کھیل

تنازعات میں گھرے عمر اکمل کے کیریئر پر ایک نظر

بہترین انداز میں کیریئر کا آغاز کرنے والے مڈل آرڈر بلے باز عمر اکمل پورا کیریئر تنازعات سے عبارت ہے۔

اگر دنیائے کرکٹ میں گزشتہ دہائی کی سب سے متنازع اور اسکینڈل کی زد میں رہنے والی شخصیت کا نام پوچھا جائے تو پاکستانی شائقین کے لیے اس سوال کا جواب دینا سب سے آسان ہو گا کیونکہ وہ جھٹ سے کسی اور کا نہیں بلکہ عمر اکمل کا نام لیں گے۔

لیکن ایسا نہیں کہ ہمیشہ سے ہی عمر اکمل تنازعات کا حصہ رہے بلکہ انڈر19 سطح پر شاندار کارکردگی کے بعد جب انہیں قومی ٹیم میں شامل کیا گیا تو ان کے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز کچھ اس انداز سے ہوا جس کا اکثر کھلاڑی صرف خواب دیکھتے ہیں۔

اپنے تیسرے ہی ون ڈے میچ میں سنچری کے ساتھ عمر اکمل نے کیریئر کا بہترین انداز میں آغاز کیا لیکن دراصل یہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف دوروں میں شاندار بیٹنگ تھی، جس کے بعد انہیں پاکستان مڈل آرڈر بیٹنگ لائن کا مستقبل قرار دیا جانے لگا۔

مزید پڑھیں: اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی پر عمر اکمل معطل، پی ایس ایل سے باہر

نیوزی لینڈ کے خلاف کیریئر کے پہلے ٹیسٹ میچ میں ڈیونیڈن کی مشکل کنڈیشنز میں جہاں دیگر پاکستانی کھلاڑی 30کا ہندسہ بھی پار نہ کر سکے تھے، وہاں عمر اکمل نے شین بونڈ اور ڈینیئل ویٹوری پر مشتمل باؤلنگ اٹیک کے خلاف 129رنز کی اننگز کھیلی اور 82رنز بنانے والے کامران اکمل کے ہمراہ شاندار شراکت قائم کی اور دوسری اننگز میں بھی 75رنز بنائے۔

اس کے بعد آسٹریلیا میں بھی ان کی کارکردگی اور صلاحیت کو بہت پذیرائی ملی اور اس مرحلے پر کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل تصور کیے جانے والے اس نوجوان بلے باز کا کیریئر محض تنازعات کی عملی تصویر بن جائے گا۔

ضرور پڑھیں: ارے یہ عمر اکمل کون ہے؟

عمر اکمل کے کیریئر کو ابھی ایک سال ہی ہوا تھا تاہم کیریئر کے ابتدائی دنوں کے دوران ہی ان کے اندر چھپے 'متنازع بچے' نے پہلی مرتبہ انگڑائی لی اور پاکستان کرکٹ حکام ان کی اس حرکت پر دنگ رہ گئے۔

بھائی کی خاطر پہلی بار تنازع کی زد میں

بڑے بھائی کامران اکمل کی مستقل خراب فارم خصوصاً آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں وکٹوں کے پیچھے خراب کارکردگی کے سبب سلیکٹرز نے انہیں ٹیم سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مرحلے پر عمر اکمل نے بھائی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے 'جعلی انجری' کا بہانہ کرتے ہوئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں نہ کھیلنے کا اعلان کیا تاہم بعدازاں وہ یہ میچ کھیلے۔

یہ بھی پڑھیں: 'مضحکہ خیز ٹوئٹ' پر سوشل میڈیا پر عمر اکمل کے چرچے

اس حرکت پر بورڈ نے دونوں بھائیوں پر جرمانہ عائد کیا اور یہاں سے عمر اکمل اور تنازعات کی مایوس کن پریم کتھا کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔

عمر اکمل کی اس کے بعد ٹیسٹ میں خراب فارم کا سلسلہ جاری رہا اور 2011 میں زمبابوے کے خلاف بلاوایو میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے بعد وہ دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی نہ کر سکے۔

اس کے بعد عمر اکمل انتہائی معمولی واقعات پر تنازعات کی زینت بنتے رہے جو کسی بھی انٹرنیشنل کرکٹر کے شایان شان ہرگز نہ تھے۔

ٹریفک وارڈن سے جھگڑا

فروری 2014 میں لاہور کے علاقے گلبرگ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر عمر اکمل کا ٹریفک وارڈن نے چالان کردیا تھا جس پر وہ اہلکار سے الجھ پڑے تھے اور یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا تھا۔

ان پر ٹریفک پولیس اہلکار پر حملہ کرنے اور ان کی وردی پھاڑنے کا الزام تھا جس پر انہیں 12گھنٹے تک گرفتار رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ عمر اکمل عوامی سطح پر کسی بڑے تنازع کا حصہ بنے تھے۔

مزید پڑھیں: عمر اکمل کی جگہ انور علی گلیڈی ایٹرز کے اسکواڈ میں شامل

اس کے بعد 2017 میں بھی وہ وارڈن سے الجھ پڑے تھے جہاں ان پر خلاف قانون فینسی نمبر پلیٹ لگانے کا الزام تھا۔

ورلڈ کپ 2015 تک عمر اکمل محدود اوورز کی کرکٹ میں اکثر پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے میں کامیاب رہے لیکن ورلڈ کپ میں خراب کارکردگی کے بعد ان پر بتدریج پاکستان ٹیم کے دروازے بند ہوتے گئے اور عالمی کے بعد دورہ بنگلہ دیش کے لیے انہیں قومی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

وقار یونس کی منفی رپورٹ

ورلڈ کپ کے بعد کوچ وقار یونس کی رپورٹ میں بھی عمر اکمل اور ساتھی کھلاڑی احمد شہزاد کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے دونوں کے بارے میں منفی ریمارکس دیے گئے تھے۔

وقار یونس نے اپنی رپورٹ میں واضح الفاظ میں تحریر کیا تھا کہ عمر اکمل کو قربان کر کے ہم ایسے دوسرے کھلاڑیوں کو تیار کرسکتے ہیں جو کہ صحیح معنوں میں پاکستان کا ستارہ سینے پر سجا کر ملک کی نمائندگی پر فخر محسوس کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عمر اکمل ایک نئے اسکینڈل کی زد میں، پابندی کا خدشہ

اس موقع پر بھی اپنے کھیل، فٹنس اور کارکردگی پر دھیان دینے کے بجائے عمر اکمل آف دی فیلڈ متنازع سرگرمیوں کی زینت بنے رہے جس کا سب سے بڑا ثبوت حیدرآباد تنازع ہے۔

ویسے تو حیدرآباد کبھی بھی تفریحی یا سیاحتی مرکز کے طور پر مشہور نہیں رہا لیکن شاید عمر اکمل اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ڈانس پارٹی اور لوگو اسکینڈل

نومبر 2015 میں قائد اعظم ٹرافی میں سوئی گیس کی طرف سے میچ کھیلنے کے لیے عمر اکمل کا حیدرآباد جانا ہوا تو وہاں انہوں نے پارٹی میں جانے کی اجازت طلب کی لیکن بورڈ نے انہیں یہ اجازت نہیں دی۔

بعدازاں عمر اکمل کے ڈانس پارٹی میں غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں جس کے بعد پی سی بی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے عمر اکمل کو انگلینڈ کے خلاف ٹی20 میچ کے لیے ٹیم سے ڈراپ کرنے کے ساتھ ساتھ شوکاز بھی جاری کردیا تھا اور اس وقت کے چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ سلیکشن کمیٹی نے ان کے کہنے پر عمر اکمل کو اسکواڈ سے ڈراپ کیا۔

ابھی اس تنازع کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ مڈل آرڈر بلے باز لوگو اسکینڈل کا شکار ہو گئے۔

مزید پڑھیں: عمر اکمل کے ساتھ تنازع غلط فہمی کے نتیجے میں سامنے آیا، پی سی بی

سوئی گیس کے کھلاڑیوں کو مخصوص لوگو کا حامل یونیفارم پہننے کی اجازت ہے لیکن جنوری 2016 میں یونائیٹڈ بینک کے خلاف میچ عمر اکمل اجازت لیے بغیر ہی دوسرے لوگو کی شرٹ پہن کر میچ میں پہنچ گئے اور پی سی بی کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے جس پر ان پر نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی20 میچ میں شرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔

یکے بعد دیگرے تنازعات کے باوجود بھی عمر اکمل نے سبق نہ سیکھا اور اپریل 2016 میں ایک مرتبہ حیدرآباد اسکینڈل کی طرز کا ایک اور تنازع منظر عام پر آ گیا۔

فیصل آباد میں اسٹیج ڈرامے میں جھگڑا

فیصل آباد میں کھیلے گئے پاکستان کپ میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے عمر اکمل وہاں اسٹیج ڈراما دیکھنے گئے اور ان کی وہاں کسی بات پر تکرار ہو گئی اور یہ واقعہ میڈیا کی زینت بن گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عمر اکمل، شاہد یوسف، اویس ضیا، محمد نواز اور بلاول بھٹی مبینہ طور پر اسٹیج ڈرامہ دیکھنے گئے تھے اور وہاں کسی بات پر ان کی انتظامیہ سے تکرار ہو گئی جس سے معاملہ شدت اختیار کر گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اکیلا اسٹیج ڈراما دیکھنے گیا، جھگڑا نہیں ہوا'

اس دوران عمر اکمل کی آف دی فیلڈ سرگرمیوں پر اس وقت کے ہیڈ کوچ وقار یونس کی جانب سے انہیں مستقل تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ وہ سیلفیاں لینے سے زیادہ کھیل پر توجہ دیں۔

عمران خان سے شکایت

اپنی خراب کارکردگی پر توجہ دینے کے بجائے عمر اکمل ورلڈ ٹی20 میں ایک مرتبہ پھر اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بن گئے جب انہوں نے اس وقت میچ سے قبل پاکستان کے ڈریسنگ روم کا دورہ کرنے والے قومی ٹیم کے سابق کپتان اور عظیم کرکٹر عمران خان سے شکایت صحیح نمبر پر نہ کھلانے کی شکایت کی تھی۔

بھارت میں منعقدہ ورلڈ کپ میں عمران خان پاکستانی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں ملاقات کے لیے آئے تو عمر اکمل نے ان سے شکایت کی کہ ٹیم منیجمنٹ انھیں بیٹنگ آرڈر میں اوپر کے نمبر پر نہیں کھلارہی ہے۔

مئی 2017 میں ڈومیسٹک کرکٹ میں عمر اکمل کا ایک اور تنازع سامنے آیا جب پاکستان کپ میں پنجاب کی ٹیم کی قیادت کرنے والے عمر اکمل نے ٹاس کے موقع پر جنید خان کی عدم دستیابی کے حوالے سے سوال پر لاعلمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: عمر اکمل اور جنید خان کو وارننگ دینے کا فیصلہ

ٹاس کے موقع پر جنید خان کے نہ کھیلنے کی وجہ دریافت کرنے پر عمر اکمل نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں خود نہیں پتہ اور جب وہ میدان میں آئے تو علم ہوا تھا کہ فاسٹ باؤلر میچ کیلئے نہیں آئے۔

تاہم جنید خان نے ویڈیو پیغام کے ذریعے عمر کے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور عمر اکمل بھی اس بارے میں جانتے ہیں جبکہ اس بارے میں انہوں نے ٹیم کے ڈاکٹر کو بھی مطلع کیا تھا۔

کوچز سے خراب تعلقات اور الزامات

چیمپیئنز ٹرافی کے لیے عمر اکمل پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے لیکن جب پاکستانی ٹیم انگلینڈ پہنچی تو عمر اکمل مستقل دو دن فٹنس ٹیسٹ میں ناکام رہے جس کے بعد انہیں وطن واپس بھیج دیا گیا۔

اس واقعے کے چند ماہ بعد عمر اکمل نے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزامات عائد کیے کہ مکی آرتھر نے ان سے نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے گالیاں دیں۔

پی سی بی نے خلاف ضابطہ پریس کانفرنس اور ہیڈ کوچ پر الزامات عائد کرنے پر عمر اکمل کو شوکاز نوٹس جاری کردیا تھا۔

اس تمام عرصے کے دوران عمر اکمل کے نت نئے تنازعات کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہا اور مئی 2018 میں انہوں نے سابق ہیڈ کوچ وقار یونس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اب دیکھتا ہوں تمہیں قومی ٹیم میں کون کھلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ٹیسٹ میچوں میں وکٹ کیپنگ کرنے کا کہا گیا لیکن میں نے اس سے انکار کردیا حالانکہ میں گزشتہ 3 سے 4 سال سے محدود اوورز کی کرکٹ میں وکٹ کیپنگ کی ذمے داریاں انجام دے رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمر اکمل کا نیا تنازع، وقار یونس پر الزامات لگا دیے

عمر اکمل نے کہا کہ میرا ماننا تھا کہ ان کنڈیشنز میں وکٹ کیپنگ کرنے سے میری بلے سے کارکردگی متاثر ہو سکتی تھی لیکن وقار یونس کو میری بات بری لگ گئی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے آج بھی وقار یونس کے الفاظ یاد ہیں اور انہوں نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مستقبل میں تمہیں کون کرکٹ کھلاتا ہے جس کے بعد میں نے ان سے درخواست کی کہ میں پاکستان کے لیے کھیلنا چاہتا ہوں۔

ورلڈ کپ 2019 سے قبل عمر اکمل کو کارکردگی دکھا کر قومی ٹیم میں واپسی کا نادر موقع ملا لیکن اس مرحلے پر بھی وہ اپنی سابق حرکتوں سے باز نہ آئے۔

میچ فکسنگ کی پیشکش کاا نکشاف

اسی دوران ایک ٹی وی انٹرویو میں عمر اکمل نے انکشاف کیا تھا کہ 2015 میں بھارت کے خلاف ایڈیلیڈ کے مقام پر کھیلے گئے میچ میں انہیں اسپاٹ فکسنگ کی پیشکش ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: آرتھر نے انضمام کے سامنے میری تذلیل کی:عمراکمل

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ ورلڈ کپ میں دو گیندیں نہ کھیلنے پر 2 لاکھ ڈالرز کی پیشکش ہوئی تھی، اس کے علاوہ جب وہ بھارت کے خلاف کھیلتے تو انہیں پیسوں کے عوض میچ نہ کھیلنے کی پیشکش کی جاتی تھی لیکن انہوں نے ہمیشہ اسے ٹھکرا دیا۔

اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی نے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا تھا جہاں ان پر میچ فکسنگ کی پیشکش کو رپورٹ نہ کرنے کا الزام تھا۔

ٹیم کرفیو کی خلاف ورزی اور فٹنس اسکینڈل

آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے پانچویں اور آخری میچ سے قبل ڈسپلن کی خلاف ورزی اور رات دیر تک ٹیم ہوٹل سے باہر رہنے پر مڈل آرڈر بلے باز پر میچ فیس کا 20 فیصد جرمانہ عائد کردیا گیا تھا۔

ابھی حال ہی میں عمر اکمل کا ایک اور تنازع اس وقت سامنے آیا جب عمر اکمل اور ان کے بھائی کو فٹنس ٹیسٹ کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں طلب کیا گیا جہاں رپورٹس کے مطابق انہوں نے عملے سے بدتمیزی کی۔

مزید پڑھیں: عمر اکمل کو آخری میچ سے قبل رات گئے باہر رہنے پر جرمانے کا سامنا

فٹنس ٹیسٹ کے دوران مطلوبہ معیار سے کم نمبر ملنے پر عمر اکمل غصے میں آ گئے اور ٹرینر کے سامنے شرٹ اتار کر اس سے سوال کیا کہ 'بتاؤ چربی کہاں ہے'۔

اب ان تمام تر اسکینڈلز کے بعد آج پاکستان کرکٹ بورڈ نے اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی پر عمر اکمل کو معطل کردیا ہے اور وہ پاکستان سپر لیگ کے 5ویں ایڈیشن میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔

عمر اکمل پر کیریئر کے دوران متعدد اسکینڈلز کے باوجود آج تک اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا تھا اور پی سی بی کرپشن قوانین کے حوالے سے سخت پالیسی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ یہ اسکینڈل ان کے کیریئر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔