بات مان لیجیے، وزیرِاعظم حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہیں!


حکومت کو ہلا کر رکھ دینے میں مہنگائی کا کوئی ثانی نہیں۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس حکومت کے دوران یہ نہ تو پہلا ایسا موقع ہے نہ ہی آخری۔
گزشتہ برس تقریباً اسی ماہ و تاریخ کے آس پاس ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں، جس کی وجہ 2018ء کے آخری دن پر لیا گیا ایک فیصلہ تھا۔
اس وقت شائع ہونے والی خبروں کے مطابق کہیں کہیں ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد تک اضافہ بتایا گیا تھا۔ ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر ہونے والی شدید تنقید پر ضابطہ لانے کے لیے حکومت سرگرم ہوگئی اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے افسران نے پارلیمانی کمیٹیوں کو بتایا کہ ادویات ساز کمپنیوں نے 2 نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد اپنی مجاز سے بڑھ کر قیمتوں میں اضافہ کیا۔
اپریل کے آتے آتے وزیرِ صحت عامر محمود کیانی نے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے اس پورے معاملے کو اپنی غلطی قرار دے دیا اور پھر 23 اپریل تک وزیرِاعظم نے عامر محمود کیانی کو عہدے سے فارغ کردیا۔ انہوں نے صحت کے عالمی ادارے سے منسلک معزز افسر ظفر مرزا کو اپنا معاونِ خصوصی برائے صحت مقرر کیا۔
ابھی حال ہی جنوری کی ابتدا میں وہ ٹی وی شو میں گفتگو کے دوران ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی لانے کے وعدے کو دہراتے ہوئے نظر آئے۔ جبکہ گزشتہ برس 25 دسمبر کو کابینہ ڈریپ کے ذریعے 89 ادویات کی قیمتوں میں کمی کا حکم دینے جیسے فیصلے لیتے ہوئے دکھائی دی۔ مگر میڈیا کے چند حلقوں کے مطابق گزشتہ برس کی ابتدا میں نوٹیفکیشن کے ذریعے قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے 40 سالہ ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
حکومت نے اپنے دفاع میں یہ کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری کیے تھے۔ تاہم اس دعوے سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ شدید عوامی ردِعمل کے بعد انہوں نے ادویات کی قیمتوں میں کمی کو کیسے ممکن بنایا۔ حکومتی مؤقف سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کس طرح کئی ادویات کی قیمتوں میں مجازِ حد سے کہیں زیادہ آگے بڑھ کر اضافہ کیا گیا۔
میرے خیال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناتجربے کاری کے دن تھے، جن میں نئی نویلی حکومت کام سیکھتی ہے، اور اس دوران انہوں نے لاپروائی کے ساتھ ایک بڑے ہی نازک کام کو انجام دیا اور جن کو بوتل سے آنے دیا اور اس وقت کے بعد سے سوالات کا دفاع کرتے کرتے مہینوں گزار دیے گئے۔
بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں غربا کو اس وقت شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جب زندگی بچانے والی اہم ترین ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com