پاکستان

نادرا نے جے یو آئی(ف) کے رہنما حافظ حمداللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کردی

حافظ حمداللہ غیر ملکی ہیں، لہٰذا ٹی وی چینلز انہیں بلانے اور ان کی تشہیر سے گریز کریں، پیمرا کا اعلامیہ بھی جاری

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) نے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کو غیرملکی شہری قرار دیتے ہوئے پاکستانی شہریت منسوخ کردی، جس کے بعد پیمرا نے انہیں پاکستانی ٹی وی چینلز پر بلانے پر پابندی عائد کردی۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں حافظ حمداللہ کو ٹی وی چینلز پر بلانے پر پابندی عائد کی گئی۔

پیمرا کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹیفکیشن—اسکرین شاٹ

پیمرا کی جانب سے اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ نادرا نے اپنے حکم نامے میں شناختی کارڈ منسوخ کرتے ہوئے حافظ حمداللہ صبور کو جاری کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ڈیجیٹل طور پر ضبط کرلیا۔

مزید پڑھیں: حافظ حمداللہ کا ارکانِ پارلیمنٹ کے میڈیکل ٹیسٹ کا مطالبہ

پیمرا کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ حافظ حمداللہ غیر ملکی ہیں اور پاکستانی شہری نہیں ہیں لہٰذا تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ حافظ حمداللہ کو ٹی وی پر بلانے اور ان کی تشہیر سے گریز کریں۔

پیمرا نے کہا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ حکام کی اجازت کے بعد کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماروی سرمد کی درخواست پر حافظ حمداللہ کے خلاف مقدمہ درج

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ اپنی جماعت کے متحرک رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور ٹی وی چینلز پر اپنے جارحانہ بیانات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

نادرا اور پیمرا کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے کہ جب جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے31اکتوبر کو ہونے والے 'آزادی مارچ' میں چند دن باقی ہیں اور اس قدم سے حکومت اور جے یو آئی(ف) کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

آزادی مارچ

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔

علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

البتہ لانگ مارچ کی مشروط اجازت دینے کے بعد وزیر اعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ نہ حکومت استعفیٰ دے گی اور نہ ہی وہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہوں گے۔