نقطہ نظر

پی ایس ایل میں خالی میدانوں سے بچنے کے لیے ’یہ کام ضرور‘ کریں

ٹرینڈز یہ بتاتے ہیں کہ ہم ایک یا 2 میچوں کے لیے تو جوش و جذبہ دکھا سکتے ہیں، مگر طویل سفر پر ہم کچھ تھک سے جاتے ہیں۔

ملک میں 10سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ہورہی تھی اور کرکٹرز، میڈیا اور شائقین سمیت سب ہی اس یادگار موقع پر بہت پُرجوش تھے کیونکہ ملک کا دورہ کرنے والی ٹیم اور کوئی نہیں بلکہ وہی سری لنکن ٹیم تھی جو 10سال قبل دہشت گرد حملے کا نشانہ بنی تھی۔

10سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی کے باوجود راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں شائقین سے خالی اسٹینڈز نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا، لیکن سرد موسم اور بارش نے ایک بہانہ بنانے کا موقع فراہم کردیا اور یوں کچھ عزت رہ گئی۔ لیکن یہ رسوائی راولپنڈی تک محدود نہیں رہی بلکہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کراچی نے بھی ٹیسٹ میچ کا کوئی اچھا استقبال نہیں کیا اور ایسا ایک موقع بھی نہیں آیا جب میدان مکمل طور پر بھر گیا ہو۔

ان خالی میدانوں کے باوجود بھی سری لنکن ٹیم آئی اور بہت ساری اچھی یادوں کے ساتھ چلے گئی۔

اب موقع تھا بنگلہ دیشی ٹیم کی آمد کا، اور چونکہ پہلے ٹی20 سیریز کھیلی جانی تھی اور مقام بھی اس بار پنڈی یا کراچی نہیں لاہور تھا، اس لیے یہ پوری امید تھی کہ تینوں میچوں میں ایک خالی کرسی بھی شاید دیکھنے کو نہ ملے، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، کیونکہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں بھی یہی مایوس کن مناظر دیکھنے کو ملے جو پنڈی اور کراچی میں دیکھنے کو ملے۔

اب جبکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سر پر کھڑی ہے اور پہلی مرتبہ جب یہ لیگ مکمل طور پر پاکستان میں ہورہی ہے تو یہ سوال اپنی جگہ جوں کا توں برقرار ہے کہ آخر ہم کس طرح اسٹیڈیم کو تماشائیوں سے بھر سکیں گے؟

متحدہ عرب امارات میں خالی اسٹیڈیم کے سوال پر ہمیشہ یہی تسلی دی گئی کہ چونکہ یہ میچ نیوٹرل مقام پر ہوتے ہیں اس لیے لوگ زیادہ نہیں آسکتے، لیکن جس دن یہ لیگ پاکستان میں ہوئی اس دن میدان مکمل طور پر ہاؤس فل ملیں گے۔

2017ء میں لاہور میں ہونے والے فائنل اور 2018ء میں لاہور میں 2 مقابلوں اور کراچی میں منعقد ہونے والے فائنل کی بات کی جائے تو یہ دعویٰ 200 فیصد ٹھیک تھا، لیکن جب پچھلے سال کراچی میں 8 مقابلوں کا انعقاد ہوا تو صورتحال تھوڑی سی نازک لگی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ایک یا 2 میچوں کے لیے تو جوش و جذبہ دکھا سکتے ہیں، مگر طویل سفر پر ہم کچھ تھک سے جاتے ہیں۔

ظاہری طور پر تو لیگ کے انعقاد سے متعلق تیاریاں زوروں پر ہیں، اور خبریں تو یہ بھی آرہی ہیں کہ ٹکٹ کی فروخت کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے، لیکن حال ہی میں پاکستان میں منعقد ہونے والی 2 سیریز نے کچھ ڈرا سا دیا ہے، اور سوچ رہا ہوں کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور پی ایس ایل انتظامیہ تمام 34 یا ان میں سے اکثر میچوں میں شائقین کو اسٹیڈیم تک لانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ کیونکہ ماضی میں تو ہمیشہ ہی ٹکٹ کی فروخت کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے لیکن عملی طور پر اکثر کچھ مختلف ہی ہوتا ہے۔

دیکھیے ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ہونے والی لیگز دنیا میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ان لیگوں سے متعلق جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا میچ منعقد ہوتا ہو جس میں خالی کرسیاں نظر آتی ہوں۔

ان ممالک کے علاوہ اگر دیگر لیگز کی بات کی جائے تو وہ شاید اب تک اسی لیے کامیابی کا لیبل حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ وہاں تماشائیوں نے ان کو یہ سند نہیں بخشی۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری لیگ کا ذکر بھی تین بڑے ممالک کی فہرست میں ہو تو پھر ہر ہر طرح سے ہمیں اس سے متعلق سوچنا ہوگا بلکہ سوچ سے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔

شائقین کو میدان میں لانے کے لیے بورڈ اور پی ایس ایل انتظامیہ کیا کچھ اقدامات اٹھاسکتی ہے، اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، ممکن ہے ان سے کچھ فائدہ اٹھایا جاسکے۔

بڑے ناموں کو استعمال کیا جائے

ایونٹس کی تشہیر اور شائقین کی توجہ مبذول کرانے کے لیے عموماً مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جیسے کھیل سے متعلق بڑے ناموں کو بازاروں اور شاپنگ مالز لایا جائے اور عوام کے ساتھ ان کی براہِ راست گفتگو کا ماحول بنایا جائے، تاکہ لوگوں میں اس ایونٹ سے متعلق آگہی بھی ہو اور جوش و خروش کے ساتھ ساتھ انہیں میدان میں جاکر یہ مقابلے دیکھنے کی تحریک بھی ملے۔

کچھ اسی طرح کی کوشش برطانیہ میں ہونے والے انٹرنیشنل ایتھلیٹس مقابلوں سے قبل کی گئی تھی جب لوگوں کو ’پول والٹ‘ کے مقابلے میں مقامی اسٹارز کے ساتھ شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور انہیں اسٹارز کو ہرانے کی صورت میں انعام کی خوشخبری بھی سنائی گئی تھی۔ یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی تھی اور لندن میں منعقد ہونے والے اس پروموشن ایونٹ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے اس کوشش کو کامیابی کی سند عطا کردی تھی۔

ورلڈ کپ میں کیا گیا تجربہ

کچھ اسی طرح کی کوشش گزشتہ سال کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل بھی کی گئی تھی جب لوگوں نے اپنے پسندیدہ کرکٹ اسٹارز کے ہمراہ چھوٹے کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی تھی۔

سوشل میڈیا کا استعمال

اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ورلڈ کپ میں منعقدہ اس سرگرمی کو سب سے زیادہ پذیرائی سوشل میڈیا پر ہی حاصل ہوئی تھی۔ اسی طرح ٹینس، فٹبال، کرکٹ سمیت دنیا بھر کے کھیلوں میں ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل سوشل میڈیا پر انٹرنیشنل سپر اسٹارز کے ذریعے پیغام دلوائے جاتے ہیں اور ان کی ویڈیوز پوسٹ کی جاتی ہیں جس سے ایونٹ کے فروغ میں کافی حد تک مدد ملتی ہے۔

للچاتی آفرز کی ضرورت

ایک عام تاثر یہ ہے کہ لوگ مہنگے ٹکٹ نہیں خریدتے یا ٹکٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے اسٹیڈیم کا رخ نہیں کرتے، لیکن اس حوالے سے سوچنے کی بات یہ کہ ہے جب لوگ مختلف طرح کی سیلوں پر کئی کئی ہزار روپے ایک جھٹکے میں خرچ کرسکتے ہیں تو پھر ٹکٹ کے لیے اتنا سوچنا کیوں؟ اس لیے ہمیں یہاں اسی سیل کی منطق کو دیکھنا ہوگا۔

دنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی لوگ رعایتی یا مفت اشیا کے ٹیگز میں کافی دلچسپی لیتے ہیں یعنی ایک کے ساتھ ایک فری یا پھر اتنے کی خریداری پر اتنے پیسوں کی بچت۔ مارکیٹنگ کی یہ حکمت عملی پاکستان جیسے معاشرے میں ہمیشہ بہت کارگر رہی ہے لہٰذا پی ایس ایل میں چند اسپانسر کمپنیوں یا بڑے بڑے برانڈز کا سہارا لے کر لوگوں کو رعایتی نرخوں پر ٹکٹ کی فروخت ایک اچھی مہم کی شکل اختیار سکتی ہے۔

مہنگے ٹکٹ فروخت کرنے کا نسخہ

عموماً سستے یا کم مالیت کے ٹکٹ تو فروخت ہوجاتے ہیں لیکن ہزار روپے یا اس سے زائد مالیت کے ٹکٹ خریدنے میں لوگ ہچکچاہٹ کا شکات نظر آتے ہیں لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ زیادہ مالیت یا مہنگے ٹکٹ نہ بکنے کی صورت میں کوئی اسکیم متعارف کرائے۔ جیسے 3 یا 4 ٹکٹ کے ساتھ ایک ٹکٹ فری۔ اگر مفت ٹکٹ دینا ممکن نہ ہو تو رعایتی نرخوں پر ٹکٹ کی فراہمی بھی شائقین کی ایونٹ میں دلچسپی اور ٹکٹ کی خریداری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

دنیا بھر میں ٹکٹ فروخت نہ ہونے کی صورت میں سپر اسٹارز اور عوام میں مقبول شخصیات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اور کئی مواقعوں پر سپر اسٹارز کی میچ کے مخصوص اسٹینڈز میں موجودگی اور عوام کو ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا لالچ دے کر بھی ٹکٹ کی خریداری کے لیے توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔

اسپانسرز / فرنچائز کی ذمہ داریاں

اس سلسلے میں خاص طور پر اسپانسرز کی مدد بھی لی جا سکتی ہے اور انہیں اعزازی ٹکٹ دینے کے بجائے چند ٹکٹ خریدنے کا پابند بنانے یا اپنی مصنوعات کے ساتھ فری ٹکٹ کی کوئی آفر پیش کرنے کا معاہدہ بھی سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک اور حوالے سے بھی فرنچائز کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اور وہ یہ کہ شائقین پی ایس ایل میں جس ٹیم کے سب سے زیادہ میچوں کے ٹکٹ خریدیں اس فرنچائز کی کٹ مذکورہ شائق کو مفت دی جائے اور اگر سیکیورٹی مسائل نہ ہوں تو ہر میچ میں ایک یا 2 تماشائیوں کو ایک مرتبہ ٹیم کے ڈگ آؤٹ کا ایک چکر لگانے کا موقع بھی فراہم کرنا کسی بھی طور پر بُرا آپشن نہیں ہوگا۔

میدان میں تفریح کا انتظام

شائقین کرکٹ کو اسٹیڈیم لانے کے لیے میچوں کے دوران تفریحی سرگرمیوں کا انعقاد بھی ایک اچھا اقدام ثابت ہوسکتا ہے مثلاً چند میچوں میں مختلف اسٹارز کو بلا کر وقفے کے دوران چھوٹے کنسرٹ کا انعقاد کیا جائے۔

شائقین کو قیدی ہونے کا تاثر نہ دیا جائے

خاص طور پر پاکستان میں یہ دیکھا گیا تھا ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے شائقین پر اسٹیڈیم میں کھانا خریدنے کا اضافی خرچ بھی لاگو ہوجاتا ہے۔ اس لیے چاہیں تو سیکیورٹی مزید سخت کرلیں، لیکن شائقین کو اس حوالے سے چھوٹ دینی چاہیے، اور پوری دنیا میں ہی ایسا ہوتا ہے، کہ آخر شائقین اسٹیڈیم کا رخ تفریح کے لیے کرتے ہیں، کسی قید میں آنے کے لیے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔

ماحول بنانے کی ضرورت ہے

لیگ شروع ہونے میں اب صرف 2 ہفتے ہی رہ گئے ہیں، لیکن ابھی تک کسی بھی شہر میں لیگ سے متعلق تیاریاں بالکل نظر نہیں آرہیں، لہٰذا اس حوالے سے خاص کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پی سی بی کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے میچوں کی میزبانی کرنے والوں شہروں میں بڑے بڑے تشہیری بل بورڈز کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے قد آور مجسموں کو بھی نمایاں مقامات پر لگائے تاکہ عوام میں بھی ایونٹ کے حوالے جوش و جذبہ پیدا کیا جاسکے۔

ہم سب کو یاد ہوگا کہ جب کبھی بھی کرکٹ یا فٹبال ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان آتی ہے تو اسے پاکستانی کرکٹ یا فٹبال اسٹارز کے ہمراہ بڑے بڑے شہروں کے اہم مقامات کا دورہ کرایا جاتا ہے، اسی نہج پر پی ایس ایل ٹرافی کی بھی جلد رونمائی کرکے اسے اسٹارز کے ساتھ خصوصی طور پر تیار کردہ بسوں میں اہم مقامات پر لے جانے کی ضرورت ہے۔

بھارتی تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے

خالی میدانوں سے بچنے کے لیے سب سے بہتر مثال 2010ء میں بھارت میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز کی ہے، جہاں 71 ملکوں 7 ہزار سے زائد ایتھلیٹس کی شرکت کے باوجود خالی اسٹیڈیم کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے عالمی سطح پر سبکی سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے۔ کامن ویلتھ گیمز میں بھی پاکستان کی طرح ٹکٹ کی قیمتوں اور سخت سیکیورٹی جیسے مسائل شائقین کو متوجہ کرنے کی راہ میں حائل تھے لیکن اس موقع پر بھارت نے رعایتی نرخوں پر ایونٹس کے ٹکٹس کے اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں، معذوروں، بوڑھوں اور غریب افراد کو مفت ٹکٹ دینے کا اعلان کردیا۔

یہ وہ چند تجاویز تھیں، جن کی مدد سے پی ایس ایل کے حوالے سے ملک میں اچھا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یاد رہے کہ لیگ کو پاکستان میں لے آنا ہماری صرف نصف کامیابی ہے، ہمیں مکمل کامیابی اسی وقت ملے گی جب پوری لیگ کے دوران میدان ہاؤس فل ہوں گے اور پوری دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گی کہ واقعی، کرکٹ پاکستانی قوم میں خون کی طرح بہتی ہے۔

اسامہ افتخار

اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔