دنیا

کشیدگی ختم کرنے کیلئے ایرانی وزیر خارجہ برسلز مدعو

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو برسلز آنے کی دعوت دے دی۔

یورپی یونین نے ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد خلیج میں 'کشیدگی کو ختم' کرنے کے لیے ایران کے وزیر خارجہ کو برسلز میں مدعو کرلیا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل امریکا نے بغداد میں ایئرپورٹ کے قریب قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے واشنگٹن اور تہران کے مابین سخت بیانات کا تبادلہ جارہی ہے اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران جوہری معاہدہ بچانے کیلئے فریقین کا اہم اجلاس ’مثبت‘ قرار

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو ٹیلی فون پر برسلز آنے کی دعوت دی۔

بیان میں کہا گیا کہ 'جوزپ بوریل نے ایرانی وزیر خارجہ کو برسلز آنے کی دعوت دی تاکہ وہ مذکورہ کشیدگی کو کم کرنے سے متعلق بات چیت کرسکیں'۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے کہا کہ علاقائی سیاسی حل ہی 'آگے بڑھنے کا واحد راستہ' ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ایران امریکا جوہری معاہدہ 2015 کے 'تحفظ کی اہمیت' پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے تصدیق کی کہ 'کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے اپنے کردار کو مکمل طور پر ادا کرتے رہیں گے اور معاہدے کی حمایت میں دیگر شرکا کا اعتماد برقرار رکھیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ٹرمپ نے اوباما کی ضد میں ایران سے جوہری معاہدہ منسوخ کیا‘

انہوں نے مزید کہا کہ 'اور کوشش ہوگی کہ جوہری معاہدے پر علمدرآمد کے لیے تمام فریقین کا عزم برقرار رہے'۔

خیال رہے کہ 2015 میں امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت تہران محدود پیمانے سے بڑھ کر یورینیم کی افزودگی نہیں کرے گا۔

15 جولائی کو امریکا میں سابق برطانوی سفیر کے افشا ہونے والے سفارتی خطوط میں انکشاف کیا گیا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کو محض سابق امریکی صدر بارک اوباما سے ضد کے باعث منسوخ کیا تھا۔

انہوں نے مراسلے میں کہا تھا کہ ’اس سے بڑھ کر ٹرمپ انتظامیہ کے پاس اگلے دن کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے یورپ سمیت دیگر اتحادیوں کے ساتھ رابطے کی بھی کوئی تجویز نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: ایرانی جنرل کی ہلاکت پر امریکا میں بھی ملک گیر احتجاج

واضح کہ برطانوی پولیس نے صحافیوں کو خفیہ سرکاری دستاویزات شائع کرنے پر سنگین مقدمات کی دھکمی دی تھی۔