نقطہ نظر

جیون ساتھی کی تلاش میں کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟

کسی ایک فریق کو بھی جلدبازی یا غیر سنجیدگی کے ساتھ معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یوں آگے چل کر شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔
لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کو شادی کے بندھن میں بندھتا ہوا دیکھیں۔ اسی لیے جب ان کے بچے (خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی) بالغ اور شادی لائق ہوجاتے ہیں تو بس پھر وہ اسی حوالے سے سوچتے رہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کے جیون ساتھی کے انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کے اپنے خواب، ان کی اپنی خواہشات اور تمنائیں ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ اپنے بیٹے یا اپنی بیٹی کے لیے آئیڈیل جیون ساتھی کا خاکہ بھی ذہن میں بنالیتے ہیں۔

اپنے بیٹے یا اپنی بیٹی کے لیے اچھے سے اچھے رشتوں کی تلاش کی خاطر وہ اپنی وساطت، روابط اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ میرج بیوروز کا رخ بھی کرتے ہیں۔ بچوں کی شادی سے متعلق درست انتخاب میں بہت زیادہ ہوم ورک، دُور اندیش سوچ، سماجی تعلقات اور تعلقاتِ عامہ کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔

چونکہ شادی کسی بھی شخص کی زندگی کا ایک سب سے اہم ترین موقع ہے اس لیے آخری فیصلہ لینے سے قبل سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن جب ان سارے مراحل سے گزر کر فیصلہ کیا جائے تو یہ ساری محنت وصول ہوجائے گی اور بدلے میں زندگی بھر کی خوشیاں مل جائیں گی۔

نصف صدی قبل زندگی کافی زیادہ سادہ تھی جس میں دکھاوا نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب کسی کی اولاد بلوغت کی عمر کو پہنچتی اور ان میں ذمہ داری نبھانے اور اپنے معاملات خود سنبھالنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تو خاندان والے اس کی شادی خود اپنے طور پر طے کردیتے تھے، جسے عام طور پر ارینج میرج کہا جاتا ہے۔

ارینج میرج میں دولہے اور دلہن کا انتخاب گھر کے بڑے کرتے ہیں، یہی اس دور میں ہوتا تھا۔ چند ایک جگہوں پر ہی لوگ اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کیا کرتے تھے لیکن معاشرے میں عام رواج ارینج میرج کا ہی ہوا کرتا تھا۔

لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے، اب لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے، دونوں طرف کے مطالبات اور خواہشات کٹھن سے کٹھن ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اوقات تو لڑکا اور لڑکی والوں کے درمیان ہونے والے ابتدائی روابط اور ابتدائی ملاقاتیں ان پر منفی چھاپ چھوڑ جاتی ہیں۔

حال ہی میں ایک خاندان اپنے بیٹے کے لیے جیون ساتھی کی تلاش میں تھا، انہوں نے کئی رشتے دیکھے لیکن انہیں ایک بھی لڑکی اپنے معیار پر اترتی ہوئی نہیں ملی۔ انہوں نے تمام رشتے جِلد کی رنگت، قد یا پھر عمر کے فرق و دیگر وجوہات کے باعث مسترد کردیے۔ اس کا بہت ہی بُرا تاثر پڑسکتا ہے، بالخصوص لڑکیوں پر۔ ماضی میں صرف بڑوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کی اولاد کے مفاد میں کیا بہترین ہے لیکن آج کل صورتحال مختلف ہے۔

عام طور پر والدین چاہتے ہیں ان کا ہونے والا داماد اور بہو تعلیم یافتہ، اچھی آمدن والا/والی، خوبرو، پتلا/پتلی، سندیافتہ اور بہت سی ایسی کئی قابلیتوں اور خوبیوں کا/کی مالک ہو۔ چند والدین تو جہیز کی صورت میں زیورات، گاڑی، گھر یا ہوم اپلائنسز وغیرہ جیسے مادی سازو سامان کی شدید خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مادی چیزیں زیادہ دن تک باقی نہیں رہتیں۔ اسی لیے مادی ساز و سامان کی مانگ کے بجائے آپ کو گہرائی میں اترنا چاہیے، یعنی دیگر شخصی خوبیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ دیکھیے کہ وہ ایمان، اچھے اخلاق، افہام و تفہیم، عادات، تعلیم، صحت اور ہر قسم کے حالات میں صبر کے ساتھ خود کو ڈھالنے کی صلاحیت جیسے پیمانوں پر کتنا پورا اترتے ہیں، کیونکہ یہی وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک کامیاب شادی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

یہاں آکر آپ کو شادی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا رخ ضرور کرنا چاہیے۔ اسلام کے نزدیک شادی ایک معاشرتی معاہدہ ہے جس میں 2 افراد اپنی مرضی سے زندگی بھر کی شراکت داری کے لیے رشتہ قائم کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تجویز کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے شوہر اور بیوی کے طور پر زندگی ساتھ گزارنے کا خود سے عزم کرتے ہیں۔

ذمہ داریوں کو بانٹنے کے لیے باہمی عزم درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے انہیں احترام، اعتماد اور اس پختہ یقین کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حصے کا معاہدہ ہر طرح سے پورا کریں گے۔

کسی ایک فریق کو بھی جلدبازی، زیادہ سوچ بچار کیے بغیر، غیر سنجیدگی کے ساتھ معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں آگے چل کر شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور پھر چند برسوں بعد وہ پچھتا رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے شادی ہی کیوں کی۔ اس طرح مایوسی کی فضا چھائے گی اور سماج میں دراڑیں پڑجائیں گی۔

شادی کو گاڑی کے 2 پہیوں سے تمثیل بھی دی جاسکتی ہے، یعنی اگر پہیوں کی سیدھ برابر ہوگی تو گاڑی بھی پُرسکون انداز میں آگے بڑھتی جائے گی۔ انہیں زندگی کے اس طویل سفر میں ایک دوسرے کا معاون اور سہارا بننا ضروری ہوتا ہے جو ہمیشہ پُرسکون و سہل نہیں ہوتا۔

اس سفر میں انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے اور اتار چڑھاؤ بھی آسکتے ہیں لیکن دونوں پہیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بنے رہیں، مضبوطی سے جڑے رہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کریں، تاکہ یہ سفر خوشیوں اور سکون سے بھرپور رہے۔ اس طرح کی شادیاں قابلِ رشک ثابت ہوتی ہیں اور قرآن مجید ہمیں یہ دعا مانگنے کی تلقین کرتا ہے کہ

’۔۔۔اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘ (سورت الفرقان، آیت 74)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ‘تم میں سے ہر ایک نگران بنایا گیا ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (قوم کا) رہنما (اس کا) نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔‘

چنانچہ درست ساتھی کی تلاش کا مطلب ہے کہ ایک ایسا ساتھی تلاش کیا جائے جو زندگی کے ہر مرحلے میں آخر تک مضبوط اور ساتھ دینے والا شریکِ حیات ثابت ہو۔

یہ زندگی بھر کی ایک شراکت داری ہے جس میں ایک دوسرے سے اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات کی جانب بدستور ثابت قدمی، بھروسہ، معاون اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔


یہ مضمون 23 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

امین ولیانی

لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔