’برائے مہربانی اپنی آواز دھیمی رکھیں‘


گزشتہ ہفتے ممتاز تاجروں کے وفد اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جو ایک بات ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ یہ ملاقات ایک حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
اور جو بات ہم نہیں جانتے ہیں وہ یہ کہ آیا تاجروں کو اس ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تھا یا پھر تاجروں نے اس ملاقات کے لیے درخواست کی تھی۔ خیر یہ پیش رفت چاہے کہیں سے بھی ہوئی ہو اس کے نتائج میں فرق نہیں آنا تھا۔
تاجروں کے وفد کو یہ واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان استحکام بالخصوص اقتصادی استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔ اس راہ سے بھٹکنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات ہر ایک کو برداشت کرنا ہوں گی۔ جہاں تک استحکام کی خاطر نافذ کردہ پابندیوں یا رکاوٹوں کا تعلق ہے تو بات چیت کے ذریعے جہاں ممکن ہوسکا وہاں چند اصلاحاتی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
اس پیغام کا اہم نکتہ بات چیت ہے۔ گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے لے کر آج تک پاکستان نے نصابوں میں ’میکرو اکنامک استحکام‘ کے طور پر بیان کردہ پالیسی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ جس کے مطابق معیشت کے اندر پیدا ہونے والے خساروں، بالخصوص مالی و بیرونی خساروں میں کمی لانا اولین ترجیح ہوتی ہے اور اس کے بعد ہی دیگر معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ استحکام لانے سے متعلق ہمارے ملک میں یہ کوئی پہلی مہم نہیں چل رہی بلکہ 1988ء سے لے کر اب تک ایک درجن سے زائد بار ہم اس قسم کی مہمات دیکھ چکے ہیں۔
اسی اثنا میں ہمارے ملک میں مہنگائی اور زرِمبادلہ کی سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی حقیقی قدر کو زیادہ ٹھیک طور پر ظاہر کرنے کی غرض سے زرِمبادلہ کی شرح کو گھٹایا جاتا ہے۔ اور پھر ریونیو میں اضافے اور اخراجات میں کمی لانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ مالی خسارے میں کمی لائی جاسکے۔
اب تک تو وہی پرانی کہانی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہمارے تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جیسے ہی قرضے کی قیمت بڑھتی ہے، درآمد شدہ صنعتی مال (inputs) کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ پھر ان کی مصنوعات کی طلب میں کمی اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ساتھ دستاویزی مطلوبات بڑھائے جانے کے بعد جب ٹیکس حکام نئے جوش و جذبے کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں تو تجارتی اور صنعتی شعبے کو ان پالیسی اقدامات سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلاشبہ ان سارے اقدامات کے باعث تاجر برادری میں بے چینی بڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کا معیارِ زندگی گرتا ہے اور بے روزگاری کو فروغ ملتا ہے کیونکہ طلب میں کمی واقع ہوتی ہے جس وجہ سے پیداوار کو بھی کم کرنا پڑجاتا ہے۔
تاجر برادری تقریباً ایک برس سے بے چینی محسوس کرتی چلی آرہی ہے جس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وفود اس وقت سے اسد عمر، عمران خان، رزاق داؤد اور شبر زیدی سے ملاقاتیں کرتے چلے آرہے ہیں جب سے مذکورہ حضرات سرکاری عہدوں پر براجمان ہوئے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے تو وہ چند مخصوص ’مراعاتی پیکجز‘ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اور یہیں یہ باب اختتام کو پہنچا۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com