پاکستان

آزادی مارچ: حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈ لاک برقرار

ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، حکومت کوشش کررہی ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکلے، کنوینر رہبر کمیٹی اکرم درانی
|

حکومت مخالف آزادی مارچ کے حوالے سے مذاکرت کے لیے قائم کی گئی رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ایک مرتبہ پھر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔

کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں فریقین کا کہنا تھا کہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

حکومتی کمیٹی سے ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کرتے ہوئے اکرم درانی کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر اپنے پرانے مطالبات پیش کر دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کوئی درمیانی راستے نکلے۔

واضح رہے کہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی جانب سے مطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں یا دوبارہ عام انتخابات ہوں جس میں ’فوج‘ کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور آئین پاکستان کا مکمل طور پر تحفظ کیا جائے۔

مزیدپڑھیں: 'فضل الرحمٰن کی دی گئی مہلت ختم ہونے سے قبل کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے'

اس موقع پر حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ کچھ معاملات پر اتفاق ہوا ہے تاہم مذاکرات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ’اپوزیشن کا اپنا اور ہمارا اپنا موقف ہے تاہم درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا راستہ نکالنے پر مذاکرات جاری ہیں جس میں اپوزیشن کی عزت بھی برقرار رہے اور حکومتی موقف بھی متاثر نہ ہو‘۔

حکومتی کمیٹی میں شامل پرویز الہٰی نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن کی رہبر کیٹی سے ملاقات ہوئی اور مثبت پیش رفت کے امکانات ہیں کیونکہ دونوں کمیٹیوں کی ملاقات بہتری کی طرف ایک اور قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثبت پیش رفت اور مزید مشاورت کے لیے کچھ وقت درکار ہے جس میں استعفیٰ میں لچک کا معاملہ بعد میں زیر بحث آئے گا جبکہ اسلامی دفعات پر مکمل اتفاق ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پہلے قدم میں کامیاب ہوئے ہیں، دوبارہ ملاقات ہوگی، مذاکراتی کمیٹیاں

پرویز الہٰی نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ابھی چیزیں طے ہوں گی، مذاکرات میں کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم میں پرویز خٹک کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، اسد عمر، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور اسپیکر پنجاب اسمبلی، مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی شامل تھے۔

دوسری جانب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال، عباس آفریدی اور امیر مقام، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نئیر بخاری اور فرحت اللہ بابر، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے میاں افتخار حسین کے علاوہ دیگر اپوزیشن رہنما طاہر بزنجو، شفیق پسروری، ہاشم بابر اور اویس نورانی شامل تھے۔

پریس بریفنگ میں اپوزیشن اور حکومتی اراکینؤ نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا تاہم دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

گزشتہ روز دونوں کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ پہلے قدم میں کامیاب ہوئے ہیں اور مطالبات کا تبادلہ کیا گیا جو قیادت کے سامنے رکھے جائیں گے اور دوبارہ ملاقات ہوگی۔

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی نے کہا تھا کہ ‘پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی مذاکراتی ٹیم آئی جس کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور آج تفصیلی بات ہوئی، ہم نے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے جس کو انہوں نے سنا جبکہ اس کے علاوہ بھی گفتگو ہوئی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کل پھر ملاقات ہوگی، یہ ہمارے مطالبات اپنے بڑوں کے سامنے رکھیں گے اور دوبارہ آئیں گے تو پھر تفصیلی بات ہوگی’۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ‘سب سے پہلے رہبر کمیٹی اور ساری اپوزیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی پاسداری کی اور ہمیں خوشی ہے کہ سیاسی لوگ آپس میں فیصلے کرتے ہیں تو اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اللہ کا شکر ہے کہ پہلے قدم میں ہم کامیاب ہوئے ہیں، آج ملاقات میں ان کے مطالبات اور جو مسائل تھے وہ ہم نے سنے اور اپنے مطالبات ان کے سامنے پیش کیے’۔

مزیدپڑھیں:حکمرانوں کو جانا ہوگا، اس سے کم پر بات نہیں بنے گی، مولانا فضل الرحمٰن

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ نے کہا تھا کہ ‘ہم یہاں سے واپس جا کر اپنی قیادت کے ساتھ بیٹھیں گے اور کل 3 بجے پھر ملاقات کریں گے اور مجھے امید ہے کہ اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا’۔

آزادی مارچ

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے حکومت کی 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔

علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

بیرونی قرضوں کی واپسی کے تمام ریکارڈ توڑ دیں گے، حماد اظہر

نواز شریف کا ڈسچارج کے باوجود سروسز ہسپتال میں رہنے کا فیصلہ

آزادی مارچ: کسی غیرآئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، وزیراعظم