہی موجود رہتا۔ پھر ایک روز بہن بیمار ہوگئی‘۔

پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال بچوں میں سگریٹ کی بڑھتی ہوئی عادت کے حوالے سے Society for the Protection of the Rights of the Children (SPARK) کے زیرِ اہتمام ایک سیمینار میں اپنی کہانی سنارہی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’بہن کا بخار ٹوٹ ہی نہیں رہا تھا۔ ڈاکٹرز نے سارے ٹیسٹ کیے اور ایکسرے دیکھ کر وہ حیران ہوگئے اور ہم سے پوچھا کہ کیا بچی سگریٹ پیتی ہے؟ ظاہر ہے ہم نے انکار کیا تو ڈاکٹرز نے کہا کہ بچی کے پھیپھڑے تمباکو کے اثرات سے سخت متاثر ہیں۔ اب چونکہ بہن والد کے قریب رہتی تھی اور وہ سگریٹ پیتے رہتے تھے تو جتنا دھواں ان کے پھیپھڑوں میں جاتا اتنا ہی بہن کے پھیپھڑے بھی جذب کرلیتے۔ قصہ مختصر یہ کہ بہن کو ایک سال بخار رہا پھر وہ بظاہر ٹھیک ہوگئی لیکن اس کے جسم کا مدافعتی نظام اتنا کمزور ہوگیا کہ اسے جوانی میں ہی کینسر ہوگیا۔ کمزور پھیپھڑوں کے ساتھ وہ بیماری سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی لہٰذا بیماری نے اسے شکست دے دی اور وہ بہت چھوٹی عمر میں ہم سے بچھڑ گئی‘۔

ڈاکٹر فرح کی کہانی نے سب کو اداس کردیا۔


لیکن یہ واقعہ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کروا رہا ہے کہ صرف سگریٹ پینے والا ہی نہیں بلکہ اس کے قریب رہنے والا بھی اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق یہ ’سیکنڈ ہینڈ اسموک‘ ہر سال 6 لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سگریٹ کی پھلتی پھولتی صنعت یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہاں یہ زہر لوگوں کو عام دستیاب ہے۔ پاکستان میں 2 کروڑ افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق پھیپھڑوں اور منہ کا سرطان پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی اموت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر منہ کے سرطان کی بات کی جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ یہ بیماری پاکستان میں ہے اور اس کی بنیادی وجہ چبا کر استعمال کی جانے والی تمباکو کی مصنوعات مثلاً پان، نسوار اور گٹکا ہیں۔

مزید پڑھیے: تمباکو نوشی چھوڑنے کے 12مددگار طریقے

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں ایسی بیماریوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جنہیں روکا جا سکتا ہے۔ تمباکو سے ہونے والی بیماریوں سے دنیا بھر میں ہر سال 60 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور 5 ہزار پاکستانی روزانہ تمباکو نوشی ہی کے باعث اسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔


لیکن آج اس تحریر کو لکھنے کا مقصد ان بیماریوں کے بارے میں بتانا نہیں کیونکہ سگریٹ نوشی کے مذکورہ بالا نقصانات تو سبھی جانتے ہیں لیکن کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی کے دھوئیں میں اب ہمارا مستقبل بھی داؤ پر لگ چکا ہے؟

جی ہاں تمباکو نوشی کے عفریت نے ہمارے بچوں کو بھی گھیرلیا ہے۔ اسکول اور کالجوں میں آسانی سے دستیاب اس زہر کو قوم کے نونہال بڑی رغبت سے اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہے ہیں لیکن والدین کو کانوں کان خبر نہیں ہے۔ یہ دل دہلانے والے اعداد و شمار دیکھیے۔

بچوں میں تمباکو نوشی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم SPARC کے مطابق پاکستان میں 18 سال اور اس سے بڑی عمر کے نوجوانوں کی 19 فیصد تعداد سگریٹ پینے کی لت میں مبتلا ہے اور تقریباً 1000 سے 1200 بچے روزانہ سگریٹ نوشی کی جانب راغب ہورہے ہیں۔

سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سگریٹ پینے والے بچوں میں 6 سال کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں جو اپنے گھر میں والد، کسی رشتے دار یا نوکروں کو دیکھ کر اس عادت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر فرح کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کو پہچاننا بہت آسان ہے۔ سب سے پہلے ان کی عادتوں میں تبدیلی آتی ہے۔

یہ ساری علامات ماں باپ کی نظر سے بچ نہیں سکتیں، لیکن اگر ان واضح علامات کے باوجود والدین بے خبر رہتے ہیں تو ان کی بے خبری کو سلام!

سگریٹ نوشی کے اگرچہ بڑوں پر بھی ذہنی اور جسمانی طور پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن بچے تو مکمل طور پر اپنی ذہنی اور جسمانی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اگر سگریٹ 2 سال تک پیتے رہے تو ان کی برین ممبرین متاثر ہوجاتی ہے، یادداشت خراب ہونے لگتی ہے، دماغ کی نشو نما رک جاتی ہے، آئی کیو لیول گرجاتا ہے، وہ جذباتی طور پر غیر متوازن ہوجاتے ہیں، چڑچڑا پن اور غصہ بڑھ جاتا ہے، پڑھائی میں پیچھے ہوجاتے ہیں اور جسم اور دماغ نکوٹین کا عادی ہوتا چلاجاتا ہے۔

ماہرین پاکستان میں بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی کی ایک بڑھتی ہوئی وجہ اس کی قیمت کو بتاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی قیمت جنوبی ایشا سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سخت قوانین نافذ ہونے کے بعد اب سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے اپنی توجہ ترقی پزیر ممالک کی طرف مرکوز کرلی ہے جہاں سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین نسبتاً کمزور اور ان کا نفاذ زیادہ موثر نہیں ہے۔

ایشیا پیسیفک ممالک میں تمباکو نوشی کی صنعت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا، ویتنام اور پاکستان اس کی خاص مارکیٹ ہیں۔

تمباکو کی صنعت اور ماحول دشمنی

لگے ہاتھوں یہ بھی جان لیجیے کہ تمباکو نوشی کس طرح ماحول کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ ایک جانب حکومت جنگلات کا رقبہ بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے، بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں پر کثیر سرمایہ خرچ کررہی ہے تاکہ سبز رقبے میں اضافہ کیا جاسکے اور دوسری جانب سگریٹ سازی کی صنعت اس کوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہے۔

مزید پڑھیے: تمباکو نوشی ترک کرنے کے حیرت انگیز اثرات

اگر آپ حیران ہورہے ہیں تو آپ کی حیرت ابھی کم ہوجائے گی۔ معاملہ یہ ہے کہ سگریٹ کی صنعت براہِ راست جنگلات کے وسائل پر انحصار کرتی ہے۔ جنگلات کے یہ وسائل مثلاً درختوں کی لکڑی اور چھال وغیرہ ماچس کی تیاری اور سگریٹ، تمباکو کی پتیوں وغیرہ کو لپیٹنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ SPARK کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 3 کروڑ سے زائد درختوں کی چھال سیگریٹ کی پیکنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ درختوں سے براہِ راست ماچس کی تیلیاں بنتی ہیں اور مت بھولیے کہ جنگلات کی آگ بھی عموماً سگریٹ ہی کی مرہون منت ہے۔

لکڑی کی 25 لاکھ ٹن مقدار خام تمباکو کی روسٹنگ کے لیے جلائی جاتی ہے جو براہِ راست جنگلات کی کٹائی اور فضائی آلودگی کو جنم دیتی ہے۔ اس کے علاوہ 15 لاکھ ملین کیوبک میٹر لکڑی سگریٹ کی تیاری سے قبل خام تمباکو کی پتیوں کو سکھانے اور اس کی تیاری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معدنی ایندھن (فوسل فیول) کے بعد فضائی آلودگی خصوصا گرین ہائیو گیسوں کی آلودگی کی دوسری بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ 5 فیصد گرین ہائیو گیسوں کی آلودگی کی ذمے دار تمباکو کی صنعت سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی ہے۔

جنگلات کی آگ بھی عموماً سگریٹ ہی کی مرہون منت ہے—فوٹو شٹر اسٹال

صرف پاکستان میں 2 کروڑ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں اور تقریباً 4,500 سگریٹ سالانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ 90 ارب ماچس کی تیلیاں استعمال کرتے ہیں۔

سگریٹ پینے کے بعد پھینک دیے جانے والے سگریٹ کے بٹ عام کچرا نہیں بلکہ یہ زیریلے فضلے میں شمار کیے جاتے ہیں جو زمین اور آبی وسائل کی آلودگی کا سبب بنتے ہیں اور بہت سے پرندے اور جاندار انہیں کھا کر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

ہت سے پرندے اور جاندار انہیں کھا کر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں—فوٹو شٹر اسٹاک

ایک اندازے کے مطابق تمباکو کی صنعت 20 لاکھ ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتی ہے اور 3 لاکھ ٹن ایسا کچرا جسے دوبارہ استعمال نہ کیا جاسکے اور 2 لاکھ ٹن کیمیائی فضلہ پیدا کرتی ہے۔

سگریٹ کا مواد بہت سے کیمیکل پر مشتمل ہوتا ہے جیسے

اسی طرح سگریٹ پینے کے دوران پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ سانس لینے کے عمل کو مشکل بناتی ہے۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سگریٹ نوش افراد کے خون کے نمونوں میں یہ مضر گیس وافر مقدار میں پائی گئی ہے۔ نکوٹین تمباکو کی تقریباً تمام اقسام مثلاً سگریٹ، پائپ اور سگار میں شامل ہوتی ہے جو براہِ راست دماغ کو متاثر کرتی ہے۔

سگریٹ نوشی اور قوانین

سگریٹ نوشی سے روکنے کے لیے اگرچہ قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بچوں میں سگریٹ نوشی کے رحجان کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی بہت سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

پاکستان میں 2002ء میں سگریٹ نوشی کی ممانعت کے لیے ایک قانون منظور کیا گیا تھا، مگر اس کے بارے میں عوام میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

انسدادِ تمباکو نوشی قانون کے مطابق تمباکو مصنوعات کی تشہیر اب پرنٹ، الیکٹرانک، بل بورڈ سمیت کسی بھی ایسے مقام پر نہیں کی جاسکتی جہاں عام لوگوں کا گزر ہو یا ان کی پہنچ ہو۔ مزید یہ کہ تمباکو کی مصنوعات کو تحائف، پیکٹ خریدنے پر کیش کی واپسی اور مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت میں فروخت کرنے پر بھی پابندی ہے۔ ایس آر او 1068 اور 46 کے مطابق صوبائی حکومتیں اور چیف کمشنر اسلام آباد اپنے علاقوں میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین پر عمل درآمد کروانے کی ذمے دار ہیں۔ قانون کے مطابق خلاف ورزی پر اے ایس آئی یا اس سے اوپر کے اہل کار قانونی کارروائی کرسکتے ہیں۔

حکومت نے سگریٹ نوشی روکنے کے لیے جو قوانین و ضوابط متعارف کرائے ہیں ان میں

سیگریٹ کے ڈبے پر موجود تصویری انتباہ

سیکشن 8 کے تحت پاکستان میں کھلی سگریٹ بیچنا منع ہے

مزید پڑھیے: پاکستان: ’تمباکو سے لاحق امراض کے علاج پر سالانہ 140 ارب روپے کے اخراجات‘

بچوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے کے لیے ماں باپ کو آنکھیں کھلی رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ

پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے معاشرے کے تمام ہی طبقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور اس حوالے سے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی جانب سے ایک فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

تمباکو نوشی کے رجحان میں محض حکومت کی کوششوں سے کمی نہیں آسکتی، بلکہ اس کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں عوامی حلقوں اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔