کچھ اسی طرح کی کوشش برطانیہ میں ہونے والے انٹرنیشنل ایتھلیٹس مقابلوں سے قبل کی گئی تھی جب لوگوں کو ’پول والٹ‘ کے مقابلے میں مقامی اسٹارز کے ساتھ شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور انہیں اسٹارز کو ہرانے کی صورت میں انعام کی خوشخبری بھی سنائی گئی تھی۔ یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی تھی اور لندن میں منعقد ہونے والے اس پروموشن ایونٹ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے اس کوشش کو کامیابی کی سند عطا کردی تھی۔
ورلڈ کپ میں کیا گیا تجربہ کچھ اسی طرح کی کوشش گزشتہ سال کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل بھی کی گئی تھی جب لوگوں نے اپنے پسندیدہ کرکٹ اسٹارز کے ہمراہ چھوٹے کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی تھی۔
سوشل میڈیا کا استعمال اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ورلڈ کپ میں منعقدہ اس سرگرمی کو سب سے زیادہ پذیرائی سوشل میڈیا پر ہی حاصل ہوئی تھی۔ اسی طرح ٹینس، فٹبال، کرکٹ سمیت دنیا بھر کے کھیلوں میں ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل سوشل میڈیا پر انٹرنیشنل سپر اسٹارز کے ذریعے پیغام دلوائے جاتے ہیں اور ان کی ویڈیوز پوسٹ کی جاتی ہیں جس سے ایونٹ کے فروغ میں کافی حد تک مدد ملتی ہے۔
للچاتی آفرز کی ضرورت ایک عام تاثر یہ ہے کہ لوگ مہنگے ٹکٹ نہیں خریدتے یا ٹکٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے اسٹیڈیم کا رخ نہیں کرتے، لیکن اس حوالے سے سوچنے کی بات یہ کہ ہے جب لوگ مختلف طرح کی سیلوں پر کئی کئی ہزار روپے ایک جھٹکے میں خرچ کرسکتے ہیں تو پھر ٹکٹ کے لیے اتنا سوچنا کیوں؟ اس لیے ہمیں یہاں اسی سیل کی منطق کو دیکھنا ہوگا۔
دنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی لوگ رعایتی یا مفت اشیا کے ٹیگز میں کافی دلچسپی لیتے ہیں یعنی ایک کے ساتھ ایک فری یا پھر اتنے کی خریداری پر اتنے پیسوں کی بچت۔ مارکیٹنگ کی یہ حکمت عملی پاکستان جیسے معاشرے میں ہمیشہ بہت کارگر رہی ہے لہٰذا پی ایس ایل میں چند اسپانسر کمپنیوں یا بڑے بڑے برانڈز کا سہارا لے کر لوگوں کو رعایتی نرخوں پر ٹکٹ کی فروخت ایک اچھی مہم کی شکل اختیار سکتی ہے۔
مہنگے ٹکٹ فروخت کرنے کا نسخہ عموماً سستے یا کم مالیت کے ٹکٹ تو فروخت ہوجاتے ہیں لیکن ہزار روپے یا اس سے زائد مالیت کے ٹکٹ خریدنے میں لوگ ہچکچاہٹ کا شکات نظر آتے ہیں لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ زیادہ مالیت یا مہنگے ٹکٹ نہ بکنے کی صورت میں کوئی اسکیم متعارف کرائے۔ جیسے 3 یا 4 ٹکٹ کے ساتھ ایک ٹکٹ فری۔ اگر مفت ٹکٹ دینا ممکن نہ ہو تو رعایتی نرخوں پر ٹکٹ کی فراہمی بھی شائقین کی ایونٹ میں دلچسپی اور ٹکٹ کی خریداری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
دنیا بھر میں ٹکٹ فروخت نہ ہونے کی صورت میں سپر اسٹارز اور عوام میں مقبول شخصیات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اور کئی مواقعوں پر سپر اسٹارز کی میچ کے مخصوص اسٹینڈز میں موجودگی اور عوام کو ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا لالچ دے کر بھی ٹکٹ کی خریداری کے لیے توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔
اسپانسرز / فرنچائز کی ذمہ داریاں اس سلسلے میں خاص طور پر اسپانسرز کی مدد بھی لی جا سکتی ہے اور انہیں اعزازی ٹکٹ دینے کے بجائے چند ٹکٹ خریدنے کا پابند بنانے یا اپنی مصنوعات کے ساتھ فری ٹکٹ کی کوئی آفر پیش کرنے کا معاہدہ بھی سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک اور حوالے سے بھی فرنچائز کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اور وہ یہ کہ شائقین پی ایس ایل میں جس ٹیم کے سب سے زیادہ میچوں کے ٹکٹ خریدیں اس فرنچائز کی کٹ مذکورہ شائق کو مفت دی جائے اور اگر سیکیورٹی مسائل نہ ہوں تو ہر میچ میں ایک یا 2 تماشائیوں کو ایک مرتبہ ٹیم کے ڈگ آؤٹ کا ایک چکر لگانے کا موقع بھی فراہم کرنا کسی بھی طور پر بُرا آپشن نہیں ہوگا۔
میدان میں تفریح کا انتظام شائقین کرکٹ کو اسٹیڈیم لانے کے لیے میچوں کے دوران تفریحی سرگرمیوں کا انعقاد بھی ایک اچھا اقدام ثابت ہوسکتا ہے مثلاً چند میچوں میں مختلف اسٹارز کو بلا کر وقفے کے دوران چھوٹے کنسرٹ کا انعقاد کیا جائے۔
شائقین کو قیدی ہونے کا تاثر نہ دیا جائے خاص طور پر پاکستان میں یہ دیکھا گیا تھا ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے شائقین پر اسٹیڈیم میں کھانا خریدنے کا اضافی خرچ بھی لاگو ہوجاتا ہے۔ اس لیے چاہیں تو سیکیورٹی مزید سخت کرلیں، لیکن شائقین کو اس حوالے سے چھوٹ دینی چاہیے، اور پوری دنیا میں ہی ایسا ہوتا ہے، کہ آخر شائقین اسٹیڈیم کا رخ تفریح کے لیے کرتے ہیں، کسی قید میں آنے کے لیے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
ماحول بنانے کی ضرورت ہے لیگ شروع ہونے میں اب صرف 2 ہفتے ہی رہ گئے ہیں، لیکن ابھی تک کسی بھی شہر میں لیگ سے متعلق تیاریاں بالکل نظر نہیں آرہیں، لہٰذا اس حوالے سے خاص کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پی سی بی کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے میچوں کی میزبانی کرنے والوں شہروں میں بڑے بڑے تشہیری بل بورڈز کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے قد آور مجسموں کو بھی نمایاں مقامات پر لگائے تاکہ عوام میں بھی ایونٹ کے حوالے جوش و جذبہ پیدا کیا جاسکے۔
اسامہ افتخار
اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔