دنیا

امریکا سے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیں گے، ایران

ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر امریکا سے بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے خطرناک نتائج کی دھمکی دی ہے۔

ایران نے بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر امریکا سے بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے خطرناک نتائج کی دھمکی دی ہے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے۔

مزید پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک

پینٹاگون سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’قاسم سلیمانی عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں متحرک تھے‘۔

جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان مستقل صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔

ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنائی نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا اور ملک میں تین روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ قاسم اور المہندس کی ان کی انتھک کاوشوں کا انعام شہادت کی صورت میں مل گیا اور ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے انتقام لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت: عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت ہماری اسلامی اقدار کی حفاظت اور امریکی توسیع منصوبوں کے خلا ہماری مزاحمت کو نئی جلا بخشے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایران خطے میں آزادی کے حامل دیگر ممالک اس قتل کا بدلل ضرور لیں گے۔

عراق کے وزیر اعظم عادل اعبدالمہدی نے کہا کہ بغداد کے ایئرپورٹ پر فضائی حملہ عراق پر جارحیت اور اس کی خودمختاری پر حملہ ہے جو عراق، خطے اور دنیا میں جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کے ذریعے نے امریکی افواج نے عراق میں اپنی موجودگی کی شرائط کی بھی خلاف ورزی کی اور کوئی بھی کارروائی عراقی سیکیورٹی اور خودمختاری کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہیے تھی۔

ایران نے اپنے ملک میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرنے والے سوئس حکام کو طلب کر کے قدس کمانڈر کی ہلاکت پر شدید احتجاج کیا۔

اس ہلاکت کے بعد ایران کی جانب سے امریکا کے خلاف کارروائی متوقع ہے اور خطے کے ایک نئے تنازع کا شکار ہونے کا امکان ہے جس کے بعد شام، عراق اور دوسرے علاقوں میں موجود امریکی فوج خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ قاسم سلیمانی عراق اور خطے میں موجود امریکی سفارتکاروں اور فوجی اہلکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے جس کے سبب انہیں مارا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ رواں ہفتے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے اور پرتشدد احتجاج کی منصوبہ اور تیاری بھی قاسم سلیمانی نے کی تھی۔

ایران کے ریاستی ٹی وی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے قدس فورس کے سربراہ کے قتل کو خطرناک اور امریکا کی بے وقوفی قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیں: عراق: پیرا ملٹری دستوں کی مظاہرین سے امریکی سفارتخانے سے نکلنے کی درخواست

ان کاکہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ اور قتل کرنے کی عالمی دہشت گردی کا امریکی اقدام خطرناک اور بڑی بے وقوفی ہے جس سے خطے کے تناؤ میں اضافہ ہو گا اور اب اس احمقانہ مہم جوئی کے نتائج کا ذمے دار امریکا خود ہو گا۔

عراق کی حشد الشادی ملٹری فورس نے جمعہ کو امریکی فضائی حملے میں قسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے فائٹرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔

اسیب اہل الحق کے سربراہ قیس الغزالی نے کہا کہ تمام مزاحمتی فائٹرز تیار رہیں، اہم محاذ اور بڑی کامیابی ہماری منتظر ہے۔

ٹرمپ ان دنوں فلوریڈا میں ساحل پر چھٹیاں منا رہے ہیں لیکن انہوں نے امریکی جھنڈے کی حامل اپنی ٹوئٹ سے پیغام دینے کی کوشش کی۔

سال کے آغاز پر کیا گیا یہ حملہ امریکی صدر کے لیے اسٹریٹیجک لحاظ سے مسائل کا سبب بن سکتا ہے جہاں انہیں کانگریس کی جانب سے ماخذے کے ساتھ ساتھ رواں سال دوبارہ انتخابات میں منتخب ہونے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

62سالہ ایرانی جنرل کی گاڑی کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون کے ذریعے جمعہ کو نشانہ بنایا گیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

ایک سینئر عراقی آفیشل نے کہا کہ سلیمانی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ طیارے سے اترنے کے بعد المہندس اور دیگر کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہوئے جہاں آفیشلز کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی لبنان یا شام سے عراق پہنچے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے نتیجے میں سلیمانی اور المہندس دونوں کے جسم کے پرخچے اڑ گئے اور قاسم کی لاش کی شناخت ان کی انگلی میں موجود انگوٹھی کی مدد سے کی گئی۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکا کے پاس قانونی سطح پر ان حملوں کا کیا اختیار تھا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر امریکی اہلکاروں اور مفادات کو خطرات لاحق ہوں تو وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں البتہ پنٹاگون اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ قاسم سلیمانی امریکا کے خلاف نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ہاؤس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح امریکی جانوں اور مفادات کا دفاع ہے لیکن ہم اشتعال انگیز کارروائیاں کر کے امریکی فوجیوں، سفارتکاروں یا دیگر کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کی کارروائی سے تشدد کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور امریکا اور دنیا کسی بھی ایسی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف اور ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اس کارروائی کو جلتی پر تیل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی سے امریکا مشرق وسطیٰ میں ایک نئے تنازع کا حصہ بن گیا اور پہلے سے عدم توازن کا شکار خطے کے تناؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔