دنیا

دنیا بھر کے ممالک کے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات

دنیا بھر میں وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے سبب حکومتوں نے اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔

چین میں کورونا وائرس کے کیسز میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے لیکن دنیا بھر میں وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے سبب حکومتوں نے اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔

کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چین میں کم ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام حکومتوں نے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پاکستان کا ایران سے براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے نائب مائیک پینس کو عالمی صحت کے اس بحران پر امریکا کا انچارج بنائے جانے کے ایک دن بعد آسٹریلیا اور تائیوان نے ہنگامی اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔

چین کی سرحدوں سے باہر وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے امریکا اور جنوبی کوریا نے وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے مشترکہ فوجی مشقیں ملتوی کردی ہیں۔

وائرس سے انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ دنیا کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور تیل اور ایشیائی حصص کی مارکیٹوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے جس کا تخمینہ 3 کھرب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے اور اس صورتحال میں سرمایہ کاروں نے سونے اور بانڈز میں سرمایہ کاری شروع کردی ہے۔

کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک 80 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ چین میں تقریباً 2800 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کا خطرہ: سعودی عرب نے عمرہ زائرین کے داخلے پر پابندی لگادی

یہ وائرس خصوصاً ایران، اٹلی اور جنوبی کوریا میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور حالیہ دنوں میں تیزی سے پھیلتی اس وبا کے سبب دنیا بھر کے ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

حال ہی میں ڈنمارک میں موجود ایک شہری میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو چند دن قبل ہی اٹلی سے چھٹیاں منا کر واپس لوٹا تھا۔

پاکستان کے بعد برازیل نے بھی لاطینی امریکا میں پہلے کیس کی تصدیق کردی ہے جبکہ سوئیڈن، ناروے، یونان، رومانیہ اور الجیریا میں بھی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

چین میں گزشتہ روز 406 کیس رپورٹ ہوئے تھے لیکن آج مزید 433 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ جمعرات کو مزید 29 افراد وائرس کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔

جنوبی کوریا نے بھی جمعرات کو مزید 334 افراد کے وائرس کا شکار ہونے کا اعلان کیا جس سے وہاں وائرس سے متاثرہ افراد کی کُل تعداد ایک ہزار 595 تک پہنچ گئی ہے جو چین کے باہر کسی بھی ملک میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

جنوبی کوریا کے ساحلی شہر میں ڈیوٹی پر تعینات 23 سالہ امریکی فوجی میں وائرس کی تشخیص کے بعد جنوبی کوریا نے سفر کرنے کے حوالے سے نئی ہدایات جاری کردی ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا واقعی ماسک کورونا سے بچا سکتا ہے؟

امریکا میں اس وقت وائرس کےا شکار 59 افراد موجود ہیں جن میں سے اکثر جاپان کی کروز شپ پر موجود تھے اور امریکا کا کہنا ہے کہ ایک شخص سے دوسرے میں وائرس کی منتقلی کا جو پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے اس نے کسی بھی دوسرے ملک کا سفر نہیں کیا تھا۔

ادھر لگاتار پانچویں دن امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مستقل مندی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وائرس سے امریکا کو بہت کم خطرات لاحق ہیں اور ہم خطرے کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

اٹلی میں ملک بھر میں مزید 100 افراد وائرس کا شکار ہوئے جس سے یورپ کے اس سیاحتی مرکز میں وائرس کا شکار افراد کی تعداد 400 تک پہنچ گئی ہے جو یورپ کے کسی بھی ملک میں وائرس کا شکار افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے جبکہ اٹلی میں 12افراد اس وائرس کے سبب ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق چین سے باہر اب تک مجموعی طور پر 50 افراد وائرس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں جس میں ایران میں مرنے والے 19 افراد بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 50 ممالک میں کورونا وائرس کے 32 ہزار مریض صحت یاب

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انتباہ جاری کیا ہے کہ دنیا اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور روزانہ دنیا بھر سے چین سے زیادہ تعداد میں کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جو ایک خطرناک امر ہے۔

چین جانے والے عالمی ادارہ صحت کے مشن کے مشترکہ سربراہ بروس ایلوارڈ نے خبردار کیا کہ دنیا اس وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے، اس سے بڑے پیمانے پر اور تیزی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

کورونا وائرس کا پھیلاؤ

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے اب تک 34 ممالک میں 2800 افراد ہلاک جبکہ 82 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے بڑی تعداد میں کیسز چین میں رپورٹ ہوئے۔

اس وائرس کے بارے میں یہ مانا جارہا ہے کہ یہ گزشتہ برس چین کے شہر ووہان میں سمندری غذا کی مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔

ماہرین صحت کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ وائرس چمگاڈر سے شروع ہوا اور پھر ممکنہ طور پر کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسان میں پھیلا۔

اس بارے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کچھ مقامات کو قرنطینہ میں تبدیل کرکے متاثرہ افراد کو 14 دن کی نگرانی میں بھی رکھا جارہا ہے۔

تاہم حالیہ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ وائرس چین کے علاوہ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔