سی پیک معاہدہ: کیا چینی پاکستان سے مایوس ہورہے ہیں؟
ہم میں سے وہ لوگ جن کے مفادات حکومتی پالیسی سے جڑے ہیں یا پھر وہ افراد جو کئی برسوں سے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد پر نظر رکھے ہوئے ہیں، انہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو ہی چلا تھا، مگر اب تو دیگر لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ لہٰذا جلد یا بدیر اس ملک کے اقتدار تو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوگی جو معاملات کو حقیقی معنوں میں سنبھالنا جانتے ہوں۔
گزشتہ ایک برس سے ہمیں پالیسی کے نام پر شعلہ فشاں خطابت، غیر زمینی، غیر حقیقی اور غیر منطقی تصورات ہی دیے گئے ہیں۔ ایک سال تک یہ خیال غالب رہا کہ پاکستان کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے اور ایک کہاوت ہے ناکہ مچھلی اپنے سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے (یعنی قیادت اچھی ہوگی تو ملک اچھا ہوگا) یوں نئی قیادت سے ملک میں نیچے تک پھیلی سڑن دُور ہوجائے گی اور تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔
ایک سال سے اس یقین کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں صرف بُرے لوگوں کو ایک طرف کرنا ہے، لوگوں کو اچھائیوں کی دعوت دینی ہے، یوں خسارے ختم ہوجائیں گے اور گورننس کا پہیہ ایک بار پھر چلنے لگے لگا۔
ڈیم ٖفنڈ، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ، وزیرِاعظم ہاٹ لائن اور موبائل ایپ پر مبنی شکایتی نظام اور بجٹ پیش کیے جانے کے بعد آدھی رات کو قوم سے کیے جانے والے خطاب کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی جس میں مخالفین سے انتقام اور سخت سے سخت سزائیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جذبات کی چاشنی اور اس میں لوگوں کے اذہان کو اچھی طرح گھما گھما کر جو کڑوا مشروب تیار ہوا ہے، وہی گزرا ہوا سال ہے۔
مگر اب یہ حالات بدل رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب کسی کو اوپر سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ معاملات ایسے نہیں سنبھالے جاتے۔ ملک خوبخود نہیں چلے گا، اور سچ یہ ہے کہ مچھلی سر سے نہیں بلکہ اندر سڑنا شروع ہوتی ہے۔ خیر ضرب المثال کا استعمال اب بہت ہوا۔
تو کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟ 2 باتیں: آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز ہوا اور ایک کے بعد ایک چین سے آنے والے مہمانوں کا گزر اسلام آباد سے ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو حکومت پر زور ڈال رہے ہیں کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام شروع کیا جائے، جو تاحال رکا ہوا ہے۔
چینی مہمان شہ سرخیوں میں سجائے جانے کا مٹیریل فی الحال نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح مختلف چینی وفود، جن میں سے کچھ کی سربراہی سینئر افسران کر رہے ہیں، کی جانب سے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور جس طرح حکومت کے مختلف حلقے بھی بار بار یہ اعلانات کررہے ہیں کہ حکومت سی پیک کے لیے پُرعزم ہے اور منصوبوں پر عمل درآمد تیز کردیا جائے گا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم معاملہ تو ضرور چل رہا ہے۔
ماضی میں احسن اقبال کے پاس رہنے والی وزارت برائے ترقی و منصوبہ بندی کے موجودہ ذمہ دار خسرو بختیار نے تو ایک موقعے پر بذاتِ خود یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے جامع سی پیک اتھارٹی تشکیل دینے کے لیے تیار ہے۔
ایسا ہی ایک اعلان چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے موقعے پر کیا گیا۔ چینی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان سی پیک کو لے کر پُرعزم ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر سی پیک اتھارٹی کے قیام کے خیال پر زور دیا اور سی پیک منصوبوں پر ’عمل درآمد میں تیزی‘ کی اہمیت اجاگر کی اور یہ بتایا کہ ایک بار زیادہ سے زیادہ چینی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا شروع کردی تو اس کے پاکستان کو کیا کچھ فوائد حاصل ہوں گے۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com