پاکستان

'دہائیوں سے مسلط افراد کو اپنی تیسری نسل کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آرہا ہے'

مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت سے جھگڑا غریب عوام کے لیے نہیں بلکہ اسد محمود کے لیے ہے، معاون خصوصی برائے اطلاعات

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن رہنما عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنی تیسری نسل کے سیاسی مستقبل کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ دہائیوں سے قوم پر مسلط رہنے والوں کو اپنی تیسری نسل کا سیاسی مستقبل تاریک نظرآرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت سے جھگڑا غریب عوام کے لیے نہیں بلکہ اسد محمود کے لیے ہے، آصف زرداری کا جھگڑا بلاول کے لیے ہے، نواز شریف کا مریم کے لیے ہے جبکہ شہباز شریف کا حمزہ شہباز کے لیے اور اسفند یار ولی کا جھگڑا ایمل ولی کے لیے ہے۔

ملک کی بہتری مارچ کی امن کے ساتھ واپسی میں ہے، محمد علی خان

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کا کہنا ہے کہ ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ مارچ کی امن کے ساتھ واپسی ہو۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں علی محمد خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنا جلسہ کرلیا، احتجاج بھی ہوگیا، ان کا اور اپوزیشن کا موقف بھی سامنے آگیا۔

علی محمد خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے اپوزیشن کو بغیر پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے آنے دیا حالانکہ ہمارے ساتھ اس کا الٹ رویہ رکھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی بہتری اس میں ہے کہ امن کے ساتھ واپسی ہو دونوں طرف پاکستانی ہیں۔

مارچ کرنے والا طبقہ ہی پاکستان کے قیام کی مخالفت کرتا تھا، فواد چوہدری

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 'حلوہ' مارچ کی ناکامی ہی پاکستان کی کامیابی ہے۔

فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ 'جو طبقہ اس مارچ کو کررہا ہے وہ ہی طبقہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کرتا تھا'۔

انہوں نے کا کہ 'ان کے آبا و اجداد قائد اعظم محمد علی جناح کے مخالف تھے، آج یہ لوگ وزیراعظم عمران خان کے مخالفت کررہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طبقے کی شکست ہی پاکستان کے مستقبل کی کامیابی ہے اور امید ہے کہ یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے'۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹرڈاؤن زیر غور ہے، رہبر کمیٹی

واضح رہے کہ 31 اکتوبر کی رات میں آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے، تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔

ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

جس کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔