دنیا

شادی شدہ مرد حضرات کو ’پادری‘ بنانے کی تجویز مسترد

جنوبی امریکا کے 9 ممالک کے درجنوں بشپس نے ویٹی کن کو تجویز دی تھی کہ ’پادری‘ کے لیے ’کنوارے‘ کی شرط ختم کی جائے۔

مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے جنوبی امریکا کے دور دراز علاقوں کے چرچز میں شادی شدہ مرد ’پادری‘ حضرات کو مقرر کرنے کی تجویز مسترد کردی۔

گزشتہ برس اکتوبر میں جنوبی امریکا کے متعدد ممالک کے درجنوں بشپس نے ویٹی کن کو تجویز دی تھی کہ ’شادی شدہ‘ مرد حضرات کو ’پادری‘ مقرر کرنے کی قانونی اجازت دی جائے۔

یہ تجویز جنوبی امریکا کے کم سے کم 9 ممالک کے ہزاروں گاؤں اور دور دراز شہروں اور علاقوں کے چرچز میں پادریوں کی سخت قلت کے بعد دی گئی تھی۔

اکتوبر 2019 میں سامنے آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی امریکا کے ایمیزون خطے میں موجود کم سے کم 9 جنوبی امریکا کے ممالک کے ہزاروں دور دراز علاقوں میں پادری مذہبی رہنماؤں کی قلت ہوگئی۔

رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ جنوبی امریکا کے 85 فیصد گاؤں کے چرچز کسی پادری سے محروم ہیں، چوں کہ مذکورہ گاؤں دور دراز علاقوں میں واقع ہوتے ہیں، اس لیے وہاں کوئی غیر شادی شدہ شخص ’پادری‘ بن کر جانے کو تیار نہیں اور نہ ہی مقامی سطح پر ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو مذہب کے بہت قریب بھی ہوں اور کنوارے بھی ہوں۔

رپورٹس کے مطابق جنوبی امریکا کے مذکورہ ممالک کے ہزاروں گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں کے چرچز میں کوئی پادری مقرر نہیں، اس وجہ سے وہاں کے مسیحی پیروکاروں کو ہفتہ وار عبادات سمیت دیگر عبادات میں دشواری کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ہزار سال بعد شادی شدہ مرد حضرات کو ’پادری‘ بنانے کی تجویز

دور دراز علاقوں کے چرچز میں پادریوں کی سنگین قلت کے بعد جنوبی امریکا کے ممالک کے بشپس نے مسیحیت کے مرکز ویٹی کن کو تجویز دی تھی کہ شادی شدہ افراد کو ’پادری‘ بنانے کی اجازت دیے جانے سے ’پادریوں‘ کی قلت کا معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ جنوبی امریکا کے بشپس کی جانب سے دی گئی تجویز پر ویٹی کن میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بحث کے بعد اس کی منظوری دی جائے گی۔

یہ خیال بھی کیا جا رہا تھا کہ ممکنہ طور پر شادی شدہ مرد حضرات کو ’پادری‘ بنانے کی مشروط اجازت صرف جنوبی امریکا کے ممالک میں ہی دی جائے گی تاہم اب پوپ فرانسس نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پوپ فرانسس نے توقعات کے برعکس واضح طور پر شادی شدہ مرد حضرات کو جنوبی امریکا کے ممالک کے دور دراز علاقوں کے چرچز میں ’پادری‘ کے طور پر مقرر کرنے کی تجویز مسترد کردی۔

رپورٹ میں ویٹی کن سٹی کے عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اگرچہ پوپ فرانسس نے مذکورہ تجویز کو ڈیڑھ ماہ قبل ہی مسترد کرکے دستاویزات تیار کرلیے تھے تاہم انہیں ترجمہ کرنے میں وقت لگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پوپ فرانسس کے حکم نامے سے متعلق جاری کیے گئے 32 صفحات میں شادی شدہ مرد حضرات کو ’پادری‘ مقرر کرنے والی تجویز کے قانون کا حوالہ دیے بغیر کہا گیا ہے کہ ’پادری‘ کا عہدہ صرف غیر شادہ شدہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں۔

دستاویزات میں پوپ فرانسس نے جنوبی امریکی ممالک کے دور دراز چرچز میں ’پادریوں‘ کی قلت کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے حل کرنے کے لیے ہمیں دوسرے متبادل راستے تلاش کرنے پڑیں گے۔

پوپ فرانسس نے دستاویزات میں تجویز دی کہ دوسرے خطے کے مذہبی رہنماؤں کو جنوبی امریکی ممالک کے دور دراز کے چرچز میں ’پادری‘ مقرر کرکے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

ساتھ ہی پوپ فرانسس نے دیگر مذہبی پیشواؤں کو بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دیگر راستے تلاش کرنے کی تلقین کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاں پوپ فرانسس نے ’پادری‘ کے لیے غیر شادہ شدہ ہونا لازمی قرار دیا وہیں پوپ فرانسس نے خواتین کو بھی بطور (ڈیکن) یعنی چھوٹا پادری مقرر کرنے پر پابندی لگادی۔

پوپ فرانسس نے اس کی وضاحت کیے بغیر لکھا کہ خواتین کو چھوٹے پادری کے طور پر مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ کیتھولک مسیحی فرقے میں کسی بھی شادی شدہ یا جنسی طور پر متحرک رہنے والے مرد کو ’پادری‘ بننے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی بعض مذہبی عہدے رکھنے والی خواتین کو شادی اور جنسی طور پر متحرک رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔

مسیحیت میں کم سے کم ایک ہزار سال قبل ’پادری‘ اور ’راہبہ‘ سمیت دیگر مذہبی عہدے رکھنے والے افراد کے غیر شادی شدہ ہونے اور ان کے جنسی طور پر غیر متحرک ہونے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

اگرچہ مسیحیت شادی اور جنسیت کے خلاف نہیں، تاہم مذہبی عہدہ رکھنے والے افراد کو اس طرح کے تعلقات اور رشتوں کی ممانعت ہوتی ہے۔

اگر پوپ فرانسس شادی شدہ مرد حضرات کو جنوبی امریکی ممالک میں ’پادری‘ بنانے کی اجازت دیتے تو اسے مسیحیت میں گزشتہ ایک ہزار سال میں سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جاتا۔