پاکستان

پاکستان کے مرکزی شہروں میں ’عورت مارچ‘ کا انعقاد

عالمی یوم نسواں کے موقع پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے ریلیاں نکالیں۔
| |

عالمی یوم نسواں کی مناسبت سے 8 مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مرکزی شہروں میں سول سوسائٹی، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور شہریوں کی جانب سے 'عورت مارچ' کا انعقاد کیا گیا۔

خیال رہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے اور تقاریب کا انعقاد کیا۔

پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، سکھر اور ملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے ’عورت مارچ‘ کے حوالے سے ریلیاں نکالیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: عورت مارچ اور یوم خواتین ریلی کے شرکا میں تنازع

واضح رہے کہ عالمی یوم نسواں کی مناسبت سے خواتین نے ان پر ہونے والے تشدد، انہیں کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے، کاروکاری و سیاہ کاری سمیت ان کے دیگر مسائل کے خلاف ملک کے بڑے شہروں میں مظاہرے بھی کیے۔

اسلام آباد

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے شرکا نیشنل پریس کلب کے باہر جمع ہوئے۔

مارچ کے شرکا نے خواتین کی خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

بعد ازاں اسلام آباد میں منعقدہ مختلف ریلیوں کے شرکا کے درمیان تنازع کی اطلاعات سامنے آئی تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد میں عورت مارچ کے شرکا پر یوم خواتین ریلی کے شرکا کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا تھا تاہم پولیس کی بروقت مداخلت کے باعث صورت حال کو قابو کرلیا گیا اور دونوں ریلیوں کے شرکا کو علیحدہ علیحدہ راستوں پر منتقل کردیا گیا۔

لاہور

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 'عورت مارچ' کے شرکا لاہور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے جس میں انہوں نے مختلف پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے۔

اس موقع پر مارچ کے شرکا ڈرم بجا کر نعروں اور تالیوں کی گونج میں یوم خواتین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

عورت مارچ کے شرکا نے ایگرٹن روڈ سے ایوان اقبال تک مارچ کیا جن کی سیکیورٹی کے لیے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

سیکیورٹی میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں۔

کراچی

کراچی میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے فیرئیر ہال میں عورت مارچ کا انعقاد ہوا جس میں خواتین سمیت مردوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔

عورت مارچ میں خواجہ سراؤں نے بھی شرکت کی جبکہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ واک تھرو گیٹس اور خواتین پولیس اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔

مارچ میں شریک خواتین نے اپنے مطالبات کے حق کو تسلیم کرانے کے لیے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر بنیادی حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عورت مارچ: چینلز کو 'قابل اعتراض مواد' نشر کرنے سے متعلق پیمرا کا انتباہ

دوسری جانب گھریلو خواتین ورکرز فیڈریشن کے شرکا کی جانب سے بھی آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک مارچ کیا گیا۔

تنظیم کی جنرل سیکریٹری زہرا اکبر خان نے خواتین کی خود مختاری اور کام کرنے کی جگہ پر ہراساں اور تفریق سے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

ننگرپارکر

تھر کے علاقے نگر پارکر میں بھی سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کی جانب سے یوم نسواں منانے کے لیے تقریب منعقد کی گئی۔

سکھر

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سکھر میں بھی عورت آزادی مارچ کا انعقاد کیا گیا جو لب مہران سے شروع ہو کر سکھر پریس کلب پہنچا، جس میں ہر عمر کی سیکڑوں خواتین نے شرکت کی۔

سکھر میں ہونے والے عورت آزادی مارچ کی قیادت سماجی رہنما امر سندھو، عرفانہ ملاح اور عائشہ دھاریجو کر رہی تھیں جو بندر روڈ اور فوارہ چوک سے ہوتا ہوا پریس کلب پہنچا تھا۔

مذکورہ عورت آزادی مارچ میں کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، لاڑکانہ، ٹھٹھہ سمیت دیگر اضلاع سے خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔

اس موقع پر عورت مارچ کے شرکا نے کہا کہ سندھ کی عورتیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں، 'قوموں کی عزت ہم سے ہے ہمیں ہمارے حق دیے جائیں'۔

بدین

دوسری جانب ضلع بدین کے شہر کھوسکی میں عوت مارچ کے خلاف مذہبی جماعت کی اپیل پر شٹر بند ہڑتال بھی کی گئی اور شہر کا کاروبار بند رہا۔

خیال رہے کہ عالمی یوم نسواں کے موقع پر ’عورت مارچ‘ نکالنے کے اعلانات پر پاکستان میں کئی روز قبل ہی بحث کا آغاز ہوگیا تھا اور خواتین کی جانب سے مذکورہ مظاہروں میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ اور ’ہم جب چاہیں گی بچے پیدا کریں گی‘ جیسے نعرے لگانے پر سوشل میڈیا پر خواتین کو کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

اس بار ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے لیے شہریوں کی جانب سے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں جن میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ مظاہرے کے منتظمین کو ہدایت کرے کہ مظاہروں میں متنازع اور غیر اخلاقی بینر نہ اٹھائے جائیں۔

مزید پڑھیں: شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ کے منتظمین کو ہدایت کی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عورت مارچ میں متنازع اور غیر اخلاقی بینرز نہیں لائے جائیں گے۔

پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں ’عورت مارچ‘ کے مظاہرے دوپہر کے بعد شروع ہوئے جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی جبکہ مارچ میں ہر عمر، رنگ، نسل و مذہب کی خواتین شامل ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

گزشتہ چند سال سے عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہونے والے ’عورت مارچ‘ میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی شامل ہوکر خواتین کی خودمختاری و آزادی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

عالمی یوم نسواں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کی مناسبت سے مختلف تقریبات و مظاہروں کا انعقاد کیا گیا اور دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن ’میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں اور مجھے خواتین کے حقوق کا ادراک ہے‘ کے عزم کے اظہار کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

’یوم خواتین‘ منانے کا آغاز ایک صدی سے زائد عرصے سے قبل 1909 میں امریکا سے اس وقت شروع ہوا تھا جب خواتین نے پہلی بار فیکٹریوں میں ملازمت کے لیے اپنی تنخواہیں بڑھانے اور وقت کی میعاد مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل خواتین کو ملازمتوں کے دوران کم اجرت دیے جانے سمیت ان سے زیادہ دیر تک کام کروایا جاتا تھا۔

خواتین اس تفریق کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور جلد ہی انہوں نے اپنے مطالبات تسلیم کروالیے تاہم خواتین کی جانب سے حقوق کے لیے جدوجہد ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی اور آنے والے سال میں خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی دیگر ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھانا شروع کی۔

جلد ہی امریکا سے لے کر یورپ اور پھر ایشیا اور افریقہ جیسے خطے میں خواتین کے مظاہرے ہونے لگے اور خواتین کی تنظیمیں اور دیگر ایکشن فورم تشکیل پانے لگے اور ان ہی پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے خواتین نے دنیا کو اپنی اہمیت و حیثیت سے آگاہ کیا۔

کئی سال کی محنت اور مظاہروں کے بعد 1977 میں اقوام متحدہ (یو این) نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور تب سے ہر سال اسی دن پر دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں خواتین مختلف تقریبات، سیمینارز اور مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں۔

دنیا کی حکمران عورتیں

وجودِ زن سے ہے اقتصادی و سماجی ترقی ممکن

’یوم خواتین‘: وجود زن پر ظلم کی داستان سنانے والی چند تحاریک